كِتَابُ الزَّكَاةِ کتاب: زکوٰۃ کے بیان میں 2. بَابُ الزَّكَاةِ فِي الْعَيْنِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ سونے اور چاندی کی زکوٰۃ کا بیان
حضرت محمد بن عقبہ نے پوچھا قاسم بن محمد بن ابی بکر سے کہ میں نے اپنے مکاتب سے مقاطعت کی ہے، ایک مالِ عظیم پر، تو کیا زکوٰۃ اس میں واجب ہے؟ قاسم بن محمد نے کہا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کسی مال میں سے زکوٰۃ نہ لیتے تھے، جب تک ایک سال اس پر نہ گزرتا۔ قاسم بن محمد نے کہا: اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب لوگوں کو ان کے وظیفے دیتے تو پوچھ لیتے کہ تم پر کسی مال زکوٰۃ واجب ہے؟ اگر وہ کہتا: ہاں، تو اسی وظیفے میں سے زکوٰۃ نکال لیتے، اور جو کہتا: نہیں، تو اس کو وظیفہ دے دیتے اور کچھ اس میں سے نہ لیتے۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7413، 7449، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2274، 2275، وأورده ابن حجر فى "المطالب العالية"، 895، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7024، 7025، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10564، 10568، والشافعي فى «الاُم» برقم: 17/2، شركة الحروف نمبر: 531، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 4»
حضرت قدامہ بن مظعون سے روایت ہے کہ جب میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی سالانہ تنخواہ لینے آتا تو مجھ سے پوچھتے: تمہارے پاس کوئی ایسا مال ہے جس پر زکوٰۃ واجب ہو؟ اگر میں کہتا: ہاں، تو تنخواہ میں سے زکوٰۃ اس مال کی مجرا لیتے۔ اور جو کہتا: نہیں، تو تنخواہ دے دیتے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7029، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7450، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2276، والشافعي فى «الاُم» برقم: 17/2، شركة الحروف نمبر: 532، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 5»
حضرت نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے: کسی مال میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جب تک اس پر پورا سال نہ گزرے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 631، 632، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7414، 7415، 7416، 7417، 7418، 7451، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1887، 1888، 1894، 1895، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7030، 7031، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10316، 10324، شركة الحروف نمبر: 533، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 6»
ابن شہاب نے کہا کہ سب سے پہلے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے تنخواہوں میں سے زکوٰۃ لی۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7452، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2277، والشافعي فى «الاُم» برقم: 17/2، شركة الحروف نمبر: 534، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 7»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک سنتِ اتفاقی یہ ہے کہ زکوٰۃ جیسے دو سو درہم میں واجب ہوتی ہے ویسے ہی بیس دینار میں سونے کے واجب ہوتی ہے۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 534، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 7»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر بیس دینار اس قدر وزن میں ہلکے ہوں کہ ان کی قیمت پوری بیس دینار کو نہ پہنچے تو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے، اگر بیس سے زیادہ ہوں اور قیمت اُن کی پورے بیس دینار کی ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہے، اور بیس دینار سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 534، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 7»
کہا مالک رحمہ اللہ نے: اسی طرح اگر دو سو درہم اسی وزن میں کم ہوں کہ اُن کی قیمت پورے دو سو درہم کو نہ پہنچے تو اُن میں بھی زکوٰۃ نہیں ہے، البتہ اگر دو سو سے زیادہ ہوں اور پورے پورے دو سو درہموں کے برابر ہو جائیں تو زکوٰۃ واجب ہے، لیکن اگر یہ دینار اور درہم جو وزن میں ہلکے ہوں، پورے دینار اور درہم کے برابر جپتے ہوں تو اُن میں زکوٰۃ واجب ہے۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 534، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 7»
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ایک شخص کے پاس ایک سو ساٹھ درہم پورے ہیں، اور اس کے شہر میں آٹھ درہ کو ایک دینار ملتا ہے، تو زکوٰۃ واجب نہ ہوگی، کیونکہ زکوٰۃ جب واجب ہوتی ہے جب اس کے پاس بیس دینار یا دو سو درہم موجود ہوں۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 534، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 7»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک شخص کے پاس پانچ دینار تھے، سو اس نے اس میں تجارت کی اور سال ختم نہیں ہوا تھا کہ وہ اس مقدار کو پہنچ گئے جتنے میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، تو اس کو زکوٰۃ دینا پڑے گی، اگرچہ سال کے ختم ہونے کے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد وہ دینار اس مقدار کو پہنچے ہوں، پھر اس میں زکوٰۃ نہ ہوگی جب تک دوسرا سال ختم نہ ہوگا۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 534، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 7»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک شخص کے پاس دس دینار تھے، اس میں سے اس نے تجارت کی اور سال گزرتے گزرتے وہ بیس دینار پہنچ گئے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی، یہ نہ ہوگا کہ وہ انتظار کرے ایک سال گزرنے کا جب سے بیس دینار کو پہنچے ہیں۔ کیونکہ سال اس پر جب گزرا تو اس کے پاس بیس دینار تھے، پھر دوبارہ اس میں زکوٰۃ نہ ہوگی، جب تک دوسرا سال نہ گزرے۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 534، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 7»
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ہمارے نزدیک یہ امر اجماعی ہے کہ غلاموں کی مزدوری اور کرایہ میں اور مکاتب کے بدل کتاب میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے، قلیل ہو یا کثیر، جب تک مالک کے قبضے میں یہ چیزیں نہ جائیں اور اس پر ایک سال نہ گزر جائے۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 534، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 7»
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: سونا اور چاندی میں اگر کئی حصہ دار ہوں تو جس کا حصہ بیس دینار یا دو سو درہم تک پہنچے گا اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی، اور جس کا حصہ اس سے کم ہوگا اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی، اور جو سب کے حصے نصاب ہوں لیکن کسی کا حصہ زیادہ کسی کا کم ہو تو ہر ایک سے زکوٰۃ اس کے حصے کے موافق لی جائے گی بشرطیکہ ہر ایک کا حصہ نصاب کو پہنچے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 534، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 7»
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: یہ قول مجھے بہت پسند ہے۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 534، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 7»
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر کسی شخص کا چاندی اور سونا متفرق لوگوں کے پاس ہو تو وہ سب کو جمع کر کے اس کی زکوٰۃ نکالے۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 534، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 7»
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جس شخص نے سونا چاندی کمایا تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے جب تک ایک سال نہ گزرے جس روز سے اس کو کمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 534، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 7»
|