تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب تسوية الصفوف، حديث:667، والنسائي، الإمامة، حديث:815، وابن حبان (الإحسان): 3 /298، حديث:2163، وابن خزيمة، حديث:1545.»
تشریح:
اسلام میں صف بندی اور شیرازہ بندی کی بڑی تاکید اور اہمیت ہے۔
اس کی تربیت و ٹریننگ اسلام کے اہم ترین بنیادی رکن‘ نماز میں صف بندی کے ذریعے سے دی گئی ہے۔
جہاد میں بُنْـیَانٌ مَرْصُوص کی جتنی ضرورت و اہمیت ہے اس کے بیان کرنے کی اس مقام پر چنداں ضرورت نہیں‘ اشارہ ہی کافی ہے۔
صف بندی میں اگر رخنہ پڑ جائے یا صفوں میں خلل واقع ہو جائے تو باہمی ربط و ضبط اور محبت میں بھی خلل پڑ تا ہے۔
اسلام دلوں کو جوڑنا اور باہمی تعلقات کو استوار کرنا‘ اسلامی برادری میں مساوات کے ذریعے سے ایک ہی صف میں محمود و ایاز کو کھڑا کرنا اور شیطانی دخل اندازی سے اسے بچانا اور محفوظ رکھنا چاہتا ہے‘ چنانچہ صحیحین میں روایت ہے کہ نماز کھڑی ہونے کے موقع پر نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازیوں کی طرف رخ موڑ کر فرمایا:
”اپنی صفوں کو سیدھا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمھارے دلوں میں کجی و ٹیڑھ اور مخالفت ڈال دے گا۔
“ راوی کا بیان ہے کہ پھر میں نے نمازیوں کو دیکھا کہ جماعت میں ایک آدمی اپنا کندھا دوسرے کے کندھے سے‘ اپنے ٹخنے کو اس کے ٹخنے کے ساتھ اور اپنے گھٹنے کو اس کے گھٹنے کے ساتھ ملا کر کھڑا ہوتا تھا۔
دیکھیے:
(سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب تسویۃ الصفوف‘ حدیث:۶۶۲) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر فرمایا:
”قسم ہے مجھے اس ذات اقدس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں دیکھتا ہوں کہ شیطان صفوں کے درمیان بکری کے بچے کی صورت میں گھس جاتا ہے۔
“ (سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب تسویۃ الصفوف‘حدیث:۶۶۷) یعنی وہ نمازیوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے‘ خشوع و خضوع سے بیگانہ کر دیتا ہے اور توجہ الی اللہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔
نماز میں صفوں کی درستی کے بارے میں اور بھی بہت سی احادیث منقول ہیں۔
الغرض نماز باجماعت کی صورت میں صف بندی کی بہت تاکید ہے۔
مل کر کھڑا ہونا چاہیے اور درمیان میں قطعاً جگہ نہیں چھوڑنی چاہیے۔