كتاب المياه کتاب: پانی کے احکام و مسائل 1. بَابُ: ذِكْرِ بِئْرِ بُضَاعَةَ باب: بئر بضاعہ کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی نے غسل جنابت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بچے ہوئے پانی سے وضو کیا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطھارة 35 (68)، سنن الترمذی/فیہ 48 (65)، سنن ابن ماجہ/فیہ 33 (370)، (تحفة الأشراف 6103)، مسند احمد 1/235، 284، 308، 337، سنن الدارمی/الطہارة 57(761، 762) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جو پانی جنبی یا محدث کے استعمال سے بچ جائے، وہ استعمال کرنے والے کی جنابت یا حدث کی وجہ سے نجس نہیں ہوتا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم بضاعہ نامی کنویں سے وضو کریں؟ اور حال یہ ہے کہ یہ ایک ایسا کنواں ہے جس میں کتوں کے گوشت، حیض کے کپڑے، اور بدبودار چیزیں ڈالی جاتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی پاک ہوتا ہے، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطھارة 34 (66، 67)، سنن الترمذی/فیہ 49 (66)، (تحفة الأشراف 4144)، مسند احمد 3/16، 31، 86 (صحیح) (متابعات اور شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ’’عبیداللہ‘‘ مجہول الحال ہیں) قال إبن حجر: ’’مستور‘‘ من الرابعة۔»
وضاحت: ۱؎: بئر بضاعہ مدینہ کے ایک کنویں کا نام ہے۔ ۲؎: یعنی اس کنویں کے نشیب میں واقع ہونے اور منڈیر نہ ہونے کی وجہ سے سیلاب اور ہوائیں ان چیزوں کو بہا اور اڑا کر کنویں میں ڈال دیتی تھیں۔ ۳؎: «الماء طہور» میں الف لام عہد کا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سائل کے ذہن میں جس کنویں کا پانی ہے وہ نجاست گرنے سے ناپاک نہیں ہو گا، کیونکہ اس کنویں کی چوڑائی چھ ہاتھ تھی، اور اس میں ناف سے اوپر پانی رہتا تھا، اور جب کم ہوتا تو ناف سے نیچے ہو جاتا جیسا کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اس کا ذکر کیا ہے، مطلب حدیث کا یہ ہے کہ جب پانی کی مقدار زیادہ ہو تو محض نجاست کا گر جانا اسے ناپاک نہیں کرتا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ مطلق پانی میں نجاست گرنے سے وہ ناپاک نہیں ہو گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا، آپ بئر بضاعہ کے پانی سے وضو کر رہے تھے، میں نے عرض کیا: کیا آپ اس سے وضو کر رہے ہیں حالانکہ اس میں تو ایسی بدبودار چیزیں ڈالی جاتی ہیں جو ناگوار ہوتی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف 4125)، مسند احمد 3/ 15 (صحیح) (متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ’’خالد‘‘ 1؎ اور ’’سلیط‘‘ 2؎ وضاحت 1؎: قال إبن حجر: ’’مقبول‘‘ من السادسة 2؎: قال إبن حجر: ’’مقبول‘‘ من السادسة»
وضاحت: ۱؎: لیکن یہ اس وقت ہے جب پانی دو قلہ کی مقدار کو پہنچ گیا ہو، اور جب تک وہ اس کے رنگ، بو اور مزہ میں سے کسی وصف کو بدل نہ دے، اگر دو قلہ سے کم ہو تو نجاست پڑنے سے پانی ناپاک ہو جائے گا، اسی طرح اگر رنگ مزہ اور بو کو نجاست نے بدل دیا، تو گویا وہ پانی نہیں رہا، اور جب پانی نہیں رہا تو اس میں پاک ہونے اور پاک کرنے کی صفت باقی نہیں رہی کیونکہ یہ صفت پانی ہی کی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|