۔ حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن حرملہ بن عمران تجیبی، ابن وہب، شراحیل بن یزید کہتے ہیں: مجھے مسلم بن یسار نے بتایا کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخری زمانے میں (ایسے) دجال (فریب کار) کذاب ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی احادیث لائیں گے جو تم نے سنی ہوں گی نہ تمہارے آباء نے۔ تم ان سے دور رہنا (کہیں) وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔“
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخری زمانہ میں دجّال (ملمع ساز، جھوٹ کو سچ بنانے والے) اور جھوٹے لوگ تمھارے پاس ایسی حدیثیں لائیں گے (پیش کریں گے) جو نہ تم نے سنی ہوں گی، اور نہ تمھارے باپ دادا نے، چنانچہ تم اپنے آپ کو ان سے بچانا، (ان سے دور رہنا) کہیں وہ تمھیں گمراہ نہ کر دیں اور دین سے برگشتہ نہ کر دیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (4612) انظر ((جامع الاصول)) برقم (8193)»
ابو سعید اشج، وکیع، اعمش، مسیب بن رافع، عامر بن عبدہ سے روایت ہے، کہا: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بلاشبہ شیطان کسی آدمی کی شکل اختیار کرتا ہے، پھر لوگوں کے پاس آتا ہے اور انہیں جھوٹ (پر مبنی) کوئی حدیث سناتا ہے، پھر وہ بکھر جاتے ہیں، ان میں سے کوئی آدمی کہتا ہے: میں نے ایک آدمی سے (حدیث) سنی ہے، میں اس کا چہرہ تو پہنچانتا ہوں پر اس کا نام نہیں جانتا، وہ حدیث سنا رہا تھا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: ”شیطان آدمی کی صورت و شکل اپنا کر لوگوں کے پاس آتا ہے اور انھیں جھوٹی باتیں سناتا ہے، چنانچہ وہ لوگ بکھر جاتے ہیں، تو ان میں سے ایک آدمی کہتا ہے: میں نے ایک آدمی سے (یہ یہ سنا ہے) میں اس کا چہرہ (شکل وصورت سے) پہچانتا ہوں اور مجھے اس کے نام کا پتہ نہیں ہے، وہ بیان کر رہا تھا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (9326) وهو في ((جامع الاصول)) برقم (8194)»
وحدثني محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، قال: إن في البحر شياطين مسجونة، اوثقها سليمان يوشك ان تخرج، فتقرا على الناس قرآناوحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: إِنَّ فِي الْبَحْرِ شَيَاطِينَ مَسْجُونَةً، أَوْثَقَهَا سُلَيْمَانُ يُوشِكُ أَنْ تَخْرُجَ، فَتَقْرَأَ عَلَى النَّاسِ قُرْآنًا
محمد بن رافع، عبد الرزاق، معمر، ابن طاؤس، طاؤس نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: سمندر (کی تہ) میں بہت سے شیطان قید ہیں جنہیں حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ نے باندھا تھا، وقت آ رہا ہے کہ وہ نکلیں گے اور لوگوں کے سامنے قرآن پڑھیں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں: ”سمندر میں بہت سے شیاطین قید ہیں، جنھیں حضرت سلیمانؑ نے باندھا تھا، قریب ہے وہ نکلیں اور لوگوں کو قرآن سنائیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (8831) وهو في ((جامع الاصول)) برقم (8195)»
وحدثني محمد بن عباد وسعيد بن عمرو الاشعثي جميعا، عن ابن عيينة، قال سعيد: اخبرنا سفيان، عن هشام بن حجير، عن طاوس، قال: جاء هذا إلى ابن عباس يعني بشير بن كعب، فجعل يحدثه، فقال له ابن عباس:" عد لحديث كذا وكذا، فعاد له، ثم حدثه، فقال له: عد لحديث كذا وكذا، فعاد له، فقال له: ما ادرى، اعرفت حديثي كله وانكرت هذا، ام انكرت حديثي كله وعرفت هذا؟ فقال له ابن عباس: إنا كنا نحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ لم يكن يكذب عليه، فلما ركب الناس الصعب والذلول، تركنا الحديث عنهوحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ وَسَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الأَشْعَثِيُّ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ سَعِيدٌ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: جَاءَ هَذَا إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَعْنِي بُشَيْرَ بْنَ كَعْبٍ، فَجَعَلَ يُحَدِّثُهُ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ:" عُدْ لِحَدِيثِ كَذَا وَكَذَا، فَعَادَ لَهُ، ثُمَّ حَدَّثَهُ، فَقَالَ لَهُ: عُدْ لِحَدِيثِ كَذَا وَكَذَا، فَعَادَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ: مَا أَدْرِى، أَعَرَفْتَ حَدِيثِي كُلَّهُ وَأَنْكَرْتَ هَذَا، أَمْ أَنْكَرْتَ حَدِيثِي كُلَّهُ وَعَرَفْتَ هَذَا؟ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّا كُنَّا نُحَدِّثُ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ لَمْ يَكُنْ يُكْذَبُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا رَكِبَ النَّاسُ الصَّعْبَ وَالذَّلُولَ، تَرَكْنَا الْحَدِيثَ عَنْهُ
محمد بن عباد، سعید بن عمر، اشعثیٰ، ابن عیینہ، سعید، سفیان، ہشام بن جحیر نے طاوس سے روایت کی، کہا: یہ (ان کی مراد بشیر بن کعب سے تھی) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انہیں حدیثیں سنانے لگا، ابن عباس رضی اللہ عنہ اس سے کہا: فلاں فلاں حدیث دہراؤ۔ اس نے دہرا دیں، پھر ان کے سامنے احادیث بیان کیں۔ انہوں نے اس سے کہا: فلاں حدیث دوبارہ سناؤ۔ اس نے ان کے سامنے دہرائیں، پھر آپ سے عرض کی: میں نہیں جانتا کہ آپ نے میری (بیان کی ہوئی) ساری احادیث پہچان لی ہیں اور اس حدیث کو منکر جانا ہے یا سب کو منکر جانا ہے اور اسے پہچان لیا ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بولا جاتا تھا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث بیان کرتے تھے، پھر جب لوگ (ہر) مشکل اور آسان سواری پر سوار ہونے لگے (بلا تمیز صحیح وضعیف روایات بیان کرنے لگے) تو ہم نے (براہ راست) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرنا ترک کر دیا۔
امام طاؤسؒ بیان کرتے ہیں، یہ بشیر بن کعبؒ، حضرت ابنِ عبّاس ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر انھیں حدیثیں سنانے لگا، چنانچہ حضرت ابنِ عبّاس ؓ نے اسے کہا: ”فلاں فلاں حدیث دوبارہ سناؤ!“ اس نے انھیں دوبارہ سنا دیں۔ پھر انھیں کہا: میں نہیں جانتا آپ نے میری تمام حدیثیں پہچان لی ہیں (ان کی تصدیق اور تائید کرتے ہیں) اور اس کا انکار کیا ہے (منکر ہونے کی وجہ سےدوبارہ سنا ہے)، یا میری تمام احادیث کو آپ نے منکر سمجھا ہے اور اس کو پہچان لیا ہے؟ تو حضرت ابنِ عبّاس ؓ نے فرمایا: ”جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا جاتا تھا، تو ہم (بلا جھجک اور بلا خوف خطر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتے تھے، لیکن جب لوگوں نے ہر قسم کے دشوار گزاراور پامال شدہ چلے ہوئے راستے پر چلنا شروع کر دیا (صحیح اور ضعیف کو بیان کرنا شروع کر دیا) تو ہم نے آپ سے حدیث بیان کرنا چھوڑدیا۔ (یعنی صرف وہی حدیثیں بیان کرتے ہیں جن کی صحت کا ہمیں علم ہے اور وہی حدیثیں سنتے ہیں جن سے ہم آگاہ ہیں)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (5759)»
وحدثني محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس، قال: إنما" كنا نحفظ الحديث، والحديث يحفظ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاما إذ ركبتم كل صعب وذلول، فهيهاتوحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنِ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِنَّمَا" كُنَّا نَحْفَظُ الْحَدِيثَ، وَالْحَدِيثُ يُحْفَظُ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَّا إِذْ رَكِبْتُمْ كُلَّ صَعْبٍ وَذَلُولٍ، فَهَيْهَاتَ
محمد بن رافع، عبد الرزاق، ابن طاؤس، طاؤس کے بیٹے نے اپنےوالد (طاوس) سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث حفظ کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (مروی) حدیث کی حفاظت کی جاتی تھیں مگر جب سے تم لوگوں نے (بغیر تمیز کے) ہر مشکل اور آسان پر سواری شروع کر دی تو یہ (معاملہ) دو رہو گیا (یہ بعید ہو گیا کہ ہماری طرح کے محتاط لوگ اس طرح بیان کردہ احادیث کو قبول کریں، پھر یاد رکھیں۔)
حضرت ابنِ عبّاس ؓ فرماتے ہیں: ”ہم احادیث یاد کیا کرتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو یاد ہی کرنا چاہیے، چنانچہ جب تم نے ہر اناڑی اور رام (رطب و یابس) کو قبول کر لیا، تو تم راہِ راست سے دور ہٹ گئے (تمھاری احادیث پر ہمیں اعتماد نہیں رہا)۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، وأخرجه ابن ماجه في ((المقدمة)) باب: التوقي في الحديث عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم برقم (27) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (5717)»
وحدثني ابو ايوب سليمان بن عبيد الله الغيلاني، حدثنا ابو عامر يعنى العقدي، حدثنا رباح، عن قيس بن سعد، عن مجاهد، قال: جاء بشير العدوي إلى ابن عباس، فجعل يحدث، ويقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجعل ابن عباس، لا ياذن لحديثه ولا ينظر إليه.فقال: يا ابن عباس، مالي لا اراك تسمع لحديثي، احدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا تسمع، فقال ابن عباس:" إنا كنا مرة إذا سمعنا رجلا، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ابتدرته ابصارنا، واصغينا إليه بآذاننا، فلما ركب الناس الصعب والذلول، لم ناخذ من الناس إلا ما نعرفوحَدَّثَنِي أَبُو أَيُّوبَ سُلَيْمَانُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْغَيْلَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ يَعْنِى الْعَقَدِيَّ، حَدَّثَنَا رَبَاحٌ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: جَاءَ بُشَيْرٌ الْعَدَوِيُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَجَعَلَ يُحَدِّثُ، وَيَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ، لَا يَأْذَنُ لِحَدِيثِهِ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِ.فَقَالَ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، مَالِي لَا أَرَاكَ تَسْمَعُ لِحَدِيثِي، أُحَدِّثُكَ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَسْمَعُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" إِنَّا كُنَّا مَرَّةً إِذَا سَمِعْنَا رَجُلًا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَدَرَتْهُ أَبْصَارُنَا، وَأَصْغَيْنَا إِلَيْهِ بِآذَانِنَا، فَلَمَّا رَكِبَ النَّاسُ الصَّعْبَ وَالذَّلُولَ، لَمْ نَأْخُذْ مِنَ النَّاسِ إِلَّا مَا نَعْرِفُ
مجاہد سے روایت ہے کہ بشیر بن کعب عدوی حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے پاس آیا اور اس نے احادیث بیان کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ حضرت ابن عباسؓ (نے یہ رویہ رکھا کہ) نہ اس کو دھیان سے سنتے تھے نہ اس کی طرف دیکھتے تھے۔ وہ کہنے لگا: اے ابن عباس! میرے ساتھ کیا (معاملہ) ہے، مجھے نظر نہیں آتا کہ آپ میری (بیان کردہ) حدیث سن رہے ہیں؟ میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنا رہا ہوں اور آپ سنتے ہی نہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک وقت ایسا تھا کہ جب ہم کسی کو یہ کہتے سنتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو ہماری نظریں فوراً اس کی طرف اٹھ جاتیں اور ہم کان لگا کر غور سے اس کی بات سنتے، پھر جب لوگوں نے (بلا تمیز) ہر مشکل اور آسان پر سواری (شروع) کر دی تو ہم لوگوں سے کوئی حدیث قبول نہ کی سوائے اس (حدیث) کے جسے ہم جانتے تھے۔
