كتاب الفرائض کتاب: وراثت کے احکام و مسائل 7. بَابُ: مِيرَاثِ الْوَلاَءِ باب: ولاء یعنی غلام آزاد کرنے پر حاصل ہونے والے حق وراثت کا بیان۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رباب بن حذیفہ بن سعید بن سہم نے ام وائل بنت معمر جمحیہ سے نکاح کیا، اور ان کے تین بچے ہوئے، پھر ان کی ماں کا انتقال ہوا، تو اس کے بیٹے زمین جائیداد اور ان کے غلاموں کی ولاء کے وارث ہوئے، ان سب کو لے کر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ شام گئے، وہ سب طاعون عمواس میں مر گئے تو ان کے وارث عمرو رضی اللہ عنہ ہوئے، جو ان کے عصبہ تھے، اس کے بعد جب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ شام سے لوٹے تو معمر کے بیٹے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنی بہن کے ولاء (حق میراث) کا مقدمہ لے کر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اسی کے مطابق تمہارا فیصلہ کروں گا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس ولاء کو لڑکا اور والد حاصل کریں وہ ان کے عصبہ کو ملے گا خواہ وہ کوئی بھی ہو“، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے ہمارے حق میں فیصلہ کر دیا، اور ہمارے لیے ایک دستاویز لکھ دی، جس میں عبدالرحمٰن بن عوف، زید بن ثابت رضی اللہ عنہما اور ایک تیسرے شخص کی گواہی درج تھی، جب عبدالملک بن مروان خلیفہ ہوئے تو ام وائل کا ایک غلام مر گیا، جس نے دو ہزار دینار میراث میں چھوڑے تھے، مجھے پتہ چلا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا کیا ہوا فیصلہ بدل دیا گیا ہے، اور اس کا مقدمہ ہشام بن اسماعیل کے پاس گیا ہے، تو ہم نے معاملہ عبدالملک کے سامنے اٹھایا، اور ان کے سامنے عمر رضی اللہ عنہ کی دستاویز پیش کی جس پر عبدالملک نے کہا: میرے خیال سے تو یہ ایسا فیصلہ ہے جس میں کسی کو بھی شک نہیں کرنا چاہیئے، اور میں یہ نہیں سمجھ رہا تھا کہ مدینہ والوں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ وہ اس جیسے (واضح) فیصلے میں شک کر رہے ہیں، آخر کار عبدالملک نے ہماری موافقت میں فیصلہ کیا، اور ہم برابر اس میراث پر قابض رہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الفرائض 12 (2917)، (تحفة الأشراف: 10581)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/27) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: ولاء کا قاعدہ یہ ہے کہ اس غلام یا لونڈی کے ذوی الفروض سے جو بچ رہے گا وہ آزاد کرنے والے کو ملے گا، اگر ذوی الفروض میں سے کوئی نہ ہو اور نہ قریبی عصبات میں سے تو کل مال آزاد کرنے والے کو مل جائے گا، اور جب ایک مرتبہ ام وائل کے غلاموں کی ولاء اس کے بیٹوں کی وجہ سے سسرال والوں میں آ گئی تو وہ اب کبھی پھر ام وائل کے خاندان میں جانے والی نہیں تھی جیسے عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا۔ قال الشيخ الألباني: حسن
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام کھجور کے درخت پر سے گر کر مر گیا، اور کچھ مال چھوڑ گیا، اس نے کوئی اولاد یا رشتہ دار نہیں چھوڑا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی میراث اس کے گاؤں میں سے کسی کو دے دو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الفرائض 8 (2902)، سنن الترمذی/الفرائض 13 (2105)، (تحفة الأشراف: 16381)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/137، 174، 181) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ میراث رسول اکرم ﷺ کی تھی مگر انبیاء کسی کے وارث نہیں ہوتے اور نہ ان کا کوئی وارث ہوتا ہے اس لیے آپ نے میراث نہیں لی، بیت المال میں ایسی میراث رکھنے کا امام کو اختیار ہے، آپ نے یہی مناسب سمجھا کہ اس کی بستی والے اس کے مال سے فائدہ اٹھائیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن شداد کی اخیافی بہن بنت حمزہ کہتی ہیں کہ میرا ایک غلام فوت ہو گیا، اس نے ایک بیٹی چھوڑی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مال میرے اور اس کی بیٹی کے درمیان تقسیم کیا، اور مجھے اور اس کی بیٹی کو آدھا آدھا دیا، (بیٹی کو بطور فرض اور بہن کو بطور عصبہ)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18372، ومصباح الزجاجة: 966)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الفرائض 31 (3056) (حسن)» (سند میں ابن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1696)
قال الشيخ الألباني: حسن
|