جماع أَبْوَابِ صَلَاةِ الْكُسُوفِ نماز کسوف کے ابواب کا مجموعہ 875. (642) بَابُ ذِكْرِ قَدْرِ الْقِرَاءَةِ مِنْ صَلَاةِ الْكُسُوفِ وَتَطْوِيلِ الْقِرَاءَةِ فِيهَا نماز کسوف میں قراءت کی مقدار کا بیان، اور اس میں طویل قراءت کرنے کا بیان
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگا اور صحابہ کرام آپ کے ساتھ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز کسوف پڑھائی) تو سورہ بقرہ کی مقدار کے برابر طویل قیام کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا طویل رکوع کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے (سرمبارک) اُٹھایا تو بڑا طویل قیام کیا، جو پہلے قیام سے کم تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے چھوٹا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے کیے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبا رکوع کیا جو (پہلی رکعت کے) رکوع سے کم تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمبارک اُٹھایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قیام کیا جوپہلے قیام سے کم تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمبا رکوع کیا جو اس پہلے رکوع سے چھوٹا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے کیے اور نماز ختم کی اس حال میں کہ سورج صاف اور روشن ہوچکا تھا۔ (فراغت کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ ان دونوں کو گرہن کسی شخس کی موت یا اس کی زندگی کی وجہ سے نہیں لگتا۔ جب تم گرہن دیکھو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔“ صحابہ کرام نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اس جگہ (نمازکے دوران) کوئی چیز پکڑی، پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میں نے جنّت دیکھی تو اس کے انگوروں کا ایک خوشہ پکڑنے کی کوشش کی۔ اگر میں وہ خوشہ لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے رہتے (اور وہ ختم نہ ہوتا) اور میں نے جہنّم بھی دیکھی تو میں نے آج جیسا خوفناک منظر کبھی نہیں دیکھا اور میں نے دیکھا کہ اکثر جہنّمی عورتیں ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کی کہ اللہ کے رسول، اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں کے کفر کرنے کی وجہ سے۔“ عرض کی گئی کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کی وجہ سے (جہنّم میں کثرت سے ہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنے خاوندوں کی ناشکری کرتی ہیں، حسن سلوک کا شکریہ ادا نہیں کرتیں۔ اگر تم ان میں سے کسی ایک کے ساتھ طویل عرصہ تک حسن سلوک سے پیش آؤ، پھر وہ تمہاری طرف سے کوئی تکلیف پائے تو وہ کہہ دیتی ہے کہ میں نے کبھی تمہاری طرف سے خیر و بھلائی نہیں پائی۔“ جناب روع بیان کرتے ہیں کہ عشیر کا معنی شوہر ہے۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
|