مسند الحميدي کل احادیث 1337 :حدیث نمبر

مسند الحميدي
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول روایات
حدیث نمبر: 222
Save to word اعراب
222 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا عمرو بن دينار انه سمع ابن ابي مليكة يقول: حضرت جنازة ام ابان بنت عثمان في الجنازة عبد الله بن عمر وعبد الله بن عباس فجلست بينهما فبكي النساء فقال ابن عمر: إن بكاء الحي للميت عذاب للميت، قال: فقال ابن عباس: صدرنا مع عمر امير المؤمنين حتي إذا كنا بالبيداء إذا هو بركب نزول تحت شجرة فقال: اذهب يا عبد الله فانظر من الركب فالحقني قال: فذهبت ثم جئت، فقلت: هذا صهيب مولي ابن جدعان فقال مره فليلحقني، فلما قدما المدينة لم يلبث عمر ان طعن فجاء صهيب وهو يقول وا اخياه وا صاحباه فقال عمر مه يا صهيب إن الميت يعذب ببكاء الحي عليه، قال ابن عباس: فاتيت عائشة فسالتها فقالت: يرحم الله عمر إنما قال رسول الله صلي الله عليه وسلم:" إن الله ليزيد الكافر عذابا ببعض بكاء اهله عليه، وقد قضي الله ﴿ ولا تزر وازرة وزر اخري﴾"222 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يَقُولُ: حَضَرْتُ جَنَازَةَ أُمِّ أَبَانَ بِنْتِ عُثْمَانَ فِي الْجَنَازَةِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ فَجَلَسْتُ بَيْنَهُمَا فَبَكَي النِّسَاءُ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: إِنَّ بُكَاءَ الْحَيِّ لِلْمَيِّتِ عَذَابٌ لِلْمَيِّتِ، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسِ: صَدَرْنَا مَعَ عُمَرَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ حَتَّي إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ إِذَا هُوَ بِرَكْبٍ نُزُولٍ تَحْتَ شَجَرَةٍ فَقَالَ: اذْهَبْ يَا عَبْدَ اللَّهِ فَانْظُرْ مَنِ الرَّكْبُ فَالْحَقْنِي قَالَ: فَذَهَبْتُ ثُمَّ جِئْتُ، فَقُلْتُ: هَذَا صُهَيْبٌ مَوْلَي ابْنِ جُدْعَانَ فَقَالَ مُرْهُ فَلْيَلْحَقْنِي، فَلَمَّا قَدِمَا الْمَدِينَةَ لَمْ يَلْبَثُ عُمَرُ أَنْ طُعِنَ فَجَاءَ صُهَيْبٌ وَهُوَ يَقُولُ وَا أُخَيَّاهُ وَا صَاحِبَاهُ فَقَالَ عُمَرُ مَهٍ يَا صُهَيْبُ إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ عَلَيْهِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ فَسَأَلْتُهَا فَقَالَتْ: يَرْحَمُ اللَّهُ عُمَرَ إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ لَيَزِيدُ الْكَافِرَ عَذَابًا بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، وَقَدْ قَضَي اللَّهُ ﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَي﴾"
222- ابن ابوملیکہ کہتے ہیں: میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام ابان کے جنازے میں شریک ہوا جنازے میں سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی تھے ان دونوں حضرات کے درمیان میں بیٹھ گیا۔ خواتین نے رونا شروع کیا، تو سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے: زندہ شخص کے میت پر رونے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔ راوی کہتے ہیں: سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا: (ایک مرتبہ) ہم لوگ امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ (مکہ سے) واپس آرہے تھے، جب ہم بیداء کے مقام پر پہنچے تو وہاں کچھ سوار ایک درخت کے نیچے پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے عبداللہ! تم جاؤ اور جا کر دیکھو کہ یہ سوار کون ہیں؟ پھر میرے پاس آؤ۔ سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں گیا، میں نے واپس آکر بتایا کہ وہ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ ہیں، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم ان سے کہو کہ ہمارے ساتھ املیں، جب یہ لوگ مدینہ منورہ پہنچے تو کچھ ہی عرصے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کردیا گیا۔ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ آئے وہ کہ کہہ رہے تھے: ہائے میرا بھائی! ہائے میرا ساتھی! تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے: رک جاؤ اے صہیب! میت کو زندہ شخص کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
سيدنا عبدااللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اس بارے میں دریافت کیا، تو وہ بولیں: اللہ تعالیٰ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: بے شک اللہ تعالیٰ کافر کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ کردیتا ہے۔ (یعنی عذاب کے ساتھ اسے اپنے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے بھی تکلیف ہوتی ہے)۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ دے دیا ہے۔ «وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى» کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 1286، 1287، 1288، ومسلم: 929، 930، 932، وابن حبان فى ”صحيحه“: 3135، 3136، 3137، وأحمد فى ”مسنده“، برقم: 295»

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 222 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:222  
فائدہ:
میت پر صرف رونا درست ہے، زبان سے چیخ و پکار نہیں ہونی چاہیے۔ وہ رونا مذموم ہے جس میں رونے کے ساتھ زبان کے ساتھ زمانہ جاہلیت کے بول بولے جائیں، یاد رہے انسان کو اپنی زندگی ہی میں اپنے اہل و عیال کو یہ مسئلہ اچھی طرح سمجھا دینا چاہیے کہ جب میں فوت ہوں تو میرے مرنے پر صبر کو لازم پکڑ نا، نیز اس حدیث میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کا بھی ذکر ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 222   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.