219 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة «ان رسول الله صلي الله عليه وسلم اهدي مرة غنما» قال الحميدي زادني ابو معاوية فيه «فقلدها» 219 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُهْدِيَ مَرَّةً غَنَمًا» قَالَ الْحُمَيْدِيُّ زَادَنِي أَبُو مُعَاوِيَةَ فِيهِ «فَقَلَّدَهَا»
219- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ہدی میں بکریاں بھجوائی تھیں۔ امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ابومعاویہ نامی راوی نے اس روایت میں یہ الفاظ اضافی نقل کیے ہیں۔ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہار پہنائے تھے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 1701، 1702، ومسلم: 1321، وابن حبان فى ”صحيحه“: 4003، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:1394، 4889»
220 - حدثنا الحميدي قال: ثنا جرير بن عبد الحميد الضبي، عن منصور، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة قالت: «كنت افتل قلائد هدي رسول الله صلي الله عليه وسلم من الغنم ثم لا يجتنب شيئا مما يجتنبه المحرم» 220 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الضَّبِّيُّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «كُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَنَمِ ثُمَّ لَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُهُ الْمُحْرِمُ»
220- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کی بکریوں کے لیے ہار بنایا کرتی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی چیز سے اجتناب نہیں کرتے تھے، جس سے احرام والا شخص اجتناب کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري: 1696، 1698، ومسلم: 1321، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 4003، 4009،4010، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4394، 4852»
221 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: سمعت الزهري يحدث عن عروة قال: قرات عند عائشة ﴿ إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما﴾ فقلت: ما ابالي الا اطوف بهما، قالت: بئسما قلت يا ابن اختي إنما كان من اهل لمناة الطاغية التي بالمشلل لا يطوفون بين الصفا والمروة فانزل الله ﴿ إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما﴾ «فطاف رسول الله صلي الله عليه وسلم وطاف المسلمون» قال سفيان وقال مجاهد: وكانت سنة، قال الزهري: فحدثت به ابا بكر بن عبد الرحمن فقال: إن هذا العلم، ولقد سمعت رجالا من اهل العلم يقولون: إنما كان من لا يطوف بين الصفا والمروة من العرب يقولون: إن طوافنا بين هذين الحجرين من امر الجاهلية، وقال آخرون من الانصار إنما امرنا بالطواف بالبيت ولم نؤمر بين الصفا والمروة" فانزل الله ﴿ إن الصفا والمروة من شعائر الله﴾" قال ابو بكر بن عبد الرحمن: فلعلها نزلت في هؤلاء وهؤلاء 221 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: قَرَأْتُ عِنْدَ عَائِشَةَ ﴿ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا﴾ فَقُلْتُ: مَا أُبَالِي أَلَّا أَطَّوَّفَ بِهِمَا، قَالَتْ: بِئْسَمَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي إِنَّمَا كَانَ مَنْ أَهَلَّ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي بِالْمُشَلَّلِ لَا يَطُوفُونَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ ﴿ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا﴾ «فَطَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَافَ الْمُسْلِمُونَ» قَالَ سُفْيَانُ وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَكَانَتْ سُنَّةً، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبَا بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الْعِلْمُ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَقُولُونَ: إِنَّمَا كَانَ مَنْ لَا يَطُوفُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ مِنَ الْعَرَبِ يَقُولُونَ: إِنَّ طَوَافَنَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْحَجَرِينِ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، وَقَالَ آخَرُونَ مِنَ الْأَنْصَارِ إِنَّمَا أُمِرْنَا بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ وَلَمْ نُؤْمَرْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ" فَأَنْزَلَ اللَّهُ ﴿ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ﴾" قَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: فَلَعَلَّهَا نَزَلَتْ فِي هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ
