اخبرنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا جرير ، عن منصور ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، قال: كنا عند عبد الله جلوسا وهو مضطجع بيننا، فاتاه رجل، فقال يا ابا عبد الرحمن: إن قاصا عند ابواب كندة يقص ويزعم ان آية الدخان تجيء، فتاخذ بانفاس الكفار وياخذ المؤمنين منه كهيئة الزكام، فقال عبد الله : وجلس وهو غضبان: يا ايها الناس اتقوا الله من علم منكم شيئا، فليقل بما يعلم، ومن لم يعلم، فليقل: الله اعلم، فإنه اعلم لاحدكم، ان يقول: لما لا يعلم الله اعلم، فإن الله عز وجل، قال لنبيه صلى الله عليه وسلم: قل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين سورة ص آية 86 إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما راى من الناس إدبارا، فقال: " اللهم سبع كسبع يوسف "، قال: فاخذتهم سنة حصت كل شيء حتى اكلوا الجلود والميتة من الجوع، وينظر إلى السماء احدهم، فيرى كهيئة الدخان، فاتاه ابو سفيان، فقال يا محمد: إنك جئت تامر بطاعة الله وبصلة الرحم، وإن قومك قد هلكوا فادع الله لهم، قال الله عز وجل: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين {10} يغشى الناس هذا عذاب اليم {11} سورة الدخان آية 10-11 إلى قوله إنكم عائدون سورة الدخان آية 15 قال افيكشف عذاب الآخرة يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون سورة الدخان آية 16 فالبطشة يوم بدر، وقد مضت آية الدخان والبطشة واللزام وآية الروم ".أخبرنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ جُلُوسًا وَهُوَ مُضْطَجِعٌ بَيْنَنَا، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: إِنَّ قَاصًّا عِنْدَ أَبْوَابِ كِنْدَةَ يَقُصُّ وَيَزْعُمُ أَنَّ آيَةَ الدُّخَانِ تَجِيءُ، فَتَأْخُذُ بِأَنْفَاسِ الْكُفَّارِ وَيَأْخُذُ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : وَجَلَسَ وَهُوَ غَضْبَانُ: يَا أَيَّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّهَ مَنْ عَلِمَ مِنْكُمْ شَيْئًا، فَلْيَقُلْ بِمَا يَعْلَمُ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ، فَلْيَقُلْ: اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّهُ أَعْلَمُ لِأَحَدِكُمْ، أَنْ يَقُولَ: لِمَا لَا يَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86 إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى مِنَ النَّاسِ إِدْبَارًا، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ سَبْعٌ كَسَبْعِ يُوسُفَ "، قَالَ: فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ مِنَ الْجُوعِ، وَيَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ أَحَدُهُمْ، فَيَرَى كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ، فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ: إِنَّكَ جِئْتَ تَأْمُرُ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَبِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ {10} يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ {11} سورة الدخان آية 10-11 إِلَى قَوْلِهِ إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 15 قَالَ أَفَيُكْشَفُ عَذَابُ الْآخِرَةِ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 16 فَالْبَطْشَةُ يَوْمَ بَدْرٍ، وَقَدْ مَضَتْ آيَةُ الدُّخَانِ وَالْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَآيَةُ الرُّومِ ".
منصور نے ابو ضحیٰ (مسلم بن صحیح) سے، انھوں نے مسروق سے روایت کی، کہا: ہم حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمارے درمیان (اپنے بستر یا بچھونے پر) لیٹے ہوئے تھے تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا: ابو عبدالرحمان!ابواب کندہ (کوفہ کا ایک محلہ) میں ایک قصہ گو (واعظ) آیا ہوا ہے، وہ وعظ کررہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ دھوئیں والی (اللہ کی) نشانی آئے گی اور (یہ د ھواں) کافروں کی روحیں قبض کرلے گا اور مومنوں کو یہ زکام جیسی کیفیت سے دو چار کرے گا۔حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے کہا اور وہ غصے کے عالم میں اٹھ کر بیٹھ گئے، لوگو! اللہ سے ڈرو، تم میں سے جو شخص کوئی چیز جانتا ہو، وہ اتنی ہی بیان کرے جتنی جانتاہو اور جو نہیں جانتا، وہ کہے: اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔بے شک وہ (اللہ تعالیٰ) تم میں سے اس کو (بھی) زیادہ جاننے والاہے۔جو اس بات کے بارے میں جو وہ نہیں جانتا، یہ کہتا ہے: اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔اللہ عزوجل نے ا پنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا؛"کہہ دیجئے: میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ ہی بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کی دین سے روگردانی دیکھی تو آپ نے (دعا کرتے ہوئے) فرمایا: "اے اللہ! (ان پر) یوسف علیہ السلام کےسات سالوں جیسے سات سال (بھیج دے۔) " (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو انھیں (قحط کے) ایک سال نے آلیا جس نے ہر چیز کاصفایاکرایا، یہاں تک کہ ان (مشرک) لوگوں نے بھوک سے چمڑے اور مردار تک کھائے۔ان میں سے کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے دھوئیں کے جیسی ایک چیز چھائی ہوئی نظر آتی۔چنانچہ ابو سفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ آئے ہیں، اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں، آپ کی قوم (قحط اور بھوک سے) ہلاک ہورہی ہے۔ان کےلیے اللہ سے دعا کریں۔اللہ عزوجل نے فرمایا: " آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان ایک نظر آنے والے دھوئیں کو لے آئے گا۔ (اور وہ) لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔یہ دردناک عذاب ہوگا، سے لے کر اس کے فرمان: "نے شک تم (کفر میں) لوٹ جانے والے ہوگئے"تک۔ (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: کیا آخرت کا عذاب ہٹایا جائے گا؟"جس دن ہم تم پر بڑی گرفت کریں گے (اس دن) ہم انتقام لینے والے ہوں گے۔"وہ گرفت بدر کے دن تھی۔اب تک دھوئیں کی نشانی گرفت اور چمٹ جانےوالا عذاب (بدر میں شکست فاش اور قتل) اور روم (کی فتح) کی نشانی (سب) آکر گذر چکی ہیں۔
