محمد بن عباد، سعید بن عمر، اشعثیٰ، ابن عیینہ، سعید، سفیان، ہشام بن جحیر نے طاوس سے روایت کی، کہا: یہ (ان کی مراد بشیر بن کعب سے تھی) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انہیں حدیثیں سنانے لگا، ابن عباس رضی اللہ عنہ اس سے کہا: فلاں فلاں حدیث دہراؤ۔ اس نے دہرا دیں، پھر ان کے سامنے احادیث بیان کیں۔ انہوں نے اس سے کہا: فلاں حدیث دوبارہ سناؤ۔ اس نے ان کے سامنے دہرائیں، پھر آپ سے عرض کی: میں نہیں جانتا کہ آپ نے میری (بیان کی ہوئی) ساری احادیث پہچان لی ہیں اور اس حدیث کو منکر جانا ہے یا سب کو منکر جانا ہے اور اسے پہچان لیا ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بولا جاتا تھا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث بیان کرتے تھے، پھر جب لوگ (ہر) مشکل اور آسان سواری پر سوار ہونے لگے (بلا تمیز صحیح وضعیف روایات بیان کرنے لگے) تو ہم نے (براہ راست) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرنا ترک کر دیا۔
امام طاؤسؒ بیان کرتے ہیں، یہ بشیر بن کعبؒ، حضرت ابنِ عبّاس ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر انھیں حدیثیں سنانے لگا، چنانچہ حضرت ابنِ عبّاس ؓ نے اسے کہا: ”فلاں فلاں حدیث دوبارہ سناؤ!“ اس نے انھیں دوبارہ سنا دیں۔ پھر انھیں کہا: میں نہیں جانتا آپ نے میری تمام حدیثیں پہچان لی ہیں (ان کی تصدیق اور تائید کرتے ہیں) اور اس کا انکار کیا ہے (منکر ہونے کی وجہ سےدوبارہ سنا ہے)، یا میری تمام احادیث کو آپ نے منکر سمجھا ہے اور اس کو پہچان لیا ہے؟ تو حضرت ابنِ عبّاس ؓ نے فرمایا: ”جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا جاتا تھا، تو ہم (بلا جھجک اور بلا خوف خطر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتے تھے، لیکن جب لوگوں نے ہر قسم کے دشوار گزاراور پامال شدہ چلے ہوئے راستے پر چلنا شروع کر دیا (صحیح اور ضعیف کو بیان کرنا شروع کر دیا) تو ہم نے آپ سے حدیث بیان کرنا چھوڑدیا۔ (یعنی صرف وہی حدیثیں بیان کرتے ہیں جن کی صحت کا ہمیں علم ہے اور وہی حدیثیں سنتے ہیں جن سے ہم آگاہ ہیں)۔