كتاب الأذان والسنة فيه کتاب: اذان کے احکام و مسائل اورسنن 4. بَابُ: مَا يُقَالُ إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ باب: مؤذن کی اذان کے جواب میں کیا کہا جائے؟
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مؤذن اذان دے تو تم بھی انہیں کلمات کو دہراؤ“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13184، ومصباح الزجاجة: 266)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة40 (208 تعلیقاً) سنن النسائی/الیوم وللیلة (33) (صحیح)» (سند میں عباد بن اسحاق ہیں، جو عبد الرحمن بن اسحاق المدنی ہیں، ان کی حدیث کو نسائی نے خطاء کہا ہے، اور مالک وغیرہ کی زہری سے روایت جسے انہوں نے عطاء بن یزید سے اور عطار نے ابو سعید الخدری سے مرفوعاً روایت کی ہے، اس کو خواب بتایا، اور یہ آگے کی حدیث (720) نمبر کی ہے لیکن اصل حدیث صحیح ہے، ابن خزیمہ اور بوصیری نے حدیث کی تصحیح کی ہے، نیز ملاحظہ ہو: صحیح ابن خزیمہ: 412)
وضاحت: ۱؎: البتہ کوئی عذر ہو یا ضرورت ہو تو دوسرا شخص تکبیر کہہ سکتا ہے، بلا ضرورت ایسا کرنا کہ اذان کوئی دے اور اقامت کوئی کہے مکروہ ہے، یہ امام شافعی کا قول ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کی باری کے دن و رات ان کے پاس ہوتے، اور مؤذن کی آواز سنتے تو انہی کلمات کو دہراتے جو مؤذن کہتا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15853، ومصباح الزجاجة: 267)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/425) (ضعیف)» (سند میں ہشیم مدلس ہیں، اور عبید اللہ بن عتبہ کے بارے میں ذہبی نے کہا: «لایکاد یعرف» پہنچانے نہیں جاتے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم مؤذن کی اذان سنو تو اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 7 (611)، صحیح مسلم/الصلاة 7 (383)، سنن ابی داود/الصلاة 36 (522)، سنن الترمذی/الصلاة 40 (208)، سنن النسائی/الاذان 33 (674)، (تحفة الأشراف: 4150)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة 1 (2)، مسند احمد (3/6، 53، 78)، سنن الدارمی/الصلاة 10 (1237) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ان تمام احادیث سے صاف طور پر ثابت ہے کہ اذان کے وقت سننے والوں کو سوائے اذان کے کلمات دہرانے کے کچھ نہ کہنا چاہئے انگوٹھے چومنا یا «قر عيني بك يا رسول الله» کہنا ان احادیث کی کھلی ہوئی خلاف ورزی ہے، نیز اس حکم سے «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» کے کلمات مستثنیٰ ہیں، سننے والا اس کے جواب میں «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہے گا، جیسا کہ نسائی کی (حدیث رقم: ۶۷۸) میں وارد ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے مؤذن کی اذان سن کر یہ دعا پڑھی: «وأنا أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، وہ تن تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے راضی ہوں“ تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 7 (386)، سنن ابی داود/الصلاة 36 (525)، سنن الترمذی/الصلاة 42 (210)، سنن النسائی/الأذان 38 (680)، (تحفة الأشراف: 3877)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/181) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی صغیرہ گناہ اور کیا عجب ہے کہ اللہ جل جلالہ کبائر بخش دے، کیونکہ وہ أرحم الراحمین ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی: «اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته» ”اے اللہ! اس مکمل پکار اور قائم ہونے والی نماز کے مالک، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ ۱؎ اور فضیلت ۲؎ عطا فرما، آپ کو اس مقام محمود ۳؎ تک پہنچا جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے“ تو اس کے لیے قیامت کے دن شفاعت حلال ہو گئی ۴؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 8 (614)، تفسیر الإسراء 11 (4719)، سنن ابی داود/الصلاة 38 (529)، سنن الترمذی/الصلاة 43 (211)، سنن النسائی/الأذان 38 (681)، (تحفة الأشراف: 3046)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/354) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اذان سن کر نبی اکرم ﷺ پر صلاۃ و سلام (درود) پڑھنا، اور پھر یہ دعا پڑھنا جیسا کہ صحیح روایات میں وارد ہے باعث اجر و ثواب ہے، اس کے برخلاف اذان سے پہلے اور بعد میں جو کلمات ایجاد کر لئے گئے ہیں، رسول اکرم ﷺ کی صریح مخالفت ہے، جو شفاعت رسول سے محرومی کا باعث ہو سکتی ہے، «أعاذنا الله منها» ۔ ۲؎: «وسیلہ» کے معنی قرب کے اور اس طریقے کے ہیں جس سے انسان اپنے مقصود تک پہنچ جاتا ہو، یہاں مراد جنت کا وہ درجہ ہے جو نبی اکرم ﷺ کو عطا کیا جائے گا۔ ۳؎: «فضیلۃ»: یہ بھی ایک اعلیٰ مرتبہ ہے، جو نبی اکرم ﷺ کو خصوصیت کے ساتھ تمام مخلوقات پر حاصل ہو گا نیز یہ بھی احتمال ہے کہ یہ «وسیلہ» کی تفسیر ہو۔ ۴؎: «مقام محمود»: یہ وہ مقام ہے، جو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نبی کریم ﷺ کو عطا فرمائے گا، اور اس جگہ آپ شفاعت عظمیٰ فرمائیں گے، جس کے بعد لوگوں کا حساب و کتاب ہوگا۔ «الذی وعدتہ»: یہ وعدہ آیت کریمہ «عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا» «عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا» (سورة الإسراء: 79) میں کیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|