حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر " كان يخرج زكاة الفطر عن غلمانه الذين بوادي القرى، وبخيبر" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ " كَانَ يُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ عَنْ غِلْمَانِهِ الَّذِينَ بِوَادِي الْقُرَى، وَبِخَيْبَرَ"
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما صدقہ فطر نکالتے اپنے غلاموں کی طرف سے جو وادی قریٰ اور خیبر میں تھے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7680، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2405، والشافعي فى «الاُم» برقم: 64/2، شركة الحروف نمبر: 578، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 51»
وحدثني، عن مالك، ان احسن ما سمعت فيما يجب على الرجل من زكاة الفطر، ان الرجل يؤدي ذلك عن كل من يضمن نفقته، ولا بد له من ان ينفق عليه والرجل يؤدي عن مكاتبه ومدبره ورقيقه كلهم غائبهم وشاهدهم من كان منهم مسلما، ومن كان منهم لتجارة او لغير تجارة ومن لم يكن منهم مسلما فلا زكاة عليه فيه وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّ أَحْسَنَ مَا سَمِعْتُ فِيمَا يَجِبُ عَلَى الرَّجُلِ مِنْ زَكَاةِ الْفِطْرِ، أَنَّ الرَّجُلَ يُؤَدِّي ذَلِكَ عَنْ كُلِّ مَنْ يَضْمَنُ نَفَقَتَهُ، وَلَا بُدَّ لَهُ مِنْ أَنْ يُنْفِقَ عَلَيْهِ وَالرَّجُلُ يُؤَدِّي عَنْ مُكَاتَبِهِ وَمُدَبَّرِهِ وَرَقِيقِهِ كُلِّهِمْ غَائِبِهِمْ وَشَاهِدِهِمْ مَنْ كَانَ مِنْهُمْ مُسْلِمًا، وَمَنْ كَانَ مِنْهُمْ لِتِجَارَةٍ أَوْ لِغَيْرِ تِجَارَةٍ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْهُمْ مُسْلِمًا فَلَا زَكَاةَ عَلَيْهِ فِيهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو بہتر سنا ہے میں نے اس باب میں، وہ یہ ہے کہ آدمی اس شخص کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرے جس کا نان ونفقہ اس پر واجب ہے، اور اس پر خرچ کرنا ضروری ہے، اور اپنے غلام اور مکاتب اور مدبر سب کی طرف سے صدقہ ادا کرے، خواہ یہ غلام حاضر ہوں یا غائب، شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہوں، تجارت کے واسطے ہوں یا نہ ہوں، اور جو اُن میں مسلمان نہ ہو اس کی طرف سے صدقہ نہ دے۔
قال مالك في العبد الآبق: إن سيده إن علم مكانه او لم يعلم وكانت غيبته قريبة فهو يرجو حياته ورجعته، فإني ارى ان يزكي عنه وإن كان إباقه قد طال ويئس منه فلا ارى ان يزكي عنهقَالَ مَالِك فِي الْعَبْدِ الْآبِقِ: إِنَّ سَيِّدَهُ إِنْ عَلِمَ مَكَانَهُ أَوْ لَمْ يَعْلَمْ وَكَانَتْ غَيْبَتُهُ قَرِيبَةً فَهُوَ يَرْجُو حَيَاتَهُ وَرَجْعَتَهُ، فَإِنِّي أَرَى أَنْ يُزَكِّيَ عَنْهُ وَإِنْ كَانَ إِبَاقُهُ قَدْ طَالَ وَيَئِسَ مِنْهُ فَلَا أَرَى أَنْ يُزَكِّيَ عَنْهُ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر کسی کا غلام مفرور ہو تو اگر مالک اس کے پتے اور نشان کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، لیکن بھاگنا اس کا قریب ہو یعنی تھوڑا عرصہ اس کے بھاگے پر گزرا ہو اور اس کی زندگی اور مراجعت کی توقع ہو تو میرے نزدیک اس کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا چاہیے، اور جو اس کے بھاگے کو بہت زمانہ گزر چکا ہو اور اس کے آنے کی پھر توقع نہ ہو تو صدقۂ فطر اس کی طرف سے نہ دے۔
قال مالك: تجب زكاة الفطر على اهل البادية كما تجب على اهل القرى وذلك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" فرض زكاة الفطر من رمضان على الناس على كل حر او عبد ذكر او انثى من المسلمين"قَالَ مَالِك: تَجِبُ زَكَاةُ الْفِطْرِ عَلَى أَهْلِ الْبَادِيَةِ كَمَا تَجِبُ عَلَى أَهْلِ الْقُرَى وَذَلِكَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ عَلَى النَّاسِ عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى مِنَ الْمُسْلِمِينَ"
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: صدقۂ فطر شہر اور دیہات دونوں جگہ کے رہنے والوں پر واجب ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض کیا صدقۂ فطر کو اُوپر آزاد اور غلام کے، اور ہر مرد اور عورت کے مسلمانوں میں سے۔