صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ صَلَاةِ الْكُسُوفِ
نماز کسوف کے ابواب کا مجموعہ
888. (655) بَابُ اسْتِحْبَابِ اسْتِحْدَاثِ التَّوْبَةِ عِنْدَ كُسُوفِ الشَّمْسِ، لِمَا سَبَقَ مِنَ الْمَرْءِ مِنَ الذُّنُوبِ وَالْخَطَايَا
سورج گرہن کے وقت آدمی کا اپنے گزشتہ گناہوں اور خطاوَں سے توبہ کرنا مستحب ہے
حدیث نمبر: 1397
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا ابو نعيم ، عن الاسود بن قيس ، حدثني ثعلبة بن عباد العبدي من اهل البصرة، انه شهد خطبة يوما لسمرة بن جندب، فذكر في خطبته، قال سمرة بن جندب : بينا انا يوما وغلام من الانصار نرمي غرضا لنا، على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كانت الشمس قيد رمحين، او ثلاثة في غير الناظرين من الافق اسودت حتى كانها تنومة، فقال احدنا لصاحبه: انطلق بنا إلى المسجد، فوالله ليحدثن شان هذه الشمس لرسول الله صلى الله عليه وسلم في امته حدثا، فدفعنا إلى المسجد، فإذا هو بارز، فوافقنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حين خرج إلى الناس، قال: فاستقدم فصلى بنا كاطول ما قام بنا في صلاة قط، لا يسمع له صوت، ثم ركع بنا كاطول ما ركع بنا في صلاة قط، ولا يسمع له صوت، ثم سجد بنا كاطول ما سجد بنا في صلاة قط، لا يسمع له صوت، قال: ثم فعل في الركعة الثانية مثل ذلك، قال: فوافق تجلي الشمس جلوسه في الركعة الثانية، قال: فسلم فحمد الله واثنى عليه، وشهد انه لا إله إلا الله، وشهد انه عبده ورسوله، ثم قال:" ايها الناس، إنما انا بشر رسول الله، فاذكركم بالله إن كنتم تعلمون اني قصرت عن شيء من تبليغ رسالات ربي لما اجبتموني حتى ابلغ رسالات ربي كما ينبغي لها ان تبلغ، وإن كنتم تعلمون اني قد بلغت رسالات ربي لما اخبرتموني" قال: فقام الناس، فقالوا: شهدنا انك قد بلغت رسالات ربك، ونصحت لامتك، وقضيت الذي عليك، قال: ثم سكتوا، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما بعد ؛ فإن رجالا يزعمون ان كسوف هذه الشمس، وكسوف هذا القمر، وزوال هذه النجوم عن مطالعها لموت رجال عظماء من اهل الارض، وانهم كذبوا، ولكنها آيات من آيات الله، يفتن بها عباده لينظر من يحدث منهم توبة، والله لقد رايت منذ قمت اصلي ما انتم لاقون في دنياكم وآخرتكم، وإنه والله لا تقوم الساعة حتى يخرج ثلاثون كذابا آخرهم الاعور الدجال ممسوح العين اليسرى كانها عين ابي يحيى او تحيا لشيخ من الانصار، وإنه متى خرج فإنه يزعم انه الله، فمن آمن به وصدقه واتبعه، فليس ينفعه صالح من عمل سلف، ومن كفر به، وكذب فليس يعاقب بشيء من عمله سلف، وإنه سيظهر على الارض كلها إلا الحرم وبيت المقدس، وإنه يحضر المؤمنين في بيت المقدس، فيزلزلون زلزالا شديدا، قال: فيهزمه الله وجنوده، حتى ان جذم الحائط واصل الشجرة لينادي: يا مؤمن هذا كافر يستتر بي، تعال اقتله، قال: ولن يكون ذلك كذلك حتى تروا امورا يتفاقم شانها في انفسكم، تسالون بينكم هل كان نبيكم ذكر لكم منها ذكرا، وحتى تزول جبال عن مراثيها على اثر ذلك القبض، واشار بيده" قال: شهدت خطبة اخرى، قال: فذكر هذا الحديث ما قدم كلمة، ولا اخرها عن موضعها. قال ابو بكر: هذه اللفظة التي في هذا الخبر لا يسمع له صوت من الجنس الذي اعلمنا ان الخبر الذي يجب قبوله خبر من يخبر بكون الشيء، لا من ينفي، وعائشة قد خبرت ان النبي صلى الله عليه وسلم جهر بالقراءة، فخبر عائشة يجب قبوله، لانها حفظت جهر القراءة، وإن لم يحفظها غيرها، وجائز ان يكون سمرة كان في صف بعيد من النبي صلى الله عليه وسلم بالقراءة، فقوله:" لا يسمع له صوت": اي لم اسمع صوتا على ما بينته قبل ان العرب، تقول: لم يكن كذا، لما لم يعلم كونهحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ ، حَدَّثَنِي ثَعْلَبَةُ بْنُ عَبَّادٍ الْعَبْدِيُّ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، أَنَّهُ شَهِدَ خُطْبَةً يَوْمًا لِسَمُرَةَ بْنَ جُنْدُبٍ، فَذَكَرَ فِي خُطْبَتِهِ، قَالَ سَمُرَةُ بْنُ جُنْدُبٍ : بَيْنَا أَنَا يَوْمًا وَغُلامٌ مِنَ الأَنْصَارِ نَرْمِي غَرَضًا لَنَا، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ قَيْدَ رُمْحَيْنِ، أَوْ ثَلاثَةٍ فِي غَيْرِ النَّاظِرِينَ مِنَ الأُفُقِ اسْوَدَّتْ حَتَّى كَأَنَّهَا تَنُّومَةٌ، فَقَالَ أَحَدُنَا لِصَاحِبِهِ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَوَاللَّهِ لَيُحْدِثَنَّ شَأْنُ هَذِهِ الشَّمْسِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُمَّتِهِ حَدَثًا، فَدَفَعْنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا هُوَ بَارِزٌ، فَوَافَقْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَرَجَ إِلَى النَّاسِ، قَالَ: فَاسْتَقْدَمَ فَصَلَّى بِنَا كَأَطْوَلِ مَا قَامَ بِنَا فِي صَلاةٍ قَطُّ، لا يُسْمَعُ لَهُ صَوْتٌ، ثُمَّ رَكَعَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا رَكَعَ بِنَا فِي صَلاةٍ قَطُّ، وَلا يُسْمَعُ لَهُ صَوْتٌ، ثُمَّ سَجَدَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا سَجَدَ بِنَا فِي صَلاةٍ قَطُّ، لا يُسْمَعُ لَهُ صَوْتٌ، قَالَ: ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: فَوَافَقَ تَجَلِّي الشَّمْسِ جُلُوسَهُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ، قَالَ: فَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَشَهِدَ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَشَهِدَ أَنَّهُ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَأُذَكِّرُكُمْ بِاللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي قَصَرْتُ عَنْ شَيْءٍ مِنْ تَبْلِيغِ رِسَالاتِ رَبِّي لَمَا أَجَبْتُمُونِي حَتَّى أُبَلِّغَ رِسَالاتِ رَبِّي كَمَا يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُبَلَّغَ، وَإِنَّ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي قَدْ بَلَّغْتُ رِسَالاتِ رَبِّي لَمَا أَخْبَرْتُمُونِي" قَالَ: فَقَامَ النَّاسُ، فَقَالُوا: شَهِدْنَا أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ رِسَالاتِ رَبِّكَ، وَنَصَحْتَ لأُمَّتِكَ، وَقَضَيْتَ الَّذِي عَلَيْكُ، قَالَ: ثُمَّ سَكَتُوا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا بَعْدُ ؛ فَإِنَّ رِجَالا يَزْعُمُونَ أَنَّ كُسُوفَ هَذِهِ الشَّمْسِ، وَكُسُوفَ هَذَا الْقَمَرِ، وَزَوَالَ هَذِهِ النُّجُومِ عَنْ مَطَالِعِهَا لِمَوْتِ رِجَالٍ عُظَمَاءٍ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ، وَأَنَّهُمْ كَذَبُوا، وَلَكِنَّهَا آيَاتٌ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، يَفْتِنُ بِهَا عِبَادَهُ لِيَنْظُرَ مَنْ يُحْدِثُ مِنْهُمْ تَوْبَةً، وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ مُنْذَ قُمْتُ أُصَلِّي مَا أَنْتُمْ لاقُونَ فِي دُنْيَاكُمْ وَآخِرَتِكُمْ، وَإِنَّهُ وَاللَّهِ لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ ثَلاثُونَ كَذَّابًا آخِرُهُمُ الأَعْوَرُ الدَّجَّالُ مَمْسُوحُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى كَأَنَّهَا عَيْنُ أَبِي يَحْيَى أَوْ تَحْيَا لِشَيْخٍ مِنَ الأَنْصَارِ، وَإِنَّهُ مَتَى خَرَجَ فَإِنَّهُ يَزْعُمُ أَنَّهُ اللَّهُ، فَمَنْ آمَنَ بِهِ وَصَدَّقَهُ وَاتَّبَعَهُ، فَلَيْسَ يَنْفَعُهُ صَالِحٌ مِنْ عَمَلٍ سَلَفَ، وَمَنْ كَفَرَ بِهِ، وَكَذَّبَ فَلَيْسَ يُعَاقَبُ بِشَيْءٍ مِنْ عَمَلِهِ سَلَفَ، وَإِنَّهُ سَيَظْهَرُ عَلَى الأَرْضِ كُلِّهَا إِلا الْحَرَمَ وَبَيْتَ الْمَقْدِسِ، وَإِنَّهُ يَحْضُرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَيُزَلْزَلُونَ زِلْزَالا شَدِيدًا، قَالَ: فَيَهْزِمُهُ اللَّهُ وَجُنُودَهُ، حَتَّى أَنَّ جِذْمَ الْحَائِطِ وَأَصْلَ الشَّجَرَةِ لَيُنَادِي: يَا مُؤْمِنُ هَذَا كَافِرٌ يَسْتَتِرُ بِي، تَعَالَ اقْتُلْهُ، قَالَ: وَلَنْ يَكُونَ ذَلِكَ كَذَلِكَ حَتَّى تَرَوْا أُمُورًا يَتَفَاقَمُ شَأْنُهَا فِي أَنْفُسِكُمْ، تَسْأَلُونَ بَيْنَكُمْ هَلْ كَانَ نَبِيُّكُمْ ذَكَرَ لَكُمْ مِنْهَا ذِكْرًا، وَحَتَّى تَزُولَ جِبَالٌ عَنْ مَرَاثِيهَا عَلَى أَثَرِ ذَلِكَ الْقَبْضُ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ" قَالَ: شَهِدْتُ خُطْبَةً أُخْرَى، قَالَ: فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ مَا قَدَّمَ كَلِمَةً، وَلا أَخَّرَهَا عَنْ مَوْضِعَهَا. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ الَّتِي فِي هَذَا الْخَبَرِ لا يُسْمَعُ لَهُ صَوْتٌ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمَنَا أَنَّ الْخَبَرَ الَّذِي يَجِبُ قَبُولُهُ خَبَرُ مَنْ يُخْبِرِ بِكَوْنِ الشَّيْءِ، لا مَنْ يَنْفِي، وَعَائِشَةُ قَدْ خَبَّرَتْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَهَرَ بِالْقِرَاءَةِ، فَخَبَرُ عَائِشَةَ يَجِبُ قَبُولُهُ، لأَنَّهَا حَفِظَتْ جَهْرَ الْقِرَاءَةِ، وَإِنْ لَمْ يَحْفَظْهَا غَيْرُهَا، وَجَائِزٌ أَنْ يَكُونَ سَمُرَةُ كَانَ فِي صَفٍّ بَعِيدٍ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِرَاءَةِ، فَقَوْلُهُ:" لا يُسْمَعُ لَهُ صَوْتٌ": أَيْ لَمْ أَسْمَعْ صَوْتًا عَلَى مَا بَيَّنْتُهُ قَبْلُ أَنَّ الْعَرَبَ، تَقُولُ: لَمْ يَكُنْ كَذَا، لِمَا لَمْ يُعْلَمْ كَوْنُهُ
جناب ثعلبہ بن عباد عبدی بصری بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے ایک دن سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں حاضری دی۔ تو اُنہوں نے اپنے خطبہ میں بتایا۔ اس دوران کہ ایک دن میں اور ایک انصاری لڑکا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اپنی نشانہ بازی کی مشق کر رہے تھے حتّیٰ کہ سورج افق میں دیکھنے والوں کی نظر میں دو یا تین نیزوں کے بقدر رہ گیا تو وہ سیاہ ہو گیا گو یا کہ وہ کلونجی کا دانہ ہو۔ ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا، چلو مسجد میں چلتے ہیں، اللہ کی قسم، سورج کی اس حالت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمّت کو کوئی نیا حُکم دیں گے۔ لہٰذا ہم مسجد کی طرف چل پڑے اچانک ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر ہی تشریف فرما ہیں۔ ہم اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے جب آپ لوگوں کے پاس باہر تشریف لائے تھے۔ سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور ہمیں اتنی طویل قیام والی نماز پڑھائی کہ اتنی طویل نماز ہم نے کبھی نہ پڑھی تھی۔ آپ کی آواز سنائی نہیں دی رہی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس قدر طویل رکوع کرایا کہ اتنا طویل رکوع آپ نے ہمیں کبھی نہیں کرایا تھا۔ آپ کی آواز سنائ نہیں دے رہی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اتنا لمبا سجدہ کرایا کہ ہم نے آپ کے ساتھ اتنا طویل سجدہ کبھی نہیں کیا تھا۔ آپ کی آواز نہیں آرہی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا، صحابی فرماتے ہیں کہ دوسری رکعت کے تشہد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے کہ سورج روشن ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء بیان کی اور گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور گواہی دی کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر فرمایا: اے لوگو، یقیناًً میں ایک انسان اور اللہ کا رسول ہوں۔ میں تمہیں اللہ کے نام کے ساتھ وعظ و نصیحت کرتا ہوں۔ اگر تم جانتے ہو کہ میں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچانے میں کوئی کمی کی ہے تو تم مجھے جواب نہ دینا، حتّیٰ کہ میں اپنے رب کے پیغامات اس طرح پہنچا دوں جس طرح پہنچانے کا حق ہے۔ اور اگر تم جانتے ہو کہ میں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچادیے ہیں تو تم مجھے ضرور بتادو۔ کہتے ہیں کہ لوگ کھڑے ہوگئے اور اُنہوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے ہیں۔ اور اپنی اُمّت کی خو ب خیر و خواہی کی ہے اور اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ پھر وہ خاموش ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امابعد، بیشک کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سورج گرہن اور یہ چاند گرہن اور یہ ستاروں کا اپنے مطالع سے زائل ہونا، اہل زمین کے کسی عظیم شخص کی موت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بلا شبہ وہ جھوٹ بولتے ہیں، لیکن یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ تاکہ وہ دیکھے کہ ان میں سے کون توبہ کرتا ہے۔ اللہ کی قسم، میں جب سے کھڑا نمازپڑھ رہا تھا میں نے ہر وہ چیز دیکھی ہے جو تمہاری دنیا اور آخرت میں تمہیں ملے گی۔ اور بیشک اللہ کی قسم، قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتّیٰ کہ تیس جھوٹے (نبی) نکلیں گے۔ ان میں سے آخری کا نام دجال ہوگا جس کی بائیں آنکھ مٹی ہوگی گویا کہ وہ انصاری بوڑھے ابو یحییٰ یا تحیا کی آنکھ ہے۔ اور بیشک جب وہ نکلے گا تو دعویٰ کرے گا کہ وہی اللہ ہے۔ تو جو شخص اس پر ایمان لے آیا، اور اُس کی تصدیق کی اور اُس کی پیروی کی تو اُس کے گذشتہ نیک اعمال اُسے کچھ نفع نہیں دیں گے۔ اور جس شخص نے اُس کا کُفر کیا اور اُسے جھٹلایا تو اُس کے گذشتہ کسی عمل کا مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ اور وہ (حرمین مکّہ مکرّمہ اور مدینہ منوّرہ) اور بیت المقدس کے علاوہ ساری زمین پر غالب آ جائے گا۔ اور وہ مؤمنوں کو بیت المقدس میں محصور کردے گا تو اُن پر بڑا شدید زلزلہ آئے گا۔ فرماتے ہیں کہ تو اللہ تعالیٰ اُسے اور اُس کے لشکروں کو شکست دے دیگا۔ حتّیٰ کہ (ٹوٹی ہوئی) دیوار کا باقی حصّہ اور درخت کا تنا پکار کر کہے گا کہ اے مومن، یہ کافر میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آؤ اسے قتل کردو۔ اور فرمایا: اس طرح اُس وقت تک نہیں ہوگا حتّیٰ کہ تم اپنی جانوں میں بڑے سنگین اور شدید امور کو دیکھ لو گے۔ تم آپس میں پوچھو گے کیا تمہارے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہارے لئے اس کا کچھ تذکرہ کیا ہے۔ حتّیٰ کہ اس گرفتاری کے بعد پہاڑ اپنی جگہوں سے ہل جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ جناب ثعلبہ کہتے ہیں کہ پھر میں (سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ کے) ایک اور خطبے میں حاضر ہوا تو اُنہوں نے یہ حدیث بیان کی۔ اُنہوں نے کوئی بات بھی آگے پیچھے نہ کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ الفاظ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ یہ مسئلہ اسی جنس سے تعلق رکھتا ہے جسے ہم بیان کر چکے ہیں کہ جس خبر کو قبول کرنا واجب ہے وہ اس راوی کی خبر ہوتی ہے جو کسی چیز کے ہونے کی خبر دے، نہ کہ اس شخص کی جو کسی چیز کے نہ ہونے کی خبر دیتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبری دی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز کسوف میں) جہری قراء ت کی ہے۔ لہٰذا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خبر کو قبول کرنا واجب ہے۔ کیونکہ اُنہوں نے جہری قراءت کو یاد رکھا ہے اگر چہ ان کے علاوہ راویوں نے اسے یاد نہیں رکھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور صف میں کھڑے ہوں لہٰذا اُن کا یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، اس کا مطلب ہے کہ مجھے آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں کہ عرب لوگ کہتے ہیں۔ کہ یہ کام نہیں ہوا یعنی اس کام کے ہونے کا علم نہیں ہوسکا۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.