Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
کتاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ
قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور
52. باب إِسْلاَمِ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ:
باب: عمرو بن عبسہ کا اسلام قبول کرنا۔
حدیث نمبر: 1930
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو عَمَّارٍ ، ويَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ عِكْرِمَةُ : وَلَقِيَ شَدَّادٌ، أَبَا أُمَامَةَ، ووَاثِلَةَ، وَصَحِبَ أَنَسًا إِلَى الشَّامِ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ فَضْلًا وَخَيْرًا، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ: قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ السُّلَمِيُّ : كُنْتُ وَأَنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَظُنُّ أَنَّ النَّاسَ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَأَنَّهُمْ لَيْسُوا عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَعْبُدُونَ الْأَوْثَانَ، فَسَمِعْتُ بِرَجُلٍ بِمَكَّةَ يُخْبِرُ أَخْبَارًا، فَقَعَدْتُ عَلَى رَاحِلَتِي فَقَدِمْتُ عَلَيْهِ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَخْفِيًا جُرَآءُ عَلَيْهِ قَوْمُهُ، فَتَلَطَّفْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ بِمَكَّةَ، فَقُلْتُ لَهُ: مَا أَنْتَ، قَالَ: " أَنَا نَبِيٌّ "، فَقُلْتُ: وَمَا نَبِيٌّ؟ قَالَ: " أَرْسَلَنِي اللَّهُ "، فَقُلْتُ: وَبِأَيِّ شَيْءٍ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ: " أَرْسَلَنِي بِصِلَةِ الْأَرْحَامِ، وَكَسْرِ الْأَوْثَانِ، وَأَنْ يُوَحَّدَ اللَّهُ لَا يُشْرَكُ بِهِ شَيْءٌ "، قُلْتُ لَهُ: فَمَنْ مَعَكَ عَلَى هَذَا؟ قَالَ: " حُرٌّ وَعَبْدٌ "، قَالَ: " وَمَعَهُ يَوْمَئِذٍ أَبُو بَكْرٍ، وَبِلَالٌ مِمَّنْ آمَنَ بِهِ "، فَقُلْتُ: إِنِّي مُتَّبِعُكَ، قَالَ: " إِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ يَوْمَكَ هَذَا، أَلَا تَرَى حَالِي وَحَالَ النَّاسِ، وَلَكِنْ ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ، فَإِذَا سَمِعْتَ بِي قَدْ ظَهَرْتُ، فَأْتِنِي "، قَالَ: فَذَهَبْتُ إِلَى أَهْلِي، وَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَكُنْتُ فِي أَهْلِي، فَجَعَلْتُ أَتَخَبَّرُ الْأَخْبَارَ، وَأَسْأَلُ النَّاسَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ حَتَّى قَدِمَ عَلَيَّ نَفَرٌ مِنْ أَهْلِ يَثْرِبَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةَ، فَقُلْتُ: مَا فَعَلَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي قَدِمَ الْمَدِينَةَ؟ فَقَالُوا: النَّاسُ إِلَيْهِ سِرَاعٌ، وَقَدْ أَرَادَ قَوْمُهُ قَتْلَهُ فَلَمْ يَسْتَطِيعُوا ذَلِكَ، فَقَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَعْرِفُنِي؟ قَالَ: " نَعَمْ أَنْتَ الَّذِي لَقِيتَنِي بِمَكَّةَ "، قَالَ: فَقُلْتُ: بَلَى، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَخْبِرْنِي عَمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ وَأَجْهَلُهُ، أَخْبِرْنِي، عَنِ الصَّلَاةِ، قَالَ: " صَلِّ صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْصِرْ، عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، حَتَّى تَرْتَفِعَ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، ثُمَّ صَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ، حَتَّى يَسْتَقِلَّ الظِّلُّ بِالرُّمْحِ، ثُمَّ أَقْصِرْ، عَنِ الصَّلَاةِ فَإِنَّ حِينَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ، فَإِذَا أَقْبَلَ الْفَيْءُ فَصَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ، حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، ثُمَّ أَقْصِرْ، عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَالْوُضُوءَ حَدِّثْنِي عَنْهُ، قَالَ: " مَا مِنْكُمْ رَجُلٌ يُقَرِّبُ وَضُوءَهُ، فَيَتَمَضْمَضُ وَيَسْتَنْشِقُ فَيَنْتَثِرُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا وَجْهِهِ وَفِيهِ وَخَيَاشِيمِهِ، ثُمَّ إِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا وَجْهِهِ مِنْ أَطْرَافِ لِحْيَتِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ يَغْسِلُ يَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا يَدَيْهِ مِنْ أَنَامِلِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ يَمْسَحُ رَأْسَهُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا رَأْسِهِ مِنْ أَطْرَافِ شَعْرِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ يَغْسِلُ قَدَمَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا رِجْلَيْهِ مِنْ أَنَامِلِهِ مَعَ الْمَاءِ، فَإِنْ هُوَ قَامَ فَصَلَّى فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَمَجَّدَهُ بِالَّذِي هُوَ لَهُ أَهْلٌ، وَفَرَّغَ قَلْبَهُ لِلَّهِ إِلَّا انْصَرَفَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ". فَحَدَّثَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ، أَبَا أُمَامَةَ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو أُمَامَةَ: يَا عَمْرَو بْنَ عَبَسَةَ انْظُرْ مَا تَقُولُ فِي مَقَامٍ وَاحِدٍ يُعْطَى هَذَا الرَّجُلُ، فَقَالَ عَمْرٌو: يَا أَبَا أُمَامَةَ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي وَرَقَّ عَظْمِي وَاقْتَرَبَ أَجَلِي، وَمَا بِي حَاجَةٌ أَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ وَلَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا حَتَّى عَدَّ سَبْعَ مَرَّاتٍ مَا حَدَّثْتُ بِهِ أَبَدًا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ.
ابو عمار شداد بن عبداللہ اور یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو امامہ سے روایت کی۔۔۔عکرمہ نے کہا: شداد ابو امامہ اور واثلہ رضی اللہ عنہ سے مل چکا ہے، وہ شام کے سفر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہااور ان کی فضیلت اور خوبی کی تعریف کی۔حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: عمرو بن عبسہ سلمی رضی اللہ عنہ نےکہا: میں جب اپنے جاہلیت کے دور میں تھا تو (یہ بات) سمجھتا تھا کہ لوگ گمراہ ہیں اور جب وہ بتوں کی عبادت کرتے ہیں تو کسی (سچی) چیز (دین) پر نہیں، پھر میں نے مکہ کے ایک آدمی کے بارے میں سنا کہ وہ بہت سی باتوں کی خبر دیتا ہے، میں اپنی سواری پر بیٹھا اور ان کے پاس آگیا، اس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھپے ہوئے تھے، آپ کی قوم (کے لوگ) آپ کے خلاف دلیر، اور جری تھے۔میں ایک لطیف تدبیر اختیار کرکے مکہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ سے پوچھا آپ کیا ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نبی ہوں۔"پھر میں نے پوچھا: "نبی کیا ہوتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے اللہ نے بھیجا ہے۔"میں نے کہا: آپ کو کیا (پیغام) دے کر بھیجا ہے؟آپ نے فرمایا: " اللہ تعالیٰ مجھے صلہ رحمی، بتوں کو توڑنے، اللہ تعالیٰ کو ایک قرار دینے، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے (کاپیغام) دے کر بھیجا ہے۔"میں نے آپ سے پوچھا: آپ کے ساتھ اس (دین) پر اور کون ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ایک آزاد اور ایک غلام۔"۔۔۔کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت ایمان لانے والوں میں سے ابو بکر اور بلال رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے۔میں نے کہا: میں بھی آپ کا متبع ہوں۔فرمایا: " تم اپنے آج کل کے حالات میں ایسا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔کیا تم میرا اور لوگوں کا حال نہیں دیکھتے؟لیکن (ان حالات میں) تم اپنے گھر کی طرف لوٹ جاؤ اور جب میرے بارے میں سنو کہ میں غالب آگیا ہوں تو میرے پاس آجانا۔"کہا: تو میں اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ گیا۔اور (بعد ازاں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے میں اپنے گھر ہی میں تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے۔ تو میں بھی خبریں لینے اور لوگوں سے آپ کے حالات پوچھنے میں لگ گیا۔حتیٰ کہ میرے پاس اہل یثرب (مدینہ والوں) میں سے کچھ لوگ آئے تو میں نے پوچھا: یہ شخص جو مدینہ میں آیا ہے اس نے کیا کچھ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: لوگ تیزی سے ان (کے دین) کی طرف بڑھ رہے ہیں، آپ کی قوم نے آپ کو قتل کرنا چاہا تھا لیکن وہ ایسا نہ کرسکے۔اس پر میں مدینہ آیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟آپ نے فرمایا: " ہاں تم وہی ہو ناں جو مجھ سے مکہ میں ملے تھے؟" کہا: تو میں نے عرض کی: جی ہاں، اور پھر پوچھا: اے اللہ کے نبی! مجھے وہ (سب) بتایئے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے اور میں اس سے ناواقف ہوں، مجھے نماز کے بارے میں بتایئے۔آپ نے فرمایا: "صبح کی نماز پڑھو اور پھر نماز سے رک جاؤ حتیٰ کہ سورج نکل کر بلند ہو جائے کیونکہ وہ جب طلوع ہوتا ہے تو شیطان (اپنے سینگوں کو آگے کر کے یوں دیکھتا ہے جیسے وہ اُس) کے دو سینگوں کےدرمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس (سورج) کو سجدہ کرتے ہیں، اس کے بعد نماز پڑھو کیونکہ نماز کا مشاہدہ ہوتاہے اور اس میں (فرشتے) حاضر ہوتے ہیں یہاں تک کہ جب نیزے کا سایہ اس کے ساتھ لگ جائے (سورج بالکل سر پر آجائے) تو پھر نماز سے رک جاؤ کیونکہ اس وقت جہنم کو ایندھن سے بھر کر بھڑکایا جاتا ہے، پھر جب سایہ آ جائے (سورج ڈھل جائے) تو نماز پڑھو کیونکہ نماز کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور اس میں حاضری دی جاتی ہے حتیٰ کہ تم عصر سے فارغ ہو جاؤ، پھر نماز سے رک جاؤ یہاں تک کہ سورج (پوری طرح) غروب ہو جائے کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں میں غروب ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔"کہا: پھر میں نے پوچھا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تو وضو؟ مجھے اس کے بارے میں بھی بتایئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جو شخص بھی وضو کے لئے پانی اپنے قریب کرتاہے۔پھر کلی کرتاہے اور ناک میں پانی کھینچ کر اسے جھاڑتا ہے تو اس سے اس کے چہرے، منہ، اور ناک کے نتھنوں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں، پھر جب وہ اللہ کے حکم کےمطابق اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو لازماً اس کے چہرے کےگناہ بھی پانی کے ساتھ اس کی داڑھی کے کناروں سے گر جاتے ہیں، پھر وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں (کے اوپر) تک دھوتا ہے۔تو لازماً اس کے ہاتھوں کےگناہ پانی کے ساتھ اس کے پوروں سے گر جاتے ہیں، پھر وہ سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر کے گناہ پانی کے ساتھ اس کے بالوں کے اطراف سے زائل ہوجاتے ہیں، پھر وہ ٹخنوں (کے اوپر) تک اپنے دونوں قدم دھوتا ہے۔تو اس کے دونوں پاؤں کے گناہ پانی کے ساتھ اس کے پوروں سے گر جاتے ہیں، پھر اگر وہ کھڑا ہوانماز پڑھی اور اللہ کے شایان شان اس کی حمد وثنا اور بزرگی بیان کی اور اپنا دل اللہ کے لئے (ہر قسم کے دوسرے خیالات وتصورات سے) خالی کرلیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکلتا ہے جس طرح اس وقت تھا جس دن اس کی ماں نے اسے (ہر قسم کے گناہوں سے پاک) جنا تھا۔"حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (ایک اور) صحابی حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو سنائی تو ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے عمرو بن عبسہ ! دیکھ لو، تم کیا کہہ رہے ہو۔ ایک ہی جگہ اس آدمی کو اتنا کچھ عطا کر دیا جاتا ہے! اس پر عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابو امامہ! میری عمر بڑھ گئی ہے میری ہڈیاں نرم ہو گئیں ہیں اور میری موت کا وقت بھی قریب آ چکا ہے اور مجھے کوئی ضرورت نہیں کہ اللہ پر جھوٹ بولوں۔اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولوں۔ اگر میں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک، دو، تین۔۔۔ حتیٰ کہ انھوں نے سات بار شمار کیا۔۔۔ بار نہ سنا ہوتا تو میں اس حدیث کو کبھی بیان نہ کرتا بلکہ میں نے تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے بھی زیادہ بار سنا ہے۔
عمرو بن عبسہ سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میںجب جاہلیت میں تھا توسمجھتا تھا کہ لوگ گمراہ ہیں اور ان کے دین کی کوئی حیثیت نہیں ہے جبکہ وہ بتوں کی عبادت کرتے ہیں، میں نے مکہ کے ایک آدمی کے بارے میں سنا کہ وہ بہت سی باتیں بتاتا ہے، میں اپنی سواری پر بیٹھا اور ان کے پاس پہنچ گیا، میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھپے ہوئے ہیں آپ کی قوم (کے لوگ) آپ کے خلاف دلیر،اور جری ہیں۔ میں ایک چارہ (بہانہ)ٰکر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، آپ کے کیا حیثیت ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نبی ہوں۔ پھر میں نے پوچھا: نبی کی حقیقت اور صفت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ نے بھیجا ہے۔ تو میں نے کہا: آپ کو کیا دے کر بھیجا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ مجھے صلہ رحمی، بتوں کو توڑنے، اور اللہ تعالیٰ کو ایک قرار دینے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے کا حکم دے کر بھیجا ہے۔ میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ کے ساتھ کس نے اس پیغام کو قبول کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آزاد اور ایک غلام۔ راوی بتاتے ہیں طہ اس وقت آپصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں میں سے ابو بکر اور بلال رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے۔ میں نے کہا: میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کا پیرو کار ہوں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے اس وقت کے اس کی طاقت نہیں رکھتے، کیا تم میری خالت اور لوگوں کی حابت نہیں دیکھ رہے؟ کہ لوگ میرے ساتھ کیا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن ا س وقت اپنے گھر لوٹ جاؤ اور جب میرے بارے میں سنو کہ میں غالب آ گیا ہوں تو میرے پاس آ جانا۔ تو میں اپنے گھر والوں کے پاس چلا گیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے، اور میں اپنے گھر میں ہی آپصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حالات معلوم کرتا رہتا تھا، اور لوگوں سے پوچھتا رہتا جبکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آ چکے تھے، حتی کہ میرے پاس اہل یثرب یعنی مدینہ کےکچھ لوگ آئے تو میں نے پوچھا: یہ مدینہ سے آنے والے آدمی کا کیا بنا؟ انھوں نے کہا: لوگ تیزی سے اس کی طرف مائل ہو رہے ہیں، یعنی اس کے دین کو قبول کر رہے ہیں۔ آپ کی قوم نے آپ کو قتل کرنا چاہا تھا لیکن وہ ایسا نہ کرسکے۔ اس پر میں مدینہ آیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں تو وہی ہے جو مجھے مکہ میں ملا تھا؟ تو میں نے کہا: ہاں، اور پوچھا: اے اللہ کے نبی! مجھے بتایئے جو اللہ نے آپ کوسکھایا ہے اور میں اس سے ناواقف ہوں، مجھے نماز کے بارے میں بتایئے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبح کی نماز پڑھ اور پھر نمازسے رک جا حتیٰ کہ سورج نکل کر بلند ہو جائے کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کےدرمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس کو (سورج) سجدہ کرتے ہیں، پھر نماز پڑھ کیونکہ نماز کی گواہی دی جاتی ہے اور اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں یہاں تک کہ نیزہ کا سایہ اس کے برابرہو جائے تو پھر نماز سے رک جا کیونکہ اس وقت جہنم کو بھڑکایا جاتا ہے، پھر جب سایہ پھیلمنا شروع ہوجائے(سورج ڈھل جائے) تو نمازپڑھو کیونکہ نماز کے لیے فرشتے گواہی دیتے ہیں اور اس میں حاضر ہوتے ہیں حتیٰ کہ عصر سے فارغ ہوجائے، پھر نماز سے باز آ جا یہاں تک کہ سورج پوری طرح غروب ہوجائے کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں میں غروب ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ ا س پر میں نے پوچھا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تو وضو؟ مجھے اس کے بارے میں بھی بتایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جوشخص بھی وضو کے لئے پانی لاتا ہے اور کلی کرتا ہے اور ناک میں پانی کھینچ کر اسے جھاڑتا ہے تو اس سے اس کے چہرے، منہ،اور ناک کے نتھنوں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں،پھر جب وہ اپنے چہرے کو اللہ کے حکم کےمطابق دھوتا ہے تو اس کی داڑھی کے اطراف سے پانی کے ساتھ اس کے چہرے کے گناہ گر جاتے ہیں، پھر وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوتا ہے۔ تو اس کے ہاتھوں کےگناہ اس کے پوروں سے پانی کے ساتھ گر جاتے ہیں پھر وہ سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر کے گناہ پانی کے ساتھ اس کے بالوں کے اطراف سے پانی کے ساتھ گر جاتے ہیں، پھر وہ اپنے دونوں قدم ٹحنوں سمیت دھوتا ہے تو اس کے دونوں پاؤں کے گناہ، اس کے پوروں سے پانی کے ساتھ نکل جاتے ہیں پھر اگر وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہے، اللہ کی حمد و ثناء اور اس کے شایان شان بزرگی بیان کرتا ہے اور اپنے دل کو اللہ کے لیے (ہر قسم کے خیالات و تصورات سے) خالی کر لیتا ہے تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح اس نکلتا ہے جس طرح ماں نے اسے جنا ہوتا ہے حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سنائی تو ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا: اے عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! سوچو تم کیا کہہ رہے ہو۔ ایک ہی جگہ اس آدمی کو اتنا کچھ مل جاتا ہے! اس پر عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میں بوڑھا ہو گیا ہوں میری ہڈیاں بھی سن رسیدہ ہوگئی ہیں (کمزور ہو گئی ہیں) اور میری موت کا وقت بھی قریب آچکا ہے اور مجھے اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں چھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگر میں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک، دو، تین۔۔۔ حتیٰ کہ انھوں نے سات دفعہ گنا (شمار کیا) نہ سنا ہوتا تو میں اس حدیث کو کبھی بھی بیان نہ کرتا۔ لیکن میں نے تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اس سے بھی زیادہ دفعہ سنا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1930 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1930  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
بت پرستی ایک ایسا قبیح فعل ہے کہ اگر انسان عقل و شعور ہو تو وہ جاہلیت کے دور میں بھی اس کی ضلالت و گمراہی اور بےدینی کو سمجھ سکتا ہے اور ایک انسان معاشرے کے عام چال چلن کے خلاف کتنی ہی اعلیٰ اور عمدہ بات کرے اور کتنا ہی باکردار اور بلند اخلاق ہو لوگ اس کی مخالفت کے درپے ہو جاتے ہیں اور اس کو اپنے مشن کے لیے جان جوکھوں میں ڈال کر عزم و حوصلہ اور استقلال وپامردی سے اپنا راستہ نکالنا پڑتا ہے اور آخرکار فتح حق کو ہی حاصل ہوتی ہے۔
بشرطیکہ اس کے لیے جدو جہد مسلسل اور پیہم ہو اور اس کے لیے کسی قسم کی مداہنت یا کمزوری نہ دکھائی جائے اور نبی کی حقیقت یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا فرستادہ ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام فرماتا ہے۔
(2)
نمازوں کے اوقات میں نمازیوں کی گواہی دینے کے لیے فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور ان کے ایمان کی گواہی دیتے ہیں۔
(3)
زوال کا وقت چونکہ جہنم کے بھڑکائے جانے کا وقت ہے،
اس لیے اس وقت میں انسان پوری طرح جمیعت خاطر اور حاضر دماغی سے کام نہیں لے سکتا اور اللہ کے حضور راز و نیاز میں یکسوئی اور اطمینان قلبی کا مظاہر نہیں کر سکتا۔
اس لیے اس وقت میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
(4)
وضو اطمینان اور سکون سے کرنے کی صورت میں اعضائے وضو کے تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں اور اگر انسان اس اثنا میں توبہ کرے اور آخر میں دعائے توبہ پڑھے تو انسان ہر قسم کے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے اور نومولود بچے کی طرح توبہ کی بنا پر پاک وصاف ہو جاتا ہے اگر توبہ نہ کرے تو صرف صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1930