221 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: سمعت الزهري يحدث عن عروة قال: قرات عند عائشة ﴿ إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما﴾ فقلت: ما ابالي الا اطوف بهما، قالت: بئسما قلت يا ابن اختي إنما كان من اهل لمناة الطاغية التي بالمشلل لا يطوفون بين الصفا والمروة فانزل الله ﴿ إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما﴾ «فطاف رسول الله صلي الله عليه وسلم وطاف المسلمون» قال سفيان وقال مجاهد: وكانت سنة، قال الزهري: فحدثت به ابا بكر بن عبد الرحمن فقال: إن هذا العلم، ولقد سمعت رجالا من اهل العلم يقولون: إنما كان من لا يطوف بين الصفا والمروة من العرب يقولون: إن طوافنا بين هذين الحجرين من امر الجاهلية، وقال آخرون من الانصار إنما امرنا بالطواف بالبيت ولم نؤمر بين الصفا والمروة" فانزل الله ﴿ إن الصفا والمروة من شعائر الله﴾" قال ابو بكر بن عبد الرحمن: فلعلها نزلت في هؤلاء وهؤلاء 221 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: قَرَأْتُ عِنْدَ عَائِشَةَ ﴿ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا﴾ فَقُلْتُ: مَا أُبَالِي أَلَّا أَطَّوَّفَ بِهِمَا، قَالَتْ: بِئْسَمَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي إِنَّمَا كَانَ مَنْ أَهَلَّ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي بِالْمُشَلَّلِ لَا يَطُوفُونَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ ﴿ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا﴾ «فَطَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَافَ الْمُسْلِمُونَ» قَالَ سُفْيَانُ وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَكَانَتْ سُنَّةً، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبَا بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الْعِلْمُ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَقُولُونَ: إِنَّمَا كَانَ مَنْ لَا يَطُوفُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ مِنَ الْعَرَبِ يَقُولُونَ: إِنَّ طَوَافَنَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْحَجَرِينِ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، وَقَالَ آخَرُونَ مِنَ الْأَنْصَارِ إِنَّمَا أُمِرْنَا بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ وَلَمْ نُؤْمَرْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ" فَأَنْزَلَ اللَّهُ ﴿ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ﴾" قَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: فَلَعَلَّهَا نَزَلَتْ فِي هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ
221- عروہ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے یہ آیت تلاوت کی: «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا»”صفااور مروه اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں، اس لئے بیت اللہ کا حج وعمره کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں بھی کوئی گناه نہیں۔“ تو میں نے کہا: میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اگر میں ان دونوں کا طواف نہیں کرتا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے میرے بھانجے تم نے بہت غلط بات کہی ہے۔ جو شخص ”مشلل“ میں موجود منات طاغیہ سے احرام باندھتا تھا وہ صفا و مروہ کی سعی نہیں کیا کرتا تھا (یہ زمانہ جاہلیت کی بات ہے) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا»”صفااور مروه اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں، اس لئے بیت اللہ کا حج وعمره کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں بھی کوئی گناه نہیں۔“، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان دونوں) کا طواف کیا ہے اور مسلمانوں نے بھی ان کا طواف کیا ہے۔ سفیان کہتے ہیں: مجاہد نے یہ بات بیان کی ہے: یہ سنت ہے۔ زہری کہتے ہیں: میں نے یہ روایت ابوبکر بن عبدالرحمان کو سنائی تو وہ بولے: یہ علم ہے میں نے کئی اہل علم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے، جو عرب صفا و مروہ کا طواف نہیں کیا کرتے تھے وہ اس بات کے قائل تھے کہ ہمارا ان دو پتھروں (یعنی پہاڑوں) کا طواف کرنا زمانۂ جاہلیت کا کام ہے۔ جبکہ کچھ انصار کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں بیت اللہ کا طواف کرنے کا حکم دیا گیا ہے ہمیں صفا و مروہ کا چکر لگانے کا حکم نہیں دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی:: «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ»”صفا اور مروه اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔“ ابوبکر بن عبدالرحمان نے فرمایا: شاید یہ آیت ان لوگوں اور ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري: 1643، 1790، 4495، 4861، ومسلم: 1277، وابن حبان فى ”صحيحه“: 3739، 3740، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 4730»
