Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الأذان والسنة فيه
کتاب: اذان کے احکام و مسائل اورسنن
3. بَابُ : السُّنَّةِ فِي الأَذَانِ
باب: اذان کی سنتوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 717
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الِإفْرِيقِيُّ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ نُعَيْمٍ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَمَرَنِي فَأَذَّنْتُ، فَأَرَادَ بِلَالٌ أَنْ يُقِيمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَخَا صُدَاءٍ قَدْ أَذَّنَ، وَمَنْ أَذَّنَ فَهُوَ يُقِيمُ".
زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ نے مجھے اذان کا حکم دیا، میں نے اذان دی، (پھر جب نماز کا وقت ہوا) تو بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہنی چاہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صداء کے بھائی (زیاد بن حارث صدائی) نے اذان دی ہے اور جو شخص اذان دے وہی اقامت کہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 30 (514)، سنن الترمذی/الصلاة 32 (199)، (تحفة الأشراف: 3653)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/169) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں عبد الرحمن بن زیاد بن انعم الافریقی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 0 337)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (514(ترمذي (199)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 404

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 717 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث717  
اردو حاشہ:
فائدہ:
یہ روایت سنداً ضعیف ہے اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ مؤذن ہی تکبیر کہے تاہم ہماری مساجد کی بالعموم جو صورت حال ہے اس کے پیش نظر مصلحت کا تقاضہ یہی ہے کہ مؤذن ہی کو تکبیر کہنے کا پابند کیا جائےتاکہ انتشارکا دروازہ نہ کھلے۔
چونکہ دیکھنے میں یہ آیا ہےکہ نمازی اکثر شوق تکبیر میں ایک دوسرے سے الجھتے ہیں جو بعض دفعہ نزاع وجدال کی صورت اختیار کرلیتا ہے بناء بریں انتظامی مصلحت کے تحت مؤذن ہی کو تکبیر کا پابند بنا دینا نہایت مناسب بات ہے گو شرعاً یہ ضروری نہیں ہے۔
  
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 717   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 514  
´ایک شخص اذان دے اور دوسرا اقامت (تکبیر) کہے یہ جائز ہے۔`
زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب صبح کی پہلی اذان کا وقت ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (اذان دینے کا) حکم دیا تو میں نے اذان کہی، پھر میں کہنے لگا: اللہ کے رسول! اقامت کہوں؟ تو آپ مشرق کی طرف فجر کی روشنی دیکھنے لگے اور فرما رہے تھے: ابھی نہیں (جب تک طلوع فجر نہ ہو جائے)، یہاں تک کہ جب فجر طلوع ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور وضو کیا، پھر میری طرف واپس پلٹے اور صحابہ کرام اکھٹا ہو گئے، تو بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: صدائی نے اذان دی ہے اور جس نے اذان دی ہے وہی تکبیر کہے۔‏‏‏‏ زیاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں نے تکبیر کہی۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 514]
514۔ اردو حاشیہ:
اس باب کی مذکورہ تینوں روایتیں ضعیف ہیں۔ اس لئے ان سے کسی مسئلے کا اثبات نہیں ہوتا۔ لیکن بعض شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ موذن ہی اقامت کہے تو مناسب ہے تاہم اگر دوسرا اقامت کہے تو کوئی حرج نہیں۔ [عون المعبود۔ نيل الأوطار]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 514   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 199  
´جو اذان دے وہی اقامت کہے۔`
زیاد بن حارث صدائی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فجر کی اذان دینے کا حکم دیا تو میں نے اذان دی، پھر بلال رضی الله عنہ نے اقامت کہنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبیلہ صداء کے ایک شخص نے اذان دی ہے اور جس نے اذان دی ہے وہی اقامت کہے گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 199]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث ضعیف ہے،
اس لیے اس کی بنا پر مساجد میں جھگڑے مناسب نہیں،
اگر صحیح بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ مستحب کہہ سکتے ہیں،
اور مستحب کے لیے مسلمانوں میں جھگڑے زیبا نہیں۔

نوٹ:

(سند میں عبدالرحمن بن انعم افریقی ضعیف ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 199