سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُن سے کسی مُشرک نے کہا، اور مُشرک ان سے مذاق کیا کرتے تھے، میں تمہارے ساتھی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھتا ہوں کہ وہ تمہیں (ہر چیز) سکھاتے ہیں حتیٰ کہ قضائےحاجت کا طریقہ کار بھی۔ سیدنا سلمان نے فرمایا کہ جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دیا ہے کہ (قضائے حاجت کرتے وقت) ہم قبلہ کی طرف مُنہ نہ کریں، نہ اپنے دائیں ہا تھ سے استنجا کر یں،اور نہ تین ڈھیلوں سے کم پر اکتفا کر یں، اُن میں گوبر اور ہڈی نہ ہو۔ دورقی کی روا یت میں الفاظ اس طرح ہیں «قَالَ بَعضُ المُشرِکِینَ لِسَلمَانَ» ”کسی مشرک نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے کہا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: كتاب الطهارة: باب الاستطابة رقم الحديث: 262، سنن ترمذي: 41، سنن نسائي: 61، سنن ابي داوٗد: 7، سنن ابن ماجة: 316، مسند احمد ابن حنبل: 22590»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص وضو کرے، وہ ناک جھاڑے اور جو ڈھیلوں سےاستنجا کرے وہ طاق ڈھیلےاستعمال کرے۔“ اما م ابن مبارک کی روایت کی سند میں «سمع اباهريره» کے لفظ ہیں (جبکہ مذکورہ بالا سند میں «عن ابي هريرة» ہے) امام ابو بکر رحمہ الله فرماتے ہیں کہ میں نے یونس کو کہتے ہوئے سنا کہ امام ابن عیینہ رحمہ اللہ سے «ومن استجمر فليوتر» ”اور جو شخص استنجا کے لیے ڈھیلے استعمال کرے وہ طاق ڈھیلے استعمال کرے“ کا معنی پوچھا گیا تو ابن عیینہ رحمہ اللہ خاموش ہوگئے۔ ان سے کہا گیا کہ کیا آپ امام مالک رحمہ اللہ کی تشریح و تفسیر کو قبول کریں گے؟ انہوں نےپوچھا کہ امام مالک رحمہ اللہ نےکیا فرمایا ہے؟ کہا گیا کہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتےہیں «الاستجمار» کا معنی ڈھیلوں سے استنجا کرنا ہے۔ (یہ سن کر) ابن عیینہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میری اور امام مالک کی مثال ایسے ہی ہے جیسے پہلے (دانا) لوگوں نے کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: كتاب الوضوء: باب الاستنثار فى الوضوء، رقم الحديث: 161، صحيح مسلم: 237، سنن نسائي: 88، سنن ابي داوٗد: 32، سنن ابن ماجه: 409، مسند احمد: 236/2، 277، 308، موطا امام مالك: 33، والدارمي: 703، وابن حباك: 1438»
، هو الوتر الذي يزيد على الواحد، الثلاث فما فوقه من الوتر، إذ الواحد قد يقع عليه اسم الوتر، والاستطابة بحجر واحد غير مجزية، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد امر ان لا يكتفى بدون ثلاثة احجار في الاستطابة، هُوَ الْوِتْرُ الَّذِي يَزِيدُ عَلَى الْوَاحِدِ، الثَّلَاثُ فَمَا فَوْقَهُ مِنَ الْوِتْرِ، إِذِ الْوَاحِدُ قَدْ يَقَعُ عَلَيْهِ اسْمُ الْوِتْرِ، وَالِاسْتِطَابَةُ بِحَجَرٍ وَاحِدٍ غَيْرُ مُجْزِيَةٍ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ أَنْ لَا يُكْتَفَى بِدُونِ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ فِي الِاسْتِطَابَةِ
طاق ڈھیلے استعمال کرنے کے حکم سے مراد طاق ہے جو ایک سے زائد، تین یا اس ے زائد ہو(مثلا پانچ، سات.........) کیونکہ ایک پر بھی کبھی طاق کا اطلاق ہوجاتا ہے۔ حالانکہ ایک ڈھیلے سے استنجا کرنا کافی نہیں ہوتا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ استنجا کے لیے تین سے کم پتھر وں کو کافی نہ سمجھا جائے
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں کوئی شخص استنجا کرنے کے لیے ڈھیلے استعمال کرے تو اُسے چاہیے کہ تین ڈھیلوں سے استنجا کرے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: كتاب الطهارة: باب الايتار فى الاستنثار والاستحمار: 239، مسند احمد: 400/3، والبيهقي: 507، من طريق أبى الزبير عن جابر: وابن شيبه: 134/1»
وان من استطاب باكثر من ثلاثة بشفع لا بوتر غير عاص في فعله، إذ تارك الاستحباب غير الإيجاب تارك فضيلة لا فريضةوَأَنَّ مَنِ اسْتَطَابَ بِأَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثَةٍ بِشَفْعٍ لَا بِوِتْرٍ غَيْرُ عَاصٍ فِي فِعْلِهِ، إِذْ تَارِكُ الِاسْتِحْبَابِ غَيْرِ الْإِيجَابِ تَارِكُ فَضِيلَةٍ لَا فَرِيضَةٍ
اور جس شخص نے استنجا کے لیے تین سے زیادہ جفت ڈھیلے استعمال کی، وتر استعمال نہ کیے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا کیونکہ وہ غیر واجب، مستحب اور افضل عمل کو چھوڑنے والا ہے نہ کہ فرضیت کو۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص ڈھیلوں سے استنجا کرے تو اسے چاہیے کہ وتر (ڈھیلے) استعمال کرے۔ بیشک اللہ تعالیٰ وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔ کیا تم سات آسمان، سات زمینیں اور طواف (کے) سات (چکر) نہیں دیکھتے۔“ (یعنی یہ سب وتر ہیں) اسی طرح کئ چیزیں ذکر کیں۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح: صحيح الجامع الصغير: 321، ليكن وهاں يه روايت اختصار سے هے. الحاكم: 261/1، رقم: 577، وقال هذا حديث صحيح على شرط الشخين ولم يخرجاه بهذه الالفاظ وانما اتفقا على ”المتحمر فليوترى فقط“، وابن حبان: 1437، ومجمع الزوائد: 211/1»
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص (مشروب وغیرہ) پیے تو برتن میں سانس نہ لے، اور جب قضائے حاجت کرے تو اپنی شرم گاہ کو دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے،اور جب استنجا کرے تو اپنے دائیں ہاتھ سے استنجا نہ کرے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح البخاري: كتاب الوضوء، باب النهى من الاستنجاء باليمين: 153، صحيح مسلم: 267، 5285، سنن ترمذي: 1889، سنن النسائي: 47، سنن ابي داوٗد: 31، مسند احمد: 296/5، 310، وابن ماجه: 310»
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب تم میں سے کوئی شخص پیشاب کرے تو اپنی شرم گاہ کو دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے، اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے استنجا کرے اور نہ (مشروب پیتے ہوئے) برتن میں سانس لے۔“ یہ عمرو بن ابی سلمہ کی روایت ہے اور علی بن حجر نے پوری سند میں «عن عن» کہا ہے۔ (یعنی کہیں بھی «حدثنا» یا «سمع» کا لفظ نہیں بولا)
تخریج الحدیث: «صحيح البخارى: كتاب الوضوء، باب لا يمسك ذكره بيمينه اذا بال، رقم الحديث: 154، صحيح مسلم: 267. سنن ابي داوٗد: 29، و ابن ماجه: 310، والدارمي: 2122، وابن حبان: 1434، مسند احمد: 300/5»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے لیے ایسے ہی ہوں جیسے باپ اپنے بیٹے کے لیے (ہمدرد، خیر خواہ) ہوتا ہے۔ لہٰذا تم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت کرتے وقت قبلہ کی طرف مُنہ کرے، نہ اس کی طرف پُشت کرے۔ اور نہ تین سے کم ڈھیلوں سے استنجا کرے، ان میں لید اور ہڈی نہ ہو۔“
تخریج الحدیث: «اسناده حسن صحيح: صحيح ابي داود: 6، سنن النسائى: كتاب الطهارة: باب النهي عن الاستطابة بالروث: 40، سنن ابي داود: 8، سنن ابن ماجه: 313، مسند احمد: 250/2، سنن الدارمي: 672، وابن حبان: 1435»