كتاب الأذان والسنة فيه کتاب: اذان کے احکام و مسائل اورسنن 3. بَابُ: السُّنَّةِ فِي الأَذَانِ باب: اذان کی سنتوں کا بیان۔
مؤذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں میں ڈال لیں، اور فرمایا: ”اس سے تمہاری آواز خوب بلند ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3825، ومصباح الزجاجة: 263) (ضعیف)» (ابناء سعد عمار و سعد و عبد الرحمن کے ضعف کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں وادی بطحاء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ ایک سرخ خیمہ میں قیام پذیر تھے، بلال رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور اذان دی، تو اپنی اذان میں گھوم گئے (جس وقت انہوں نے «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» کے کلمات کہے)، اور اپنی (شہادت کی) دونوں انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈالیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11805)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 15 (634)، صحیح مسلم/الصلاة 47 (503)، سنن ابی داود/الصلاة 34 (520)، سنن الترمذی/الصلاة 30 (197)، سنن النسائی/الأذان 13 (644)، الزینة من المجتبیٰ 69 (5380)، مسند احمد (4/308)، سنن الدارمی/الصلاة 8 (1234) (صحیح)» (اس سند میں حجاج ضعیف ہیں، لیکن متن دوسرے طرق سے صحیح ہے «كما في التخريج من طرق سفيان الثوري، و شعبة وغيرهما عن عون به» )
وضاحت: ۱؎: موذن جب «حي على الصلاة» کہے، تو دائیں طرف منہ پھیرے، اور جب «حي الفلاح» کہے تو بائیں طرف منہ پھیرے، اگر اذان کے منارے میں منہ پھیرنے کی گنجائش نہ ہو تو صرف گھوم جائے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کے دو کام مؤذن کی گردنوں میں لٹکے ہوتے ہیں: ایک نماز، دوسرے روزہ“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفة الأشراف: 7770، ومصباح الزجاجة: 264) (موضوع)» (سند میں بقیہ مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور مروان بن سالم وضع حدیث میں متہم راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 905)
قال الشيخ الألباني: موضوع
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ اذان وقت سے مؤخر نہ کرتے، اور اقامت کبھی کبھی کچھ مؤخر کر دیتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2178، ومصباح الزجاجة:)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 29 (606)، سنن ابی داود/الصلاة 44 (537)، سنن الترمذی/الصلاة 34 (202) (حسن)» (سند میں شریک القاضی سیء الحفظ ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 227)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اقامت اس وقت تک نہ ہوتی جب تک نبی اکرم ﷺ حجرہ مبارکہ سے باہر نہ آ جاتے، اور آپ کو دیکھ کر بلال رضی اللہ عنہ اقامت شروع کرتے۔ قال الشيخ الألباني: حسن
عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آخری وصیت یہ کی تھی کہ میں کوئی ایسا مؤذن نہ رکھوں جو اذان پر اجرت لیتا ہو۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 41 (209)، (تحفة الأشراف: 9763)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 40 (531)، سنن النسائی/الأذان 32 (673)، مسند احمد (4/217) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں فجر کی اذان میں «تثويب» ۱؎ کہوں، اور آپ نے عشاء کی اذان میں «تثويب» سے مجھے منع فرمایا ۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 31 (198)، (تحفة الأشراف: 2042)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/14، 148) (ضعیف)» (سند میں ابو اسرائیل ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: الإرواء: 235)
وضاحت: ۱؎: «تثويب» کہتے ہیں اعلان کے بعد اعلان کرنے یا اطلاع دینے کو، اور مراد اس سے «الصلاة خير من النوم» ہے۔ ۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ «الصلاة خير من النوم» کو نبی ﷺ نے فجر کی اذان میں جاری کیا، اور شیعہ جو کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کلمہ کو اذان میں بڑھایا یہ ان کا افتراء ہے، عمر رضی اللہ عنہ کا یہ منصب نہیں تھا کہ وہ اذان جیسی عبادت میں اپنی رائے سے گھٹاتے بڑھاتے، یہ منصب تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی کا ہے، پس بعض روایتوں میں جو یہ آیا ہے کہ مؤذن عمر رضی اللہ عنہ کو جگانے کے لئے آیا، اور اس نے کہا: «الصلاة خير من النوم» عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اس کلمے کو اپنی اذان میں مقرر کرو“، اس سے یہ نہیں نکلتا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کلمے کو ایجاد کیا، بلکہ احتمال ہے کہ لوگوں نے یہ کلمہ فجر کی اذان میں کہنا چھوڑ دیا ہو گا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس سنت کے جاری کرنے کے لئے تنبیہ کی، یا مطلب یہ ہو گا کہ یہ کلمہ اذان میں کہا کرو، اذان کے باہر اس کے کہنے کا کیا موقع، بہرحال اتباع میں عمر رضی اللہ عنہ سب صحابہ سے زیادہ سخت تھے، اور بدعت کے بڑے دشمن تھے، ان کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ انہوں نے دین میں کوئی بات کتاب و سنت کی دلیل کے بغیر اپنی طرف سے بڑھائی ہو، جب عمر رضی اللہ عنہ کو یہ منصب حاصل نہ ہوا حالانکہ دوسری حدیث میں ابوبکر اور عمر کی پیروی کا حکم ہے، اور ایک حدیث میں ہے کہ میری سنت کو لازم کر لو، اور خلفائے راشدین کی سنت کو، تو کسی صحابی، یا امام، یا مجتہد، یا پیر، یا ولی، یا فقیر، یا غوث، یا قطب کو یہ منصب کیوں کر حاصل ہو گا، کہ وہ دین میں بغیر دلیل کے کوئی اضافہ کرے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نماز فجر کی اطلاع دینے کے لیے آئے، ان کو بتایا گیا کہ آپ سوئے ہوئے ہیں، تو بلال رضی اللہ عنہ نے دو بار «الصلاة خير من النوم، الصلاة خير من النوم» کہا ”نماز نیند سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہتر ہے“ تو یہ کلمات فجر کی اذان میں برقرار رکھے گئے، پھر معاملہ اسی پر قائم رہا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفة الأشراف: 2033، ومصباح الزجاجة: 265) (صحیح)» (سند میں ابن المسیب اور بلال رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن ان کی مراسیل علماء کے یہاں مقبول ہیں، نیز اس کے شواہد بھی ہیں، ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجة)
قال الشيخ الألباني: صحيح
زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ نے مجھے اذان کا حکم دیا، میں نے اذان دی، (پھر جب نماز کا وقت ہوا) تو بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہنی چاہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صداء کے بھائی (زیاد بن حارث صدائی) نے اذان دی ہے اور جو شخص اذان دے وہی اقامت کہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 30 (514)، سنن الترمذی/الصلاة 32 (199)، (تحفة الأشراف: 3653)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/169) (ضعیف)» (اس کی سند میں عبد الرحمن بن زیاد بن انعم الافریقی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 0 337)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|