221- عروہ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے یہ آیت تلاوت کی: «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا»”صفااور مروه اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں، اس لئے بیت اللہ کا حج وعمره کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں بھی کوئی گناه نہیں۔“ تو میں نے کہا: میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اگر میں ان دونوں کا طواف نہیں کرتا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے میرے بھانجے تم نے بہت غلط بات کہی ہے۔ جو شخص ”مشلل“ میں موجود منات طاغیہ سے احرام باندھتا تھا وہ صفا و مروہ کی سعی نہیں کیا کرتا تھا (یہ زمانہ جاہلیت کی بات ہے) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا»”صفااور مروه اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں، اس لئے بیت اللہ کا حج وعمره کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں بھی کوئی گناه نہیں۔“، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان دونوں) کا طواف کیا ہے اور مسلمانوں نے بھی ان کا طواف کیا ہے۔ سفیان کہتے ہیں: مجاہد نے یہ بات بیان کی ہے: یہ سنت ہے۔ زہری کہتے ہیں: میں نے یہ روایت ابوبکر بن عبدالرحمان کو سنائی تو وہ بولے: یہ علم ہے میں نے کئی اہل علم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے، جو عرب صفا و مروہ کا طواف نہیں کیا کرتے تھے وہ اس بات کے قائل تھے کہ ہمارا ان دو پتھروں (یعنی پہاڑوں) کا طواف کرنا زمانۂ جاہلیت کا کام ہے۔ جبکہ کچھ انصار کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں بیت اللہ کا طواف کرنے کا حکم دیا گیا ہے ہمیں صفا و مروہ کا چکر لگانے کا حکم نہیں دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی:: «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ»”صفا اور مروه اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔“ ابوبکر بن عبدالرحمان نے فرمایا: شاید یہ آیت ان لوگوں اور ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري: 1643، 1790، 4495، 4861، ومسلم: 1277، وابن حبان فى ”صحيحه“: 3739، 3740، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 4730»
222 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا عمرو بن دينار انه سمع ابن ابي مليكة يقول: حضرت جنازة ام ابان بنت عثمان في الجنازة عبد الله بن عمر وعبد الله بن عباس فجلست بينهما فبكي النساء فقال ابن عمر: إن بكاء الحي للميت عذاب للميت، قال: فقال ابن عباس: صدرنا مع عمر امير المؤمنين حتي إذا كنا بالبيداء إذا هو بركب نزول تحت شجرة فقال: اذهب يا عبد الله فانظر من الركب فالحقني قال: فذهبت ثم جئت، فقلت: هذا صهيب مولي ابن جدعان فقال مره فليلحقني، فلما قدما المدينة لم يلبث عمر ان طعن فجاء صهيب وهو يقول وا اخياه وا صاحباه فقال عمر مه يا صهيب إن الميت يعذب ببكاء الحي عليه، قال ابن عباس: فاتيت عائشة فسالتها فقالت: يرحم الله عمر إنما قال رسول الله صلي الله عليه وسلم:" إن الله ليزيد الكافر عذابا ببعض بكاء اهله عليه، وقد قضي الله ﴿ ولا تزر وازرة وزر اخري﴾"222 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يَقُولُ: حَضَرْتُ جَنَازَةَ أُمِّ أَبَانَ بِنْتِ عُثْمَانَ فِي الْجَنَازَةِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ فَجَلَسْتُ بَيْنَهُمَا فَبَكَي النِّسَاءُ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: إِنَّ بُكَاءَ الْحَيِّ لِلْمَيِّتِ عَذَابٌ لِلْمَيِّتِ، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسِ: صَدَرْنَا مَعَ عُمَرَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ حَتَّي إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ إِذَا هُوَ بِرَكْبٍ نُزُولٍ تَحْتَ شَجَرَةٍ فَقَالَ: اذْهَبْ يَا عَبْدَ اللَّهِ فَانْظُرْ مَنِ الرَّكْبُ فَالْحَقْنِي قَالَ: فَذَهَبْتُ ثُمَّ جِئْتُ، فَقُلْتُ: هَذَا صُهَيْبٌ مَوْلَي ابْنِ جُدْعَانَ فَقَالَ مُرْهُ فَلْيَلْحَقْنِي، فَلَمَّا قَدِمَا الْمَدِينَةَ لَمْ يَلْبَثُ عُمَرُ أَنْ طُعِنَ فَجَاءَ صُهَيْبٌ وَهُوَ يَقُولُ وَا أُخَيَّاهُ وَا صَاحِبَاهُ فَقَالَ عُمَرُ مَهٍ يَا صُهَيْبُ إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ عَلَيْهِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ فَسَأَلْتُهَا فَقَالَتْ: يَرْحَمُ اللَّهُ عُمَرَ إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ لَيَزِيدُ الْكَافِرَ عَذَابًا بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، وَقَدْ قَضَي اللَّهُ ﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَي﴾"