امام مجاہد ؒ بیان کرتے ہیں، بشیر عددی ؒ، حضرت ابنِ عبّاس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حدیثیں بیان کرتے ہوئے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگا۔ چنانچہ حضرت ابنِ عباس ؓ نے اس کی احادیث پر کان نہ دھرا، اور نہ اس کی طرف توجّہ کی تو اس نے کہا: اے ابنِ عباس! کیا وجہ ہے کہ آپ میری احادیث سنتے ہی نہیں ہیں، جب کہ میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنا رہا ہوں اور آپ سنتے ہی نہیں۔ تو ابنِ عباس ؓ نے کہا: ”کبھی یہ تھا، جب ہم کسی آدمی کو یہ کہتے سنتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تو ہماری آنکھیں اس کی طرف لپکتیں (فوراً اس کی طرف اٹھتیں)، اور ہم اس کی باتوں پر کان لگاتے، مگر جب لوگوں نے دشوار اور نرم (ضعیف اور صحیح) ہر راستہ پر چلنا شروع کر دیا، تو ہم لوگوں سے وہ حدیث لیتے ہیں جس کو ہم پہچانتے ہیں، جن کی صحت کا ہمیں علم ہے، یا جن کو ہم صحیح خیال کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (6419)»
حدثنا داود بن عمرو الضبي، حدثنا نافع بن عمر، عن ابن ابى مليكة، قال: كتبت إلى ابن عباس اساله، ان يكتب لي كتابا ويخفي عنى، فقال:" ولد ناصح، انا اختار له الامور اختيارا، واخفى عنه، قال: فدعا بقضاء علي، فجعل يكتب منه اشياء ويمر به الشيء، فيقول: والله ما قضى بهذا علي، إلا ان يكون ضلحَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ أَبِى مُلَيْكَةَ، قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَسْأَلُهُ، أَنْ يَكْتُبَ لِي كِتَابًا وَيُخْفِي عَنِّى، فَقَالَ:" وَلَدٌ نَاصِحٌ، أَنَا أَخْتَارُ لَهُ الأُمُورَ اخْتِيَارًا، وَأُخْفِى عَنْهُ، قَال: فَدَعَا بِقَضَاءِ عَلِيٍّ، فَجَعَلَ يَكْتُبُ مِنْهُ أَشْيَاءَ وَيَمُرُّ بِهِ الشَّيْءُ، فَيَقُولُ: وَاللَّهِ مَا قَضَى بِهَذَا عَلِيٌّ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ ضَلَّ
ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، کہا: میں نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی طرف لکھا اور ان سے درخواست کی کہ وہ میرے لیے ایک کتاب لکھیں اور (جن باتوں کی صحت میں مقال ہو یا جو نہ لکھنے کی ہوں وہ) باتیں مجھ سے چھپا لیں۔ انہوں نے فرمایا: لڑکا خالص احادیث کا طلبگار ہے، میں اس کے لیے (حدیث سے متعلق) تمام معاملات میں (صحیح کا) انتخاب کروں گا اور (موضوع اور گھڑی ہوئی احادیث کو) ہٹا دوں گا (کہا: انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلے منگوائے) اور ان میں سے چیزیں لکھنی شروع کیں اور (یہ ہوا کہ) کوئی چیز گزرتی تو فرماتے: بخدا! یہ فیصلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہیں کیا، سوائے اس کے کہ (خدانخواستہ) وہ گمراہ ہو گئے ہوں (جب کہ ایسا نہیں ہوا۔)
ابنِ ابی ملیکہ ؒ بیان کرتے ہیں: میں نے ابنِ عباس ؓ سے خط لکھ کر درخواست کی کہ آپ مجھے ایک نوشتہ (تحریر) لکھ دیں، اور مجھ سے مشکل حدیث (جو بد فہمی اور غلط فہمی کا باعث بن سکتی ہو) چھپائیں۔ ابنِ عباس ؓنےفرمایا: ”خیر خواہ اور مخلص بچہ ہے، میں اس کے لیے چند باتوں کا اچھی طرح انتخاب کروں گا اور اس سے مشکل چیزوں کو پوشیدہ رکھوں گا۔“ پھر حضرت ابنِ عباس ؓ نے حضرت علیؓ کے فیصلہ جات کو منگوایا اور ان سے کچھ باتیں (منتخب باتیں لکھواتے) یعنی فیصلہ جات لکھوائے گئے، اور بعض فیصلوں کو سامنے آنے پر کہتے: ”واللہ! حضرت علیؓ نے یہ فیصلہ نہیں کیا اِلّا یہ کہ وہ راہِ راست سے بھٹک گئے ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (5806)»
حدثنا عمرو الناقد، حدثنا سفيان بن عيينة، عن هشام بن حجير، عن طاوس، قال:" اتي ابن عباس بكتاب، فيه قضاء علي رضي الله عنه، محاه إلا قدر، واشار سفيان بن عيينة بذراعهحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ:" أُتِيَ ابْنُ عَبَّاسٍ بِكِتَابٍ، فِيهِ قَضَاءُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، مَحَاهُ إِلَّا قَدْرَ، وَأَشَارَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ بِذِرَاعِهِ
