صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر

صحيح ابن خزيمه
روزہ دار کا روزہ توڑنے والے افعال کے ابواب کا مجموعہ
1341.
1341. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جماع کرنے والے شخص کو صدقہ کرنے کا حُکم اس کی اس اطلاع کے بعد دیا تھا کہ وہ ایک گردن آزاد نہیں کرسکتا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُس نے بتادیا ہو کہ وہ دو ماہ کے مسلسل روزے بھی نہیں رکھ سکتا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات میں ہے۔ لہٰذا یہ روایت مختصر بیان کی ہے
حدیث نمبر: 1947
Save to word اعراب
حدثنا احمد بن سعيد الدارمي ، حدثنا مصعب بن عبد الله ، نا عبد العزيز بن محمد بن ابي عبيدة الدراوردي ، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن ابي ربيعة المخزومي ، عن محمد بن جعفر بن الزبير ، عن عباد بن عبد الله بن الزبير ، عن عائشة ، انها قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم في ظل فارع , فاتاه رجل من بني بياضة , فقال: يا نبي الله، احترقت. قال له النبي صلى الله عليه وسلم:" ما لك؟" قال: وقعت بامراتي، وانا صائم، وذلك في رمضان , فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اعتق رقبة". قال: لا اجده. قال:" اطعم ستين مسكينا". قال: ليس عندي. قال:" اجلس" , فجلس , فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرق فيه عشرون صاعا , فقال:" اين السائل آنفا؟" قال: ها انا ذا يا رسول الله. قال:" خذ هذا فتصدق به". قال: يا رسول الله , على احوج مني ومن اهلي؟!! فوالذي بعثك بالحق ما لنا عشاء ليلة. قال النبي صلى الله عليه وسلم:" فعد به عليك وعلى اهلك" . لم يذكر الصوم في الخبر. قال ابو بكر: إن ثبتت هذه اللفظة بعرق فيه عشرون صاعا , فإن النبي صلى الله عليه وسلم امر هذا المجامع ان يطعم كل مسكين ثلث صاع من تمر ؛ لان عشرين صاعا إذا قسم بين ستين مسكينا كان لكل مسكين ثلث صاع , ولست احسب هذه اللفظة ثابتة , فإن في خبر الزهري: اتي بمكتل فيه خمسة عشر صاعا , او عشرون صاعا. هذا في خبر منصور بن المعتمر , عن الزهري. فاما هقل بن زياد فإنه روى، عن الاوزاعي، عن الزهري، قال: خمسة عشر صاعا. قد خرجتهما بعد , ولا اعلم احدا من علماء الحجاز، والعراق، قال: يطعم في كفارة الجماع كل مسكين ثلث صاع في رمضان. قال اهل الحجاز: يطعم كل مسكين مدا من طعام , تمرا كان او غيره. وقال العراقيون: يطعم كل مسكين صاعا من تمر. فاما ثلث صاع، فلست احفظ عن احد منهم. قال ابو بكر: قد يجوز ان يكون ترك ذكر الامر بصيام شهرين متتابعين في هذا الخبر إنما كان لان السؤال في هذا الخبر إنما كان في رمضان قبل ان يقضي الشهر , وصيام شهرين متتابعين لهذه الحوبة لا يمكن الابتداء فيه إلا بعد ان يقضي شهر رمضان، وبعد مضي يوم من شوال. فامر النبي صلى الله عليه وسلم المجامع بإطعام ستين مسكينا , إذ الإطعام ممكن في رمضان لو كان المجامع مالكا لقدر الإطعام , فامره النبي صلى الله عليه وسلم مما يجوز له فعله معجلا , دون ما لا يجوز له فعله إلا بعد مضي ايام وليالي , والله اعلم. ولست احفظ في شيء من اخبار ابي هريرة ان السؤال من المجامع قبل ان ينقضي شهر رمضان , فجاز إذا كان السؤال بعد مضي رمضان ان يؤمر بصيام شهرين ؛ لان الصيام في ذلك الوقت للكفارة جائزةحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، نا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عُبَيْدَةَ الدَّرَاوَرْدِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الْمَخْزُومِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ظِلٍّ فَارِعٍ , فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي بَيَاضَةَ , فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، احْتَرَقْتُ. قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا لَكَ؟" قَالَ: وَقَعْتُ بِامْرَأَتِي، وَأَنَا صَائِمٌ، وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ , فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعْتِقْ رَقَبَةً". قَالَ: لا أَجِدُهُ. قَالَ:" أَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا". قَالَ: لَيْسَ عِنْدِي. قَالَ:" اجْلِسْ" , فَجَلَسَ , فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ عِشْرُونَ صَاعًا , فَقَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ آنِفًا؟" قَالَ: هَا أَنَا ذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:" خُذْ هَذَا فَتَصَدَّقْ بِهِ". قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , عَلَى أَحْوَجَ مِنِّي وَمِنْ أَهْلِي؟!! فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا لَنَا عَشَاءُ لَيْلَةٍ. قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَعُدْ بِهِ عَلَيْكَ وَعَلَى أَهْلِكَ" . لَمْ يُذْكَرِ الصَّوْمُ فِي الْخَبَرِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنْ ثَبَتَتْ هَذِهِ اللَّفْظَةُ بِعَرَقٍ فِيهِ عِشْرُونَ صَاعًا , فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ هَذَا الْمُجَامِعَ أَنْ يُطْعِمَ كُلَّ مِسْكِينٍ ثُلُثَ صَاعٍ مِنْ تَمْرٍ ؛ لأَنَّ عِشْرِينَ صَاعًا إِذَا قُسِّمَ بَيْنَ سِتِّينَ مِسْكِينًا كَانَ لِكُلِّ مِسْكِينٍ ثُلُثُ صَاعٍ , وَلَسْتُ أَحْسِبُ هَذِهِ اللَّفْظَةَ ثَابِتَةً , فَإِنَّ فِي خَبَرِ الزُّهْرِيِّ: أُتِيَ بِمِكْتَلٍ فِيهِ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا , أَوْ عِشْرُونَ صَاعًا. هَذَا فِي خَبَرِ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ , عَنِ الزُّهْرِيِّ. فَأَمَّا هِقْلُ بْنُ زِيَادٍ فَإِنَّهُ رَوَى، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا. قَدْ خَرَّجْتُهُمَا بَعْدُ , وَلا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنْ عُلَمَاءِ الْحِجَازِ، وَالْعِرَاقِ، قَالَ: يُطْعِمُ فِي كَفَّارَةِ الْجِمَاعِ كُلَّ مِسْكِينٍ ثُلُثَ صَاعٍ فِي رَمَضَانَ. قَالَ أَهْلُ الْحِجَازِ: يُطْعِمُ كُلَّ مِسْكِينٍ مُدًّا مِنْ طَعَامٍ , تَمْرًا كَانَ أَوْ غَيْرَهُ. وَقَالَ الْعِرَاقِيُّونَ: يُطْعِمُ كُلَّ مِسْكِينٍ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ. فَأَمَّا ثُلُثُ صَاعٍ، فَلَسْتُ أَحْفَظُ عَنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ تَرْكُ ذِكْرِ الأَمْرِ بِصِيَامِ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ فِي هَذَا الْخَبَرِ إِنَّمَا كَانَ لأَنَّ السُّؤَالَ فِي هَذَا الْخَبَرِ إِنَّمَا كَانَ فِي رَمَضَانَ قَبْلَ أَنْ يَقْضِيَ الشَّهْرَ , وَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ لِهَذِهِ الْحَوْبَةِ لا يُمْكِنُ الابْتِدَاءُ فِيهِ إِلا بَعْدَ أَنْ يَقْضِيَ شَهْرَ رَمَضَانَ، وَبَعْدَ مُضِيِّ يَوْمٍ مِنْ شَوَّالٍ. فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُجَامِعَ بِإِطْعَامِ سِتِّينَ مِسْكِينًا , إِذِ الإِطْعَامُ مُمْكِنٌ فِي رَمَضَانَ لَوْ كَانَ الْمُجَامِعُ مَالِكًا لِقَدْرِ الإِطْعَامِ , فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يَجُوزُ لَهُ فِعْلُهُ مُعَجِّلا , دُونَ مَا لا يَجُوزُ لَهُ فِعْلُهُ إِلا بَعْدَ مُضِيِّ أَيَّامٍ وَلَيَاليٍ , وَاللَّهُ أَعْلَمُ. وَلَسْتُ أَحْفَظُ فِي شَيْءٍ مِنْ أَخْبَارِ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ السُّؤَالَ مِنَ الْمُجَامِعِ قَبْلَ أَنْ يَنْقَضِيَ شَهْرُ رَمَضَانَ , فَجَازَ إِذَا كَانَ السُّؤَالُ بَعْدَ مُضِيِّ رَمَضَانَ أَنْ يُؤْمَرَ بِصِيَامِ شَهْرَيْنِ ؛ لأَنَّ الصِّيَامَ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ لِلْكَفَّارَةِ جَائِزَةٌ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلند سائے میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس بنی بیاض کا ایک شخص آیا اور اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے نبی، میں برباد ہوگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے پوچھا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ میں نے اپنی بیوں سے (روزے کی حالت میں) ہمبستری کرلی ہے۔ اور یہ کام رمضان المبارک میں کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے حُکم دیا: ایک گردن آزاد کرو ـ اُس نے کہا کہ میرے پاس گردن آزاد کرنے کی طاقت نہیں ہے ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو ـ اُس نے عرض کی کہ میرے پاس (اتنا اناج بھی) نہیں ہے ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا جس میں بیس صاع (کھجوریں) تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابھی ابھی سوال کرنے والا شخص کہاں ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول، میں یہ حاضر ہوں ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لے لو اور اس کا صدقہ کر دو ـ اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، کیا میں اپنے اور اپنے گھر والوں سے زیادہ محتاج اور فقیر پر صدقہ کروں؟ تو اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے آج رات ہمارے پاس رات کا کھانا بھی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر اسے اپنے اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرلے۔ اس روایت میں روزوں کا ذکر نہیں ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں، اگر یہ الفاظ ثابت ہوجائیں کہ ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں بیس صاع اناج تھا تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جماع کرنے والے کو حُکم دیا ہے کہ وہ ہر مسکین کو ایک تہائی صاع کھجوریں دے دے۔ کیونکہ بیس صاع جب ساٹھ مساکین میں تقسیم کریںگے تو ہر مسکین کو تہائی صاع ملے گا ـ لیکن میرا خیال نہیں کہ یہ الفاظ ثابت ہوں۔ کیونکہ امام زہری رحمه الله کی روایت میں ہے۔ ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں پندرہ یا بیس صاع کھجور یں تھیں۔ یہ امام زہری سے منصور بن معتمر کی خبر ہے۔ جبکہ ہقل بن زیاد نے امام اوزاعی کے واسطے سے امام زہری سے بیان کیا ہے کہ پندرہ صاع میں یہ دونوں روایات بعد میں بیان کردی ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ کسی حجازی یا عراقی عالم دین نے یہ فتویٰ دیا ہو کہ رمضان میں جماع کے کفّارے میں ہر مسکین کو تہائی صاع کھلائے ـ حجاز کے علماء کہتے ہیں کہ وہ ہر مسکین کو ایک مد کھانا کھلا دے، وہ کھجوریں ہوں یا دیگر اناج ـ جبکہ عراقی علماء کہتے ہیں کہ ہر مسکین کو ایک صاع کھجوریں کھلائے۔ جبکہ تہائی صاع کے متعلق میری معلومات کے مطابق کسی نے نہیں کہا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ اس روایت میں دوماہ کے مسلسل روزے رکھنے کا حُکم اس لئے چھوڑ دیا گیا ہو کیونکہ اس روایت میں یہ سوال رمضان المبارک کے دوران مہینہ مکمّل ہونے سے پہلے کیا گیا ہے ـ جبکہ اس گناہ کی وجہ سے دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے کی ابتدا رمضان المبارک کے مکمّل ہونے اور شوال کا ایک دن گزرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جماع کرنے والے کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حُکم دیا کیونکہ اگر جماع کرنے والا مساکین کو کھانا کھلانے کی قدرت رکھتا ہو تو رمضان المبارک میں یہ کفّارہ ادا کرنا ممکن ہے۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہ حُکم دیا ہے جس پر عمل کرنا فوری ممکن تھا اور اس کا حُکم نہیں دیا جس پر عمل کرنا کئی دن اور راتوں کے بعد ہی ممکن تھا۔ واللہ اعلم۔ اور مجھے یاد نہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی کسی روایت میں یہ مذکور ہو کہ جماع کرنے والے کا سوال ماہ رمضان کے مکمّل ہونے سے پہلے تھا۔ لہٰذا اگر یہ سوال رمضان المبارک کے بعد ہو تو پھر اسے دو ماہ کے روزے رکھنے کا حُکم بھی دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس وقت ہی کفّارے کے طور پر روزے رکھنا جائز وممکن ہے۔

تخریج الحدیث:


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.