تفرح أبواب الصفوف ابواب: صف بندی کے احکام ومسائل 96. باب تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ باب: صفوں کو درست اور برابر کرنے کا بیان۔
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اس طرح صف بندی کیوں نہیں کرتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے پاس کرتے ہیں؟“، ہم نے عرض کیا: فرشتے اپنے رب کے پاس کس طرح صف بندی کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے اگلی صف پوری کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے سے خوب مل کر (جڑ کر) کھڑے ہوتے ہیں“ (ان کے مابین کوئی خلا نہیں رہتا)۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 27 (430)، سنن النسائی/الإمامة 28 (817)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 50 (992)، (تحفة الأشراف: 2127)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/101، 106) (صحیح)»
وضاحت: صف میں جڑ کر کھڑے ہونے سے صف سیدھی ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ صالحین کا عمل اختیار کرنا شرعاً مطلوب ہے اور مسلمان کو ہمیشہ ان سے مشابہت کا حریص رہنا چاہیے۔ پہلے پہلی صف مکمل ہونی چاہیے تب دوسری بنائی جائے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوالقاسم جدلی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف اپنا رخ کیا اور فرمایا ”اپنی صفیں برابر کر لو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا۔“ قسم اللہ کی! (ضرور ایسا ہو گا کہ) یا تو تم اپنی صفوں کو برابر رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت پیدا کر دے گا۔“ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ، اپنے گھٹنے کو اپنے ساتھی کے گھٹنے کے ساتھ اور اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ ملا کر اور جوڑ کر کھڑا ہوتا تھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11616) (صحیح)»
وضاحت: اس حدیث میں صحابی رسول نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر تعمیل کی وضاحت کر دی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صفوں میں خوب جڑ کر کھڑے ہوتے تھے، حتی کہ کوئی خلا باقی رہتا نہ کوئی ٹیڑھ۔ شرعی تعلیمات سے اعراض کا نتیجہ آپس کی پھوٹ اور نفرت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جیسے کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں «اعاذنا اللہ منہ» ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دل کا معاملہ ظاہری اعضاء و اعمال کے ساتھ بھی ہے۔ اگر ظاہری اعمال صحیح ہوں تو دل بھی صحیح رہتا ہے اور اس کے برعکس بھی آیا ہے کہ اگر دل صحیح ہو تو باقی جسم صحیح رہتا ہے۔ امام کو چاہیے کہ اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے نمازیوں کو تکبیر تحریمہ سے پہلے تاکید کرے کہ آپس میں مل کر کھڑے ہوں۔ بلکہ عملاً صفیں سیدھی کرائے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح ق بجملة الأمر بتسوية الصفوف وجملة المنكب بالمنكب عقله خ عن أنس
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفیں درست کیا کرتے تھے، جیسے تیر درست کیے جاتے ہیں (اور یہ سلسلہ برابر جاری رہا) یہاں تک کہ آپ کو یقین ہو گیا کہ ہم نے اسے آپ سے خوب اچھی طرح سیکھ اور سمجھ لیا ہے، تو ایک روز آپ متوجہ ہوئے، اتنے میں دیکھا کہ ایک شخص اپنا سینہ صف سے آگے نکالے ہوئے ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اپنی صفیں برابر رکھو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اختلاف پیدا کر دے گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 28 (436)، سنن الترمذی/الصلاة 55 (227)، سنن النسائی/الإمامة 25 (811)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 50 (992)، (تحفة الأشراف: 11620)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/270، 271، 272، 276، 277) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کے اندر ایک طرف سے دوسری طرف جاتے اور ہمارے سینوں اور مونڈھوں پر ہاتھ پھیرتے تھے (یعنی ہمارے سینوں اور مونڈھوں کو برابر کرتے تھے)، اور فرماتے تھے: ”(صفوں سے) آگے پیچھے مت ہونا، ورنہ تمہارے دل مختلف ہو جائیں گے“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ تعالیٰ اگلی صفوں پر اپنی رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے ان کے دعائیں کرتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الأذان 14 (647)، والإمامة 25 (812)، (تحفة الأشراف: 1776)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 51 (993)، مسند احمد (4/284، 285، 297، 298، 299، 304)، دی/الصلاة 49(1299) (صحیح)»
وضاحت: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملاً صفوں کو برابر کرانا اس کے انتہائی تاکیدی عمل ہونے کی دلیل ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفیں درست فرماتے، پھر جب ہم لوگ سیدھے ہو جاتے تو آپ «الله أكبر» کہتے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 663، (تحفة الأشراف: 11620) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ (قتیبہ کی روایت میں جسے انہوں نے ابوزاہریہ سے، اور ابوزاہریہ نے ابوشجرہ (کثیر بن مرہ) سے روایت کیا ہے، ابن عمر کا ذکر نہیں ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اپنی صفیں درست کرو، اور اپنے کندھے ایک دوسرے کے مقابل میں رکھو، اور (صفوں کے اندر کا) شگاف بند کرو، اور اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑو، جو شخص صف کو ملائے گا، اللہ تعالیٰ اسے ملائے گا، اور جو شخص صف کو کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے کاٹ دے گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «لينوا بأيدي إخوانكم» کا مطلب ہے کہ جب کوئی شخص صف کی طرف آئے اور اس میں داخل ہونا چاہے تو ہر ایک کو چاہیئے کہ اس کے لیے اپنے کندھے نرم کر دے یہاں تک کہ وہ صف میں داخل ہو جائے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الإمامة 31 (820)، (تحفة الأشراف: 7380، 19235)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/97) (صحیح)»
وضاحت: ”جس نے صف کو ملایا“۔ یعنی جو نماز کی صف میں حاضر ہوا، اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر کھڑا ہوا، اس میں کوئی خلا یا کجی پیدا نہ کی تو اس کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے کہ اللہ اس کو اپنی رحمت خاص سے ملائے، اور جس نے صف کو کاٹا یعنی مذکورہ امور کے برعکس کیا تو اللہ اس کو اپنی رحمت سے محرم رکھے۔ ”بھائیوں کے لیے نرم ہونے“ کے معنی یہ ہیں کہ صفیں درست کرنے والے ساتھیوں کے ساتھ خوش دلی سے تعاون کیا جائے۔ آگے پیچھے ہونے کے معاملے میں وہ جو کہیں مان لیا جائے اور ناراض نہ ہوا جائے، نیز یہ معنی بھی ہیں کہ اگر صف میں جگہ ممکن ہو تو دوسرے ساتھی کو جگہ دی جائے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہو، اور ایک صف دوسری صف سے نزدیک رکھو، اور گردنوں کو بھی ایک دوسرے کے مقابل میں رکھو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں شیطان کو دیکھتا ہوں وہ صفوں کے بیچ میں سے گھس آتا ہے، گویا وہ بکری کا بچہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الإمامة 28 (816)، (تحفة الأشراف: 1132)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/260، 283) (صحیح)»
وضاحت: شیطان مومنین مخلصین پر ہر آن اور ہر مقام پر حملے کے لیے گھات میں رہتا ہے جب وہ نماز کی صفوں سے گھس آتا ہے تو مسجد سے باہر اور عام حالات میں اس کا حملہ اور سخت ہوتا ہو گا لہذا ہر مسلمان کو اپنے دفاع سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہیے اور اس کی واحد صورت شریعت کا علم حاصل کرنا اور پھر تمام چھوٹے بڑے امور پر بلا تخصیص عمل پیرا ہوا ہے۔ «وباللہ التوفیق» قال الشيخ الألباني: صحيح
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اپنی صفیں درست رکھو کیونکہ صف کی درستگی تکمیل نماز میں سے ہے (یعنی اس کے بغیر نماز ادھوری رہتی ہے)“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 74 (723)، صحیح مسلم/الصلاة 28 (433)، سنن ابن ماجہ/اقامة الصلاة 50 (993)، (تحفة الأشراف: 1243)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الإمامة 27 (812)، مسند احمد (3/177، 179، 254، 274، 279، 291)، سنن الدارمی/ الصلاة 48 (1298) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
صاحب مقصورہ محمد بن مسلم بن سائب کہتے ہیں کہ میں نے ایک روز انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بغل میں نماز پڑھی، تو انہوں نے کہا: کیا تم کو معلوم ہے کہ یہ لکڑی کیوں بنائی گئی ہے، میں نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اس کا علم نہیں، انس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اپنا ہاتھ رکھتے تھے، اور فرماتے تھے: ”برابر ہو جاؤ، اور اپنی صفیں سیدھی رکھو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1474)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/254) (ضعیف)» (مصعب اور محمد بن مسلم دونوں ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
اس سند سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس لکڑی کو اپنے داہنے ہاتھ سے پکڑتے، پھر (نمازیوں کی طرف) متوجہ ہوتے، اور فرماتے: ”سیدھے ہو جاؤ، اپنی صفیں درست کر لو“، پھر اسے بائیں ہاتھ سے پکڑتے اور فرماتے: ”سیدھے ہو جاؤ اور اپنی صفیں درست کر لو“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 1474) (ضعیف)» (اس سے پہلی والی حدیث ملاحظہ فرمائیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے اگلی صف پوری کرو، پھر اس کے بعد والی کو، اور جو کچھ کمی رہ جائے وہ پچھلی صف میں رہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الإمامة 30 (819)، (تحفة الأشراف: 1195)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/132، 215، 233) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو نماز میں اپنے مونڈھوں کو نرم رکھنے والے ہیں ۱؎“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جعفر بن یحییٰ کا تعلق اہل مکہ سے ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابو داود، (تحفة الأشراف: 5936) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی صفیں درست کرنے کے لئے مصلیوں کو اگر کوئی آگے بڑھاتا ہے تو آگے بڑھ جاتے ہیں، اور پیچھے ہٹاتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں، یا نماز میں سکون و اطمینان کا پورا خیال کرتے ہیں، ادھر ادھر نہیں دیکھتے، اور نہ کندھے سے کندھا رگڑتے ہیں، بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ بیان کیاہے کہ صفوں کے درمیان شگاف کو بند کرنے کے لئے یا جگہ کی تنگی کی وجہ سے صف کے بیچ میں آ کر کوئی داخل ہونا چاہتا ہے تو اسے داخل ہو جانے دیتے ہیں اس سے مزاحمت نہیں کرتے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|