222- ابن ابوملیکہ کہتے ہیں: میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام ابان کے جنازے میں شریک ہوا جنازے میں سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی تھے ان دونوں حضرات کے درمیان میں بیٹھ گیا۔ خواتین نے رونا شروع کیا، تو سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے: زندہ شخص کے میت پر رونے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔ راوی کہتے ہیں: سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا: (ایک مرتبہ) ہم لوگ امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ (مکہ سے) واپس آرہے تھے، جب ہم ”بیداء“ کے مقام پر پہنچے تو وہاں کچھ سوار ایک درخت کے نیچے پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے عبداللہ! تم جاؤ اور جا کر دیکھو کہ یہ سوار کون ہیں؟ پھر میرے پاس آؤ۔ سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں گیا، میں نے واپس آکر بتایا کہ وہ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ ہیں، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم ان سے کہو کہ ہمارے ساتھ املیں، جب یہ لوگ مدینہ منورہ پہنچے تو کچھ ہی عرصے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کردیا گیا۔ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ آئے وہ کہ کہہ رہے تھے: ہائے میرا بھائی! ہائے میرا ساتھی! تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے: رک جاؤ اے صہیب! میت کو زندہ شخص کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ سيدنا عبدااللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اس بارے میں دریافت کیا، تو وہ بولیں: اللہ تعالیٰ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”بے شک اللہ تعالیٰ کافر کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ کردیتا ہے۔“(یعنی عذاب کے ساتھ اسے اپنے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے بھی تکلیف ہوتی ہے)۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ دے دیا ہے۔ «وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى»”کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 1286، 1287، 1288، ومسلم: 929، 930، 932، وابن حبان فى ”صحيحه“: 3135، 3136، 3137، وأحمد فى ”مسنده“، برقم: 295»
223 - ثنا سفيان قال: ثنا عبد الله بن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن ابيه، عن عمرة انها سمعت عائشة تقول: إنما قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ليهودية وهم يبكون عليها «إن اهلها الآن ليبكون عليها وإنها لتعذب في قبرها» 223 - ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ تَقُولُ: إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَهُودِيَّةٍ وَهُمْ يَبْكُونَ عَلَيْهَا «إِنَّ أَهْلَهَا الْآنَ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا»
223- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی عورت کے بارے میں یہ فرمایا تھا حالانکہ اس کے گھر والے اس پر رورہے تھے، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:)”اس وقت اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں اور اسے اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 1286، 1289، ومسلم: 928، 929، وابن حبان فى ”صحيحه“: 3123، 3133، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 4499، 4711، 5681»
224 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا ايوب السختياني، عن ابي قلابة، عن عبد الله بن يزيد - رضيع لعائشة - عن عائشة انها قالت: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «ما من ميت يموت فيصلي عليه امة من الناس يبلغوا ان يكونوا مائة فيشفعوا له إلا شفعوا فيه» 224 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا أَيُّوبُ السِّخْتِيَانِيُّ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ - رَضِيعٌ لِعَائِشَةَ - عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مَيِّتٍ يَمُوتُ فَيُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنَ النَّاسِ يَبْلُغُوا أَنْ يَكُونُوا مِائَةً فَيَشْفَعُوا لَهُ إِلَّا شُفِّعُوا فِيهِ»
224- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جس بھی شخص کا انتقال ہوجائے اور اس پر لوگوں کا اتنا گروہ نماز جنازہ ادا کرلے جو ایک سو تک پہنچے ہوں، تو وہ اگر اس میت کے لیے سفارش کریں، تو ان کی سفارش قبول کی جاتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه مسلم 947، وابن حبان فى ”صحيحه“: 3081، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 4398»
225 - حدثنا الحميدي قال: حدثنا سفيان قال: حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة قالت: لما دخل رسول الله - صلي الله عليه وسلم - المدينة حم اصحابه، فدخل النبي - صلي الله عليه وسلم - علي ابي بكر يعوده، فقال: «كيف تجدك يا ابا بكر؟» . فقال ابو بكر: كل امرئ مصبح في اهله والموت ادني من شراك نعله
ودخل علي عامر بن فهيرة فقال: «كيف تجدك؟» . فقال: وجدت طعم الموت قبل ذوقه إن الجبان حتفه من فوقه
كالثور يحمي جلده بروقه
قالت: ودخل علي بلال فقال: «كيف تجدك؟» . فقال: الا ليت شعري هل ابيتن ليلة بفخ وحولي إذخر وجليل وهل اردن يوما مياه مجنة؟ وهل يبدون لي شامة وطفيل
قال: فقال رسول الله - صلي الله عليه وسلم -: «اللهم إن إبراهيم عبدك وخليلك دعاك لاهل مكة، وانا عبدك ورسولك ادعوك لاهل المدينة مثل ما دعاك لاهل مكة، اللهم بارك لنا في صاعنا، وبارك لنا في مدنا، وبارك لنا في مدينتنا» . قال سفيان: واري فيه: «وفي فرقنا» : «اللهم حببها إلينا مثل ما حببت إلينا مكة او اشد، وصححها، وانقل وباءها وحماها إلي خم، او إلي الجحفة» .
225- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ (ہجرت کرکے) تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو بخار رہنے لگا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عیادت کرنے لئے ان کے پاس تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر کیا حال ہے؟“ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہر شخص اپنے گھر میں صبح کرتا ہے، حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے زیادہ اس سے قریب ہوتی ہے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ (کی عیادت کے لئے) ان کے پاس تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”تمہارا کیا حال ہے؟“ تو انہوں نے عرض کیا: میں نے موت کو چکھنے سے پہلے ہی اس کا ذائقہ چکھ لیا ہے، بے شک بزدل کی موت اس پر سے ایسے نکلتی ہے جیسے بیل اپنی کھال کو اپنے گوبر سے بچاتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا حال ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا: کیا کبھی ایسا وقت بھی آئے گا، جب میں ”فخ“(مکہ مکرمہ کی ایک وادی) میں رات بسر کروں گا۔ (یہاں سفیان نامی راوی بعض اوقات لفظ وادی نقل کیا ہے) اور میرے اردگرد ”اذخر“ اور ”جلیل“(مکہ مکرمہ کی گھاس کے مخصوص نام) ہوں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: ”اے اللہ! بے شک سیدنا ابرھیم علیہ السلام تیرے بندے اور خلیل تھے۔ انہوں نے اہل مکہ کے لیے تجھ سے دعا کی تھی میں تیرا بندہ اور تیرا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں میں اہل مدینہ کے لیے تجھ سے دعا کرتا ہوں، اسی کی مانند جو انہوں نے اہل مکہ کے لئے تجھ سے کی تھی۔ اے اللہ ہمارے ”صاع“ میں برکت دے، ہمارے ”مد“ میں برکت دے، ہمارے مدینے میں برکت دے دے۔“ سفیان نامی راوی کہتے ہیں: میرے خیال میں روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: ”ہمارے برتنوں میں برکت دیدے۔ اے اللہ! ہمارے نزدیک اسی طرح محبوب کردے جس طرح تونے مکہ کو ہمارے نزدیک محبوب کیا تھا، یا اس سے بھی زیادہ کردے اور یہاں کی آب و ہوا کو صحت افزاء کردے اور یہاں کی وباء اور بخار کو خم (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) جحفہ کی طرف منتقل کردے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 1889، 3926، 5654، 5677، 6372، ومسلم: 1376، وابن حبان فى ”صحيحه“: 3724، 5600»
226 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة انها قالت: إنما قال رسول الله صلي الله عليه وسلم:" إنهم ليعلمون الآن ان الذي كنت اقول لهم في الدنيا حق، وقد قال الله لنبيه ﴿ إنك لا تسمع الموتي﴾"226 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُمْ لَيَعْلَمُونَ الْآنَ أَنَّ الَّذِي كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا حَقٌّ، وَقَدْ قَالَ اللَّهُ لِنَبِيِّهِ ﴿ إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَي﴾"
226- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ نے ارشاد فرمایا: ان لوگوں کو اب یہ بات پتہ چل گئی ہے، میں دنیا میں ان سے جو کہا کرتا تھا وہ سچ تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ سے یہ فرمایا ”بے شک تم مردوں کو نہیں سنا سکتے ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى الجنائز 1371، من طريق سفيان، بهذا الإسناد وقد استوفينا تخريجه فى «مسند الموصلي» برقم 4518،. وانظر تعليقاً على حديث عمر. برقم 140، فى مسند الموصلي أيضاً»
227 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، عن زكريا بن ابي زائدة، عن الشعبي، عن شريح بن هانئ، عن عائشة انها قالت: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «من احب لقاء الله احب الله لقاءه، ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه ولقاؤه الله بعد الموت» 227 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهِ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهِ اللَّهُ لِقَاءَهُ وَلِقَاؤُهُ اللَّهَ بَعْدَ الْمَوْتِ»
227- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے، ”جو شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کو پسند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کی حاضری پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی حاضری کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری مرنے کے بعد ہوتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أحمد 44/6، 55، 207، 236، ومسلم فى الذكر والدعاء 2684، وأخرجه البخاري تعليقا 6507، ووصله مسلم وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان، برقم 3010»
228 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا الزهري قال: اخبرني عروة، عن عائشة انه سمعها تقول: جاءت امراة رفاعة القرظي إلي رسول الله صلي الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إني كنت عند رفاعة القرظي فطلقني فبت طلاقي، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير وإنما معه مثل هدبة الثوب، فبسم رسول الله صلي الله عليه وسلم وقال «اتريدين ان ترجعي إلي رفاعة؟ لا حتي تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك» قالت: وابو بكر عند النبي صلي الله عليه وسلم وخالد بن سعيد بن العاص بالباب ينتظر ان يؤذن له، فنادي فقال: يا ابا بكر الا تسمع إلي ما تجهر به هذه عند رسول الله صلي الله عليه وسلم قيل لسفيان فإن مالكا لا يرويه عن الزهري إنما يرويه عن المسور بن رفاعة فقال سفيان: لكنا قد سمعناه من الزهري كما قصصناه عليكم228 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهُ سَمِعَهَا تَقُولُ: جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ إِلَي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ فَطَلَّقَنِي فَبَتَّ طَلَاقِي، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَإِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَبَسِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ «أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَي رِفَاعَةَ؟ لَا حَتَّي تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ» قَالَتْ: وَأَبُو بَكْرٍ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ بِالْبَابِ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ، فَنَادَي فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ أَلَا تَسْمَعُ إِلَي مَا تَجْهَرُ بِهِ هَذِهِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيلِ لِسُفْيَانَ فَإِنَّ مَالِكًا لَا يَرْوِيهِ عَنِ الزُّهْرِيِّ إِنَّمَا يَرْوِيهِ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ رِفَاعَةَ فَقَالَ سُفْيَانُ: لَكِنَّا قَدْ سَمِعْنَاهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ كَمَا قَصَصِنَاهُ عَلَيْكُمْ
228- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، رفاعہ قرظی کی اہلیہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اس نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں رفاعہ قرظی کی بیوی تھی، اس نے مجھے طلاق دی اور طلاق بتہ دے دی میں نے عبدالرحمان بن زبیر کے ساتھ شادہ کرلی لیکن اس کا ساتھ چادر کے پلو کی طرح ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے اور فرمایا: کیا تم رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟ نہیں (ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا) جب تک اس کا شہد نہیں چکھ لیتی اور وہ تمہارا شہد نہیں چکھ لیتا ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے اور سیدنا خالد بن سعید رضی اللہ عنہ دروازے پر انتظار کررہے تھے کہ انہیں اندر آنے کی اجازت دی جائے انہوں نے بلند آواز سے کہا: اے ابوبکر! کا آپ سن نہیں رہے ہیں، یہ عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بلند آوازمیں کیسی باتیں کررہی ہے؟ سفیان نامی راوی سے یہ کہا گیا: امام مالک نے اس روایت کو زہری سے نقل نہیں کیا ہے انہوں نے اسے مسور بن رفاعہ سے نقل کیا ہے، تو سفیان نے کہا: لیکن ہم نے یہ روایت زہری سے سنی ہے، جس طرح ہم نے تمہارے سامنے بیان کی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه الشافعي فى «المسند» ، ص 192 وأحمد 37/6، والبخاري فى الشهادات 2639، ومسلم فى النكاح 1433، والترمذي فى النكاح 1118، و «الدارمي» فى الطلاق 161/2، وابن ماجه فى النكاح 1932، والبغوي فى «شرح السنة» برقم 3361، من طريق سفيان، بهذا الإسناد.و تمام تخريجه انظر «مسند الموصلي» برقم 4423، و 4964»