كِتَابُ الزَّكَاةِ کتاب: زکوٰۃ کے بیان میں 24. بَابُ جِزْيَةِ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمَجُوسِ یہود و نصاریٰ اور مجوس کے جزیہ کا بیان
ابن شہاب سے روایت ہے کہ پہنچا مجھ کو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ لیا بحرین کے مجوس سے، اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جزیہ لیا فارس کے مجوس سے، اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جزیہ لیا بربر سے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح لغيره، وأخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 1588، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18726، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 5513، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10026، 10091، 19255، 19259، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10869، 33315، 33317، والشافعي فى «الاُم» برقم: 174/4، شركة الحروف نمبر: 567، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 41»
حضرت محمد بن باقر سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا مجوس کا اور کہا کہ میں نہیں جانتا کیا کروں ان کے باب میں، تو کہا سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے: گواہی دیتا ہوں میں کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے: ”وہ طریقہ برتو جو اہلِ کتاب سے برتتے ہو۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع حسن لغيره، وأخرجه النسائی فى «الكبریٰ» برقم: 8715، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3043، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1586، 1587، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2543، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2180، 2181، 2182، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16594، والبيهقي فى "سننه الصغير" برقم: 3703، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1679، 1694، 1707، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 222، والحميدي فى «مسنده» برقم: 64، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10025
شیخ سلیم ہلالی کہتے ہیں کہ یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ تو ضعیف ہے، لیکن شواہد کی بنیاد پر ثابت ہے اور اس کے قوی شواہد موجود ہیں۔، شركة الحروف نمبر: 568، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 42»
حضرت اسلم سے جو مولیٰ ہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مقرر کیا جزیہ کو سونے والوں پر ہر سال میں چار دینار، اور چاندی والوں پر ہر سال میں چالیس درہم، اور ساتھ اس کے یہ بھی تھا کہ بھوکے مسلمانوں کو کھانا کھلائیں، اور جو کوئی مسلمان ان کے یہاں آکر اُترے تو اس کی تین روز کی ضیافت کریں۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18753، 18767، 18768، 18785، والبيهقي فى "سننه الصغير" برقم: 3722، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 5530، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10090، 10095، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 33304، 33308، 33669، 33791، 33801، وأخرجه الطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 5141، 5142، شركة الحروف نمبر: 569، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 43»
قال مالك: لا ارى ان تؤخذ النعم من اهل الجزية إلا في جزيتهم حضرت اسلم عدوی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہ شتر خانے میں ایک اندھی اونٹنی ہے، تو فرمایا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے: وہ اونٹنی کسی گھر والوں کو دے دے، تاکہ وہ اس سے نفع اٹھائیں۔ میں نے کہا: وہ اندھی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کو اونٹوں کی قطار میں باندھ دیں گے۔ میں نے کہا: وہ چارہ کیسے کھائے گی؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ جزیے کے جانوروں میں سے ہے یا صدقہ کے؟ میں نے کہا: جزیے کے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واللہ! تم لوگوں نے اس کے کھانے کا ارادہ کیا ہے، میں نے کہا: نہیں۔ اس پر نشانی جزیہ کی موجود ہے، تو حکم کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اور وہ نحر کی گئی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس نو پیالے تھے، جو میوہ یا اچھی چیز آتی آپ ان میں رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیبیوں کی بھیجا کرتے، اور سب سے آخر اپنی بیٹی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجتے، اگر وہ چیز کم ہوتی تو کمی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے حصے میں ہوتی، تو آپ نے گوشت نو پیالوں میں کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیبیوں کو روانہ کیا، بعد اس کے پکانے کا حکم کیا اور سب مہاجرین اور انصار کی دعوت کی۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک جزیہ کے جانور ان کافروں سے لیے جائیں گے جو جانور والے ہوں جزیہ میں۔ تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13257، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4043، 4044، والشافعي فى «الاُم» برقم: 60/2، 80، 93، شركة الحروف نمبر: 570، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 44»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے لکھ بھیجا اپنے عاملوں کو: جو لوگ جزیہ والوں میں سے مسلمان ہوں ان کا جزیہ معاف کریں۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف
شیخ سلیم ہلالی نے کہا کہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے اور شیخ احمد سلیمان نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔، شركة الحروف نمبر: 570، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 45»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ سنت جاری ہے کہ جزیہ اہلِ کتاب کی عورتوں اور بچوں سے نہ لیا جائے گا، بلکہ جوان مردوں سے لیا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 571، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 45»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ذمیوں اور مجوسیوں کی کھجور کے درختوں سے اور انگور کی بیلوں سے اور ان کی زراعت اور مواشی سے زکوٰۃ نہ لی جائے گی، اس لیے کہ زکوٰۃ مسلمانوں پر مقرر ہوئی ان کے اموال پاک کرنے کو، اور ان کے فقیروں کو دینے کو، اور جزیہ اہلِ کتاب پر مقرر ہوا ان کے ذلیل کرنے کو، تو جب تک وہ لوگ اپنی اس بستی میں رہیں جہاں پر ان سے صلح ہوئی تو سوا جزیہ کے اور کچھ ان سے نہ لیا جائے گا، ان اموال میں سے جو لیے پھرتے ہیں تجارت کے واسطے، اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ان پر جزیہ مقرر ہوا تھا اور صلح ہوئی تھی اس امر پر کہ وہ اپنے شہر میں رہیں اور ان کے دشمن سے ان کی حفاظت کی جائے، تو جو شخص ان میں سے اپنے ملک سے نکل کر اور کہیں تجارت کو جائے گا اس سے دسواں حصہ لیا جائے گا، مثلاً مصر والے شام کو جائیں، اور شام والے عراق کو، اور عراق والے مدینہ کو یا یمن کو، تو ان سے دسواں حصہ لیا جائے، اور اہلِ کتاب اور مجوسیوں کے مواشی اور پھلوں اور زراعت میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ ایسے ہی سنت جاری ہے، اور کافروں کو اپنے اپنے دین اور ملت پر قائم رہنے دیں گے، اور ان کے مذہب میں دخل نہ دیا جائے گا، اور جو یہ کافر سال میں کئی بار دار السلام میں مالِ تجارت لے کر آئیں تو جب آئیں گے ان سے دسواں حصہ لیا جائے گا، اس واسطے کہ اس بات پر ان سے صلح نہیں ہوئی تھی نہ یہ شرط ہوئی تھی کہ محصول مالِ تجارت کا نہ لیا جائے گا۔ اسی طریقہ پر میں نے اپنے شہر کے اہلِ علم کو پایا۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 572، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 45»
|