سنن ابن ماجه
كتاب الأذان والسنة فيه
کتاب: اذان کے احکام و مسائل اورسنن
3. بَابُ : السُّنَّةِ فِي الأَذَانِ
باب: اذان کی سنتوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 711
حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَاشِمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْأَبْطَحِ، وَهُوَ فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ، فَخَرَجَ بِلَالٌ فَأَذَّنَ، فَاسْتَدَارَ فِي أَذَانِهِ، وَجَعَلَ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ".
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں وادی بطحاء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ ایک سرخ خیمہ میں قیام پذیر تھے، بلال رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور اذان دی، تو اپنی اذان میں گھوم گئے (جس وقت انہوں نے «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» کے کلمات کہے)، اور اپنی (شہادت کی) دونوں انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈالیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11805)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 15 (634)، صحیح مسلم/الصلاة 47 (503)، سنن ابی داود/الصلاة 34 (520)، سنن الترمذی/الصلاة 30 (197)، سنن النسائی/الأذان 13 (644)، الزینة من المجتبیٰ 69 (5380)، مسند احمد (4/308)، سنن الدارمی/الصلاة 8 (1234) (صحیح)» (اس سند میں حجاج ضعیف ہیں، لیکن متن دوسرے طرق سے صحیح ہے «كما في التخريج من طرق سفيان الثوري، و شعبة وغيرهما عن عون به» )
وضاحت: ۱؎: موذن جب «حي على الصلاة» کہے، تو دائیں طرف منہ پھیرے، اور جب «حي الفلاح» کہے تو بائیں طرف منہ پھیرے، اگر اذان کے منارے میں منہ پھیرنے کی گنجائش نہ ہو تو صرف گھوم جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 711 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث711
اردو حاشہ:
(1)
سفر میں باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے بھی اذان کہنی چاہیے۔
(2)
اذان کے دوران میں گھومنے کا مطلب (حي علي الصلوة)
اور (حي علي الفلاح)
کہتے وقت منہ دائیں بائیں طرف پھیرنا ہے۔
(3)
اس میں اذان دیتے وقت کانوں میں انگلیاں ڈالنے کا ثبوت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 711