حدثني حدثني يحيى، عن مالك، انه قرا كتاب عمر بن الخطاب في الصدقة، قال:" فوجدت فيه بسم الله الرحمن الرحيم كتاب الصدقة: في اربع وعشرين من الإبل، فدونها الغنم في كل خمس شاة، وفيما فوق ذلك إلى خمس وثلاثين ابنة مخاض، فإن لم تكن ابنة مخاض فابن لبون ذكر، وفيما فوق ذلك إلى خمس واربعين بنت لبون، وفيما فوق ذلك إلى ستين حقة طروقة الفحل، وفيما فوق ذلك إلى خمس وسبعين جذعة، وفيما فوق ذلك إلى تسعين ابنتا لبون، وفيما فوق ذلك إلى عشرين ومائة حقتان طروقتا الفحل، فما زاد على ذلك من الإبل ففي كل اربعين بنت لبون، وفي كل خمسين حقة، وفي سائمة الغنم إذا بلغت اربعين إلى عشرين ومائة شاة، وفيما فوق ذلك إلى مائتين شاتان، وفيما فوق ذلك إلى ثلاث مائة ثلاث شياه، فما زاد على ذلك ففي كل مائة شاة ولا يخرج في الصدقة تيس ولا هرمة ولا ذات عوار، إلا ما شاء المصدق ولا يجمع بين مفترق ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة، وما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية، وفي الرقة إذا بلغت خمس اواق ربع العشر" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ قَرَأَ كِتَابَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي الصَّدَقَةِ، قَالَ:" فَوَجَدْتُ فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ كِتَابُ الصَّدَقَةِ: فِي أَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الْإِبِلِ، فَدُونَهَا الْغَنَمُ فِي كُلِّ خَمْسٍ شَاةٌ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ ابْنَةُ مَخَاضٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنِ ابْنَةُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى سِتِّينَ حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْفَحْلِ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ جَذَعَةٌ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى تِسْعِينَ ابْنَتَا لَبُونٍ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْفَحْلِ، فَمَا زَادَ عَلَى ذَلِكَ مِنَ الْإِبِلِ فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ، وَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، وَفِي سَائِمَةِ الْغَنَمِ إِذَا بَلَغَتْ أَرْبَعِينَ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ شَاةٌ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى مِائَتَيْنِ شَاتَانِ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى ثَلَاثِ مِائَةٍ ثَلَاثُ شِيَاهٍ، فَمَا زَادَ عَلَى ذَلِكَ فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ وَلَا يُخْرَجُ فِي الصَّدَقَةِ تَيْسٌ وَلَا هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، إِلَّا مَا شَاءَ الْمُصَّدِّقُ وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ، وَفِي الرِّقَةِ إِذَا بَلَغَتْ خَمْسَ أَوَاقٍ رُبُعُ الْعُشْرِ"
امام مالک رحمہ اللہ نے پڑھا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کتاب کو صدقہ اور زکوٰۃ کے باب میں، اس میں لکھا تھا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، یہ کتاب ہے صدقہ کی چوبیس اونٹنیوں تک ہر پانچ میں ایک بکری لازم ہے، جب چوبیس سے زیادہ ہوں پینتیس تک ایک برس کی اونٹنی ہے، اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا ایک اونٹ ہے، اس سے زیادہ میں پینتالیس اونٹ تک دو برس کی اونٹنی ہے، اس سے زیادہ میں ساٹھ اونٹ تک تین برس کی اونٹنی ہے جو قابل ہو جفتی کے، اس سے زیادہ میں پچھتر اونٹ تک چار برس کی اونٹنی ہے، اس سے زیادہ میں نوے اونٹ تک دو اونٹنیاں ہیں دو دو برس کی، اس سے زیادہ میں ایک سو بیس اونٹ تک تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو قابل ہوں جفتی کے، اس سے زیادہ میں ہر چالیس اونٹ میں دو برس کی اونٹنی ہے، اور ہر پچاس اونٹ میں تین برس کی اونٹنی ہے، بکریاں جو جنگل میں چرتی ہوں جب چالیس تک پہنچ جائیں ایک بکری زکوٰۃ کی لازم ہوگی، اس سے زیادہ میں تین سو بکریوں تک تین بکریاں، بعد اس کے ہر سینکڑے میں ایک بکری دینا ہوگی اور زکوٰۃ میں بکرا نہ لیا جائے گا، اسی طرح بوڑھے اور عیب دار، مگر جب زکوٰۃ لینے والے کی رائے میں مناسب ہو، اور جدا جدا اموال ایک نہ کیے جائیں گے، اسی طرح ایک مال جدا جدا نہ کیا جائے گا زکوٰۃ کے خوف سے، اور جو آدمی شریک ہوں تو وہ آپس میں رجوع کرلیں برابر کا حصہ لگا کر، اور چاندی میں جب پانچ اوقیہ ہو تو چالیسواں حصہ لازم آئے گا۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7250، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2235، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 6798، شركة الحروف نمبر: 548، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 23»