طاف بالبيت وبين الصفا والمروة لم يحل وكان معه الهدي فطاف من كان معه من نسائه وأصحابه وحل منهم من لم يكن معه الهدي حاضت هي فنسكنا مناسكنا من حجنا لما كان ليلة الحصبة ليلة النفر قالت يا رسول الله كل أصحابك يرجع بحج وعمرة
طاف رسول الله وطاف المسلمون فكانت سنة وإنما كان من أهل لمناة الطاغية التي بالمشلل لا يطوفون بين الصفا والمروة فلما كان الإسلام سألنا النبي عن ذلك فأنزل الله إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر
طاف رسول الله وطاف المسلمون إنما كان من أهل لمناة الطاغية التي بالمشلل لا يطوفون بين الصفا والمروة فأنزل الله تبارك و فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:221
فائدہ: حدیث سے ثابت ہوا کہ صفا و مروہ کا طواف حج اور عمرہ کے ارکان میں سے ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ صفا و مروہ کی سعی نہیں کیا کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے صفا و مروہ کے درمیان بت رکھا ہوا تھا اور اس کی پوجا کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے صفا و مروہ کو بتوں کی نشانی سمجھ کر ان کے طواف کو گناہ سمجھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تردید کرتے ہوئے صفا و مروہ کو اپنی نشانیاں قرار دیا، نیز دیکھیں، صحيح البخاری: 4496۔ نیز اہل علم کا اختلاف ہو جانا کوئی بری بات نہیں ہے، ہاں اختلاف کی خاطر کوئی فتنہ برپا کر دینا بری بات ہے۔ مسند أحمد (421/6، حدیث: 27435) میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اسـعـوا، ان الله كـتـب عـلـيـكـم السعى» ”سعی کرو، یقینا اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی فرض کر دی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 221
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2931
´سواری پر خانہ کعبہ کا طواف کرنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر سوار ہو کر کعبہ کے گرد طواف کیا، آپ اپنی خمدار چھڑی سے حجر اسود کا استلام (چھونا) کر رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2931]
اردو حاشہ: (1) افضل تو یہی ہے کہ طواف پیدل کیا جائے۔ عذر کی صورت میں لوگ ویل چیئر پر بھی طواف کر لیتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں، نیز کسی ماکول اللحم جانور جیسے اونٹ اور گھوڑے وغیرہ پر طواف کی ضرورت ہو تو جائز ہے، لیکن فی زمانہ اس قسم کے جانوروں پر بیت اللہ کا طواف معقول ہے نہ عمداً ممکن ہی۔ ہاں کسی دور میں اس قسم کی صورت ممکن ہو جائے تو شرعاً اس کے جواز میں کوئی اشکال نہیں، نیز رسول اللہﷺ کے لیے اس کی تخصیص کا دعویٰ درست نہیں۔ کیونکہ آپﷺ نے حضرت ام سلمہؓ کو بھی اونٹ پر طواف کی اجازت دی تھی جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث میں گزرا ہے۔ واللہ أعلم (2)”خم دار چھڑی سے چھوتے تھے۔“ اصل تو یہ ہے کہ حجر اسود کو ہونٹ لگائے جائیں۔ یہ ممکن نہ ہو تو ہاتھ لگا کر ہاتھ کو ہونٹوں پر رکھ لیا جائے۔ اگر ہاتھ لگانا بھی ممکن نہ ہو تو ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیز جو پاک اور صاف ہو، حجر اسود پر لگائی جائے اور اسے چوما جائے، ورنہ صرف اشارہ کیا جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2931
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2970
´صفا و مروہ کا بیان۔` عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے آیت کریمہ: «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» پڑھی اور کہا: میں صفا و مروہ کے درمیان نہ پھروں، تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ۱؎، تو انہوں نے کہا: تم نے کتنی بری بات کہی ہے (صحیح یہ ہے) کہ لوگ ایام جاہلیت میں صفا و مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے (بلکہ اسے گناہ سمجھتے تھے) تو جب اسلام آیا، اور قرآن اترا، اور یہ آیت «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی کی، اور آپ کے ساتھ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2970]