امام مسروق بیان کرتے ہیں،ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمارے درمیان(اپنے بستر یا بچھونے پر) لیٹے ہوئے تھے تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا:ابو عبدالرحمان!ابواب کندہ(کوفہ کا ایک محلہ) میں ایک قصہ گو(واعظ) آیا ہوا ہے،وہ وعظ کررہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ دھوئیں والی(اللہ کی)نشانی آئے گی اور(یہ د ھواں) کافروں کی روحیں قبض کرلے گا اور مومنوں کو یہ زکام جیسی کیفیت سے دو چار کرے گا۔حضرت عبداللہ(بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا اور وہ غصے کے عالم میں اٹھ کر بیٹھ گئے،لوگو! اللہ سے ڈرو،تم میں سے جو شخص کوئی چیز جانتا ہو،وہ اتنی ہی بیان کرے جتنی جانتاہو اور جو نہیں جانتا،وہ کہے:اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔بے شک وہ(اللہ تعالیٰ) تم میں سے اس کو(بھی) زیادہ جاننے والاہے۔جو اس بات کے بارے میں جو وہ نہیں جانتا،یہ کہتا ہے:اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔اللہ عزوجل نے ا پنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا؛"کہہ دیجئے:میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ ہی بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں۔"(سورہ ص:86) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کی دین سے روگردانی دیکھی تو آپ نے (دعا کرتے ہوئے) فرمایا:"اے اللہ!(ان پر) یوسف ؑ کےسات سالوں جیسے سات سال(بھیج دے۔)"(عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا:تو انھیں (قحط کے) ایک سال نے آلیا جس نے ہر چیز کاصفایاکرایا،یہاں تک کہ ان(مشرک)لوگوں نے بھوک سے چمڑے اور مردار تک کھائے۔ان میں سے کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے دھوئیں کے جیسی ایک چیز چھائی ہوئی نظر آتی۔چنانچہ ابو سفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا:اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ آئے ہیں،اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں،آپ کی قوم(قحط اور بھوک سے) ہلاک ہورہی ہے۔ان کےلیے اللہ سے دعا کریں۔اللہ عزوجل نے فرمایا:" آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان ایک نظر آنے والے دھوئیں کو لے آئے گا۔جولوگوں پر چھا جائے گا،جوالمناک عذاب ہوگا،(کہیں گے) اے ہمارے رب!ہم سے اس عذاب کو دور کر دے،ہم ایمان لے آئیں گے،اس وقت انھیں نصیحت کہاں کارگرہوگی،حالانکہ ان کے پاس رسول مبین(کھول کر بیان کرنے والا)آچکا ہے،پھر انہوں نے اس سے منہ موڑا اور کہنے لگے،یہ تو سکھایا پڑھایا دیوانہ ہے۔"ہم تھوڑی دیر عذاب ہٹادیں گے،مگر تم پھر وہی کروگے جوپہلے کرتے رہے۔"(دخان آیت نمبر۔10تا 15)حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا،کیا آخرت کا عذاب ہٹادیا جائےگا؟جس دن ہم سخت گرفت کریں گے،پھر انتقام لے کر رہیں گے۔"(آیت نمبر 16)۔سو پکڑے سے مراد،بدر کادن ہے،دھوئیں والی نشانی گزرچکی ہے،اس طرح پکڑ،لزام(قتل وقید) وروم کی فتح گزرچکی ہے۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7066
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک سورۂدخان میں، جس دھوئیں کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس سے مراد وہ خیالی اور تصوراتی دھواں ہے، جو قریش مکہ کو بھوک کی وجہ سے نظر آتا تھا، حالانکہ قرآن میں جس دھوئیں کا تذکرہ ہے، وہ حقیقی اور صریح دھواں ہے، جو سب لوگوں کو نظر آئے گا، اس لیے حافظ ابن کثیر رحمہُ اللہُ نے اس سے قیامت والا دھواں ہی مراد لیا ہے، حضرت ابن عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول بھی یہی ہے اور آگے حضرت حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت آرہی ہے، وہ بھی اس کے مؤید ہے اور بعض ضعیف احادیث میں، یہی بات مختلف صحابہ سے منقول ہے، اسی طرح بطشۂ کبریٰ سے مراد، حضرت ابن مسعود کے نزدیک بدر کا دن ہے، جبکہ دوسری تفسیر کے مطابق قیامت کی پکڑ مراد ہے اور حافظ ابن کثیر نے، حضرت عبداللہ بن مسعود کے اس اعتراض کہ کیا قیامت کا عذاب کچھ وقت کے لیے ہٹایا جائے گا، کایہ جواب دیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے، گر ہم تم سے عذاب ہٹا دیں اور تمہیں پھر دنیا میں لوٹا دیں تو تم پھر بھی وہی کفر کرو گے، جو پہلے کرتے تھے، كاشف العذاب سے مراد یہ ہے کہ اگرچہ عذاب آنے کے اسباب مکمل ہو چکے ہیں اور عذاب تمہارے قریب آچکاہے، مگر کچھ روز کے لیے ہم اسے مؤخر کردیتےہیں، جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم پر عذاب آیا نہیں تھا، صرف عذاب کے آثار نظر آئے تھے، لیکن قرآن میں اس کو كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ (ہم نے ان سے عذاب ہٹا دیا) سے تعبیر کیا ہے۔