(حديث مