، هو الوتر الذي يزيد على الواحد، الثلاث فما فوقه من الوتر، إذ الواحد قد يقع عليه اسم الوتر، والاستطابة بحجر واحد غير مجزية، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد امر ان لا يكتفى بدون ثلاثة احجار في الاستطابة، هُوَ الْوِتْرُ الَّذِي يَزِيدُ عَلَى الْوَاحِدِ، الثَّلَاثُ فَمَا فَوْقَهُ مِنَ الْوِتْرِ، إِذِ الْوَاحِدُ قَدْ يَقَعُ عَلَيْهِ اسْمُ الْوِتْرِ، وَالِاسْتِطَابَةُ بِحَجَرٍ وَاحِدٍ غَيْرُ مُجْزِيَةٍ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ أَنْ لَا يُكْتَفَى بِدُونِ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ فِي الِاسْتِطَابَةِ
طاق ڈھیلے استعمال کرنے کے حکم سے مراد طاق ہے جو ایک سے زائد، تین یا اس ے زائد ہو(مثلا پانچ، سات.........) کیونکہ ایک پر بھی کبھی طاق کا اطلاق ہوجاتا ہے۔ حالانکہ ایک ڈھیلے سے استنجا کرنا کافی نہیں ہوتا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ استنجا کے لیے تین سے کم پتھر وں کو کافی نہ سمجھا جائے
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں کوئی شخص استنجا کرنے کے لیے ڈھیلے استعمال کرے تو اُسے چاہیے کہ تین ڈھیلوں سے استنجا کرے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: كتاب الطهارة: باب الايتار فى الاستنثار والاستحمار: 239، مسند احمد: 400/3، والبيهقي: 507، من طريق أبى الزبير عن جابر: وابن شيبه: 134/1»
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ : 76
فوائد:
➊ پتھروں اور ڈھیلوں سے استنجا کرنا جائز ہے اور صحت استنجا کے لیے کم از کم تین پتھروں کا استعمال ضروری ہے، ایک پتھر جس کے تین کنارے ہوں یا دو پتھروں سے استنجا نا کافی ہے اور اس سے نجاست کا ازالہ نہیں ہوتا۔ شوکانی کہتے ہیں:
حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ دلیل ہے کہ استنجا کے لیے تین پتھر استعمال کرنا واجب ہیں۔ [نيل الاوطار: 102/1]
➋ استنجا کے لیے پتھروں اور ڈھیلوں کا طاق عدد میں استعمال لازم ہے اور طاق عدد کی کم از کم تعداد تین ہے، اگر تین پتھروں سے طہارت حاصل نہ ہو تو طاق عدد (پانچ، سات، نو وغیرہ) ملحوظ رکھتے ہوئے طہارت حاصل کی جائے۔ تا وقتیکه نجاست کے ازالے کا یقین ہو جائے۔
➌ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جمیع اہل علم کا مذہب ہے کہ استنجا کے لیے پتھروں کا استعمال متعین نہیں ہے بلکہ کپڑے اور لکڑی وغیرہ بھی استنجا میں پتھروں کے قائم مقام ہے کیونکہ استنجا کا مقصد پاخانہ زائل کرنا ہے اور یہ مقصود پتھر کے سوا اور چیزوں کے استعمال سے بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ [نووي: 156/3]
➍ پتھر کے قائم مقام ہر وہ طاہر جامد چیز ہے جو اصل نجاست کو زائل کر دے۔ بشرطیکہ اس کا استعمال (استنجا وغیرہ کے لیے) حرام نہ ہو اور وہ کسی حیوان کا کوئی جز نہ ہو۔ [نووي: 156/3]
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 76