عمر وناقد، سفیان بن عیینہ، ہشام، بن حجیر، طاوس سے روایت ہے، کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس ایک کتاب لائی گئی جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلے (لکھے ہوئے) تھے تو انہوں نے اس قدر چھوڑ کر باقی (سب کچھ) مٹا دیا اور سفیان بن عیینہ نے ہاتھ (جتنی لمبائی) کا اشارہ کیا۔
حضرت طاؤس ؒ بیان کرتے ہیں حضرت ابنِ عبّاس ؓ کے پاس ایک تحریر یا کتاب لائی گئی، جس میں حضرت علیؓ کے فیصلہ جات تھے، انھوں نے اس ساری تحریر کو مٹا ڈالا، مگر اتنا حصہ، سفیان بن عیینہؒ نے اپنے بازو سے اشارہ کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (5760)»
حدثنا حسن بن علي الحلواني، حدثنا يحيي بن آدم، حدثنا ابن إدريس، عن الاعمش، عن ابى إسحاق، قال: لما احدثوا تلك الاشياء، بعد علي رضي الله عنه، قال رجل من اصحاب علي: قاتلهم الله، اي علم افسدوا؟حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِى إِسْحَاق، قَالَ: لَمَّا أَحْدَثُوا تِلْكَ الأَشْيَاءَ، بَعْدَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ: قَاتَلَهُمُ اللَّهُ، أَيَّ عِلْمٍ أَفْسَدُوا؟
حسن بن علی حلوانی، یحییٰ بن آدم، ابن ادریس، اعمش، ابو اسحاق سے روایت ہے، کہا: جب (بظاہر حضرت علی کا نام لینے والے) لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد (ان کے نام پر) یہ چیزیں ایجاد کر لیں تو ان کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے کہا: اللہ ان (لوگوں) کو قتل کرے! انہوں نے کیسا (عظیم الشان) علم بگاڑ دیا۔
ابو اسحاقؒ کہتے ہیں: جب ان لوگوں (روافض) نے حضرت علیؓ کے بعد یہ اشیاء ایجاد کر لیں (ان کی باتوں میں اپنی طرف سے غلط اور باطل چیزیں ملا دیں) تو حضرت علیؓ کے شاگردوں میں سے ایک آدمی نے کہا: ”اللہ ان لوگوں کو تباہ و برباد کرے! اپنی رحمت سے محروم کرے، انھوں نے کتنا عظیم علم برباد کر ڈالا۔“ یعنی صحیح اور عمدہ باتوں میں غلط اور باطل کی آمیزش کر کے لوگوں کو صحیح چیزوں سے بھی محروم کر ڈالا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (19617)»
حدثنا علي بن خشرم، اخبرنا ابو بكر يعنى ابن عياش، قال: سمعت المغيرة، يقول: لم يكن يصدق على علي رضي الله عنه، في الحديث عنه، إلا من اصحاب عبد الله بن مسعود.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِى ابْنَ عَيَّاشٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ، يَقُولُ: لَمْ يَكُنْ يَصْدُقُ عَلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فِي الْحَدِيثِ عَنْهُ، إِلَّا مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ.
علی بن خشرم، ابو بکر بن عیاش نے ہمیں بتایا، کہا: میں نے مغیرہ سے سنا، فرماتے تھے: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث میں کسی چیز کی تصدیق نہ کی جاتی تھی، سوائے اس کے جو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے روایت کی گئی ہو۔
امام مغیرہؒ کہتے تھے: حضرت علیؓ سے صحیح باتیں صرف عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد ہی بیان کرتے تھے، یا حضرت علیؓ سے جو لوگ روایت کرتے ہیں، ان کی وہی روایت مانی جاتی جس کی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد تصدیق کرتے۔ یعنی حضرت علیؓ کے شاگردوں کی وہی باتیں قابلِ قبول ہیں، جن کی تصدیق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے تلامذہ کریں، کیونکہ وہ حضرت علیؓ سے صحیح باتیں نقل کرتے ہیں، ان میں اپنی طرف سے آمیزش نہیں کرتے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (19450)»