(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا صفوان بن عمرو ، حدثنا ابو حسبة مسلم بن اكيس مولى عبد الله بن عامر، عن ابي عبيدة بن الجراح ، قال: ذكر من دخل عليه فوجده يبكي، فقال: ما يبكيك يا ابا عبيدة؟ فقال: نبكي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر يوما ما يفتح الله على المسلمين، ويفيء عليهم حتى ذكر الشام، فقال:" إن ينسا في اجلك يا ابا عبيدة، فحسبك من الخدم ثلاثة خادم يخدمك، وخادم يسافر معك، وخادم يخدم اهلك ويرد عليهم , وحسبك من الدواب ثلاثة: دابة لرحلك، ودابة لثقلك، ودابة لغلامك"، ثم هذا انا انظر إلى بيتي قد امتلا رقيقا، وانظر إلى مربطي قد امتلا دواب وخيلا، فكيف القى رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد هذا؟ وقد اوصانا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن احبكم إلي، واقربكم مني من لقيني على مثل الحال الذي، فارقني عليها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو حِسْبَةَ مُسْلِمُ بْنُ أُكَيْسٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ ، قَالَ: ذَكَرَ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ فَوَجَدَهُ يَبْكِي، فَقَالَ: مَا يُبْكِيكَ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ؟ فَقَالَ: نَبْكِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ يَوْمًا مَا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، وَيُفِيءُ عَلَيْهِمْ حَتَّى ذَكَرَ الشَّامَ، فَقَالَ:" إِنْ يُنْسَأْ فِي أَجَلِكَ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ، فَحَسْبُكَ مِنَ الْخَدَمِ ثَلَاثَةٌ خَادِمٌ يَخْدُمُكَ، وَخَادِمٌ يُسَافِرُ مَعَكَ، وَخَادِمٌ يَخْدُمُ أَهْلَكَ وَيَرُدُّ علَيْهِمْ , وَحَسْبُكَ مِنَ الدَّوَابِّ ثَلَاثَةٌ: دَابَّةٌ لِرَحْلِكَ، وَدَابَّةٌ لِثَقَلِكَ، وَدَابَّةٌ لِغُلَامِكَ"، ثُمَّ هَذَا أَنَا أَنْظُرُ إِلَى بَيْتِي قَدْ امْتَلَأَ رَقِيقًا، وَأَنْظُرُ إِلَى مِرْبَطِي قَدْ امْتَلَأَ دَوَابَّ وَخَيْلًا، فَكَيْفَ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هَذَا؟ وَقَدْ أَوْصَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَحَبَّكُمْ إِلَيَّ، وَأَقْرَبَكُمْ مِنِّي مَنْ لَقِيَنِي عَلَى مِثْلِ الْحَالِ الَّذِي، فَارَقَنِي عَلَيْهَا".
ایک مرتبہ ایک صاحب سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے ملنے کے لئے آئے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں، انہوں نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ملنے والی فتوحات اور حاصل ہونے والے مال غنیمت کا تذکرہ کیا، اس دوران شام کا تذکرہ بھی ہوا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ابوعبیدہ! اگر تمہیں زندگی مل جائے تو صرف تین خادموں کو اپنے لئے کافی سمجھنا، ایک اپنے لئے، ایک اپنے ساتھ سفر کرنے کے لئے، اور ایک اپنے اہل خانہ کے لئے جو ان کی خدمت کرے اور ان کی ضروریات مہیا کرے، اور تین سواریوں کو اپنے لئے کافی سمجھنا، ایک جانور تو اپنی سواری کے لئے، ایک اپنے سامان اور بار برداری کے لئے، اور ایک اپنے غلام کے لئے۔“ لیکن اب میں اپنے گھر پر نظر ڈالتا ہوں تو یہ مجھے غلاموں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے، میں اپنے اصطبل کی طرف نگاہ دوڑاتا ہوں تو وہ مجھے سواریوں اور گھوڑوں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس صورت میں، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کس منہ سے کروں گا؟ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ وصیت فرمائی تھی کہ ”میری نگاہوں میں تم میں سب سے زیادہ محبوب اور میرے قریب ترین وہ شخص ہوگا جو مجھ سے اسی حال میں آکر ملاقات کرے جس کیفیت پر وہ مجھ سے جدا ہوا تھا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، مسلم بن أكيس مجهول، وروايته عن أبى عبيدة مرسلة.