كِتَاب الْأَقْضِيَةِ کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل 13. باب فِي الشَّهَادَاتِ باب: گواہیوں کا بیان۔
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں سب سے بہتر گواہ نہ بتاؤں؟ جو اپنی گواہی لے کر حاضر ہو“ یا فرمایا: ”اپنی گواہی پیش کرے قبل اس کے کہ اس سے پوچھا جائے ۱؎“۔ عبداللہ بن ابی بکر نے شک ظاہر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «الذي يأتي بشهادته» فرمایا، یا «يخبر بشهادته» کے الفاظ فرمائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مالک کہتے ہیں: ایسا گواہ مراد ہے جو اپنی شہادت پیش کر دے اور اسے یہ علم نہ ہو کہ کس کے حق میں مفید ہے اور کس کے حق میں غیر مفید۔ ہمدانی کی روایت میں ہے: اسے بادشاہ کے پاس لے جائے، اور ابن السرح کی روایت میں ہے: اسے امام کے پاس لائے۔ لفظ «اخبار» ہمدانی کی روایت میں ہے۔ ابن سرح نے اپنی روایت میں صرف «ابن ابی عمرۃ» کہا ہے، عبدالرحمٰن نہیں کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأقضیة 9 (1719)، سنن الترمذی/الشھادات 1 (2296)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 28 (2364)، (تحفة الأشراف: 3754)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 2(3) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی حقوق اللہ جیسے طلاق، عتق (غلام کی آزادی) اور وقف وغیرہ میں، یا جب مدعی سچا اور برحق ہو اور اسے گواہ نہ ملتا ہو اور کسی شخص کو اس کے حق کا حال معلوم ہو تو وہ شخص خود بخود جا کر حاکم اور قاضی کے پاس گواہی دے تاکہ صاحب معاملہ کی حق تلفی نہ ہو، اس قسم کی گواہی باعث اجر و ثواب ہے، زیر نظر حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ ایک قوم ایسی پیدا ہو گی جو پوچھے جانے سے پہلے گواہی دے گی کیونکہ اس سے مراد جھوٹی گواہی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|