اردو حاشہ: (1) حضرت عروہ نے آیت کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھا کہ سعی کو ترک کرنا بھی جائز ہے اور یہ کوئی ضروری چیز نہیں لیکن شاید وہ آیت کے سیاق وسباق اور اس کے ابتدائی الفاظ ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ﴾(البقرة: 2: 158) سے غافل رہے کیونکہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ شعائر ہیں تو ان سے روگردانی کیسے ممکن ہے؟ حضرت عائشہؓ جو انتہائی صاحب بصیرت خاتون تھیں اور رسول اللہﷺ سے براہ راست فیض یافتہ تھیں، اس اہم نکتے سے کیسے غافل ہو سکتی تھیں، نیز کسی بھی آیت کا مفہوم رسول اللہﷺ کے طرز عمل سے الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا ورنہ گمراہی کا خدشہ ہے۔ جو کام رسول اللہﷺ نے تمام عمروں اور حج میں پابندی سے کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی ہر عمرہ وحج میں اسے پابندی سے کیا، وہ غیر ضروری کیسے ہو سکتاہے؟ باقی رہا ﴿لَا جُنَاحَ﴾”کوئی حرج نہیں“ کا لفظ تو یہ دراصل ان لوگوں کو سمجھانے کے لیے ہے جو صفا اور مروہ کے طواف کو کافروں کے رسم ورواج پر محمل کرتے تھے کیونکہ ان دونوں پر انھوں نے بت رکھے ہوئے تھے لیکن کسی کی غلطی سے اصل حقیقت تو متروک نہیں ہو سکتی تھی، اس لیے حکم دیا گیا کہ بتوں سے پاک کر کے ان کا طواف کیا جائے کیونکہ ان کا طواف قدیم شرعی حکم ہے۔ (2)”یہ سنت ہے“ یہاں سنت فرض کے مقابلے میں نہیں کہ اس کا کرنا ضروری نہیں کیونکہ اسی مفہوم کا تو حضرت عائشہؓ رد فرما رہی ہیں، بلکہ یہاں سنت سے مراد نبیﷺ کا جاری کردہ طریقہ ہے جس کی پابندی ضروری ہے۔ فرض، سنت، واجب وغیرہ کے موجودہ مفہوم بعد کی اصطلاحات ہیں۔ بعض روایات میں صراحت ہے کہ نبیﷺ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کر رہے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرما رہے تھے: [اسعوا فإنَّ اللَّهَ كتبَ عليْكمُ السَّعيَ ](مسند احمد: 6/ 421)”تم سعی کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سعی کو تم پر فرض کر دیا ہے۔“ اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے صفا مروہ کی سعی کو حج و عمرے کا رکن ٹھہرایا ہے۔ جس سے رہ جائے، وہ دوبارہ حج و عمرہ کرے، البتہ احناف اسے واجب قرار دیتے ہیں جسے قصداً تو نہیں چھوڑا جا سکتا اگر بھولے سے یا ناواقفیت سے رہ جائے، پھر قضا ممکن ہو تو قضا دے ورنہ ایک جانور قربان کرے، لیکن راجح بات یہی ہے کہ سعی بین الصفا والمروہ حج کا ایسا رکن ہے کہ اگر وہ رہ جائے تو اس کی تلافی ایک دم (جانور قربان کرنے) سے نہیں ہوگی، بلکہ اسے حج دوبارہ کرنا پڑے گا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (فقه السنة، للسید سابق: 2/ 264- 267)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2970
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2965
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` عروہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے کہا: میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرے، اور میں خود اپنے لیے ان کے درمیان طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں پاتا۔ تو عائشہ نے کہا: اے میرے بھانجے! تم نے بری بات کہہ دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی کیا ہے۔ ہاں ایسا زمانہ جاہلیت میں تھا کہ جو لوگ مناۃ (بت) کے نام پر جو مشلل ۱؎ میں تھا احرام باندھتے تھے وہ صفا و مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت: «فمن حج البيت أو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2965]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: مشلل مدینہ سے کچھ دوری پر ایک مقام کا نام ہے جو قُدید کے پاس ہے۔
2؎: (صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں) اس لیے بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں (البقرہ: 158)
3؎: خلاصہ یہ ہے کہ آیت کے سیاق کا یہ انداز انصار کی ایک غلط فہمی کا ازالہ ہے جو اسلام لانے کے بعد حج و عمرہ میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کو معیوب سمجھتے تھے کیونکہ صفا پر ایک بت ”اِساف“ نام کا تھا، اور مروہ پر ”نائلہ“ نام کا، اس پر اللہ نے فرمایا: ارے اب اسلام میں ان دونوں کو توڑ دیا گیا ہے، اب ان کے درمیان سعی کرنے میں شرک کا شائبہ نہیں رہ گیا، بلکہ اب تو یہ سعی فرض ہے، ارشاد نبوی ہے (اسعَوا فَإِنَّ اللہَ کَتَبَ عَلَیْکُمُ السَّعْی)(احمد والحاکم بسند حسن)(یعنی: سعی کرو، کیونکہ اللہ نے اس کو تم پر فرض کر دیا ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2965
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3081
عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا، میرے نزدیک اگر کوئی صفا اور مروہ کا طواف نہ کرے، تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر میں ان کے درمیان طواف نہ کروں تو کوئی پرواہ نہیں ہو گی، انہوں نے فرمایا، تم نے بہت بری بات کہی ہے، اے میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا طواف کیا، اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں) مسلمانوں نے ان کا طواف کیا، (اس لیے یہ) مسلمانوں کا طریقہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3081]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث میں آیت کے نزول کا ایک اور پس منظر بیان کیا گیا ہے کہ حج کے سلسلہ میں پہلے چونکہ صفا اورمروہ کے درمیان سعی کرنے کی تصریح نازل نہیں ہوئی تھی اس لیے بعض لوگوں نے خیال کیا، اگرسعی نہ بھی کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ تو فرمایا: (یہ تو شعائر اللہ، دین کے امتیازی نشانات اورعلامات میں سے ہیں) ان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ شعائر دین وشریعت کے وہ مظاہر ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کسی معنوی حقیقت کا شعور پیدا کرنے کے لیے بطور ایک نشان اور علامت مقرر کیے گئے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3081
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1762
1762. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ہمارا صرف حج کرنے کاارادہ تھا۔ نبی کریم ﷺ جب مکہ مکرمہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی لیکن آپ نے احرام نہ کھولا کیونکہ آپ کے ہمراہ قربانی تھی۔ آپ کے ساتھ آپ کی بیویاں اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے۔ انھوں نے بھی طواف کیا۔ جن کے پاس قربانی نہ تھی انھوں نے احرام کھول دیا۔ دریں اثناء اسے(حضرت عائشہ ؓ کو) حیض آگیا چنانچہ ہم نے مناسک حج ادا کیے۔ جب روانگی کی رات آئی تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے علاوہ آپ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حج اور عمرہ کرکے واپس جارہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جن راتوں ہم مکہ مکرمہ آئے تھے کیا تم نے اس وقت بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا؟“ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے بھائی کے ساتھ مقام تنعیم جاؤ اور وہاں سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1762]
حدیث حاشیہ: عقریٰ کے لفظی ترجمہ بانجھ اور حلقی کا ترجمہ سر منڈی ہے، یہ الفاظ آپ ﷺ نے محبت میں استعمال فرمائے، معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر ایسے لفظوں میں خطاب کرنا جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1762
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1643
1643. حضرت عروہ بن زبیر ؒ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا کہ آپ اس آیت کریمہ کی وضاحت کریں: ”بلاشبہ صفا اور مردہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ جو شخص کعبہ کاحج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ صفا ومروہ کی سعی کرے۔“ واللہ!اس سے تو یہ معلوم ہوتاہے کہ اگر صفا ومروہ کی سعی نہ کریں تو کسی پر کچھ بھی گناہ نہیں ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اے میرے بھانجے! تو نے غلط بات کہی۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ مطلب ہوتا تو آیت کریمہ یوں ہوتی: ”ان کے طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔“ دراصل بات یہ ہے کہ مذکورہ آیت کریمہ انصار کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ اسلام لانے سے پہلے منات کے لیے احرام باندھاکرتے تھے جس کی وہ مقام مشلل کے قریب عبادت کرتے تھے، اس لیے ان میں سے جو شخص احرام باندھتا تو وہ صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنا گناہ خیال کرتا تھا۔ جب یہ لوگ مسلمان ہوئے تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1643]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عائشہ ؓ اور ابوبکر بن عبدالرحمٰن ؓ کے کلام میں کچھ فرق ہے۔ حضرت عائشہ ؓ اس آیت کا نزول انصار کے ایک مخصوص گروہ کے متعلق فرماتی ہیں جبکہ ابوبکر بن عبدالرحمٰن اس سے عموم مراد لیتے ہیں۔ شاید حضرت عائشہ ؓ نے دونوں کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ جب ایک کے ذکر سے مقصود حاصل ہو گیا تو دوسرے فریق کا ذکر انہوں نے مناسب نہ سمجھا۔ (2) خلاصہ یہ ہے کہ انصار، منات سے احرام باندھ کر صفا اور مروہ کا طواف نہیں کرتے تھے اور دوسرے اہل عرب صفا اور مروہ کا طواف کرتے تھے، اب جب اسلام آیا تو فریقین نے اس رسم جاہلیت اور عادت مشرکین کو گناہ خیال کیا تو ان سے کہا گیا کہ طواف کرنے میں گناہ نہیں۔ اس میں وجوب و اباحت سے بحث نہیں ہے کیونکہ وجوب تو پہلے ثابت ہو چکا ہے۔ بہرحال صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا واجب ہے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا ارشاد گرامی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں کے درمیان سعی کو مشروع قرار دیا ہے، اس لیے کسی کو یہ حق نہیں کہ اسے چھوڑ دے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ صفا اور مروہ کی سعی کا وجوب حضرت عائشہ ؓ کے ان الفاظ سے ہے جو صحیح مسلم میں ہیں کہ اللہ کی قسم! اس شخص کا حج اور عمرہ نامکمل ہے جو صفا اور مروہ کی سعی نہیں کرتا۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3079 (1277) اس کے واجب ہونے پر زیادہ قوی دلیل رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”مجھ سے حج کا طریقہ سیکھو۔ “ اور آپ نے صفا اور مروہ کی سعی کی ہے جو اس امر کے تحت ہے، اس لیے اس امر کے تحت جملہ افعال و اعمال واجب ہوں گے۔ (فتح الباري: 629/3) واللہ أعلم۔ بہرحال جمہور اہل علم کے نزدیک صفا اور مروہ کی سعی حج کے ارکان سے ہے، اس کے بغیر حج نہیں ہوتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1643
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1762
1762. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ہمارا صرف حج کرنے کاارادہ تھا۔ نبی کریم ﷺ جب مکہ مکرمہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی لیکن آپ نے احرام نہ کھولا کیونکہ آپ کے ہمراہ قربانی تھی۔ آپ کے ساتھ آپ کی بیویاں اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے۔ انھوں نے بھی طواف کیا۔ جن کے پاس قربانی نہ تھی انھوں نے احرام کھول دیا۔ دریں اثناء اسے(حضرت عائشہ ؓ کو) حیض آگیا چنانچہ ہم نے مناسک حج ادا کیے۔ جب روانگی کی رات آئی تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے علاوہ آپ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حج اور عمرہ کرکے واپس جارہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جن راتوں ہم مکہ مکرمہ آئے تھے کیا تم نے اس وقت بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا؟“ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے بھائی کے ساتھ مقام تنعیم جاؤ اور وہاں سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1762]
حدیث حاشیہ: (1) اس روایت سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت سے طواف وداع ساقط ہے بشرطیکہ اس نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیا ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب حضرت صفیہ ؓ کے حائضہ ہونے کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا: ”اب ہمیں اس کی وجہ سے رکنا پڑے گا۔ “ جب آپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیا تھا تو آپ نے فرمایا: ”رخت سفر باندھو، اب ہمیں یہاں رکنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس نے وہ طواف کر لیا ہے جو حج کا رکن ہے۔ “(2) جریر کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی حدیث: 1561 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1762