Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول روایات
حدیث نمبر 226
حدیث نمبر: 226
226 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُمْ لَيَعْلَمُونَ الْآنَ أَنَّ الَّذِي كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا حَقٌّ، وَقَدْ قَالَ اللَّهُ لِنَبِيِّهِ ﴿ إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَي﴾"
226- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ نے ارشاد فرمایا: ان لوگوں کو اب یہ بات پتہ چل گئی ہے، میں دنیا میں ان سے جو کہا کرتا تھا وہ سچ تھا۔
تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ سے یہ فرمایا بے شک تم مردوں کو نہیں سنا سکتے ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى الجنائز 1371، من طريق سفيان، بهذا الإسناد وقد استوفينا تخريجه فى «مسند الموصلي» برقم 4518،. وانظر تعليقاً على حديث عمر. برقم 140، فى مسند الموصلي أيضاً»

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 226 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:226  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مردے ہماری باتیں نہیں سنتے۔ مولانا عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب مردے کی جان نکل گئی نبض بند ہوگئی، تمام طاقتیں ختم ہو گئیں، احساس تک جا تا رہا، تو اب وہ کیسے سن سکتا ہے؟ مردہ وہ تو نہیں ہوتا جس میں سننے کی طاقت ہو لیکن بولنے کی طاقت نہ ہو، مردہ تو وہ ہوتا ہے جو کچھ بھی نہ کر سکے، قرآن کریم نے اس آیت میں مردوں ہی کا نقشہ کھینچا ہے:
«أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا» (الاعراف: 195)
کیا (اب) ان کے ایسے پاؤں میں جن کے ساتھ وہ چل پھر سکیں، یا ایسے ہاتھ میں جن کے ساتھ وہ پکڑ سکیں، یا ایسی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھ سکیں، یا ایسے کان میں جن کے ساتھ وہ سن سکیں۔
مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد آدمی یہ اعضاء رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ جسم میں جان نہیں ہوتی، اور اگر اعضاء بھی نہ رہیں، انھیں آگ یا مٹی کھا جائے تو پھر سننے اور بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ پھر سنے گا تو کس چیز سے اور بولے گا تو کس چیز سے؟ اللہ تعالیٰ تو اس حالت میں بھی سنا سکتا ہے لیکن مردے کے بولنے یا سننے کا سوال ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ نہ کان ہیں اور نہ زبان اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: «فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ» (الروم: 52) اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مردوں کو نہیں سنا سکتے، اور نہ ہی بہروں کو سنا سکتے ہیں، جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے جار ہے ہوں۔
بہرے کے کان تو ہوتے ہیں لیکن سننے کی طاقت نہیں ہوتی، جب بہر ہ نہیں سن سکتا تو پھر مردہ کیا سنے گا، جس میں نہ سننے کی طاقت رہی اور نہ سننے کا آلہ، ہاں اللہ تعالیٰ اس حالت میں بھی اس کے ذرات کو سنا سکتا ہے، لیکن کسی اور کی طاقت نہیں کہ وہ ایسا کر سکے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ» (فاطر: 22) بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سنا سکتا ہے، اور آپ ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں، (یعنی مردہ ہیں) اب اس قدر وضاحت کے بعد کوئی کہہ سکتا ہے کہ مردے سنتے ہیں؟ (مسئلہ سماع موتی، ص: 9، 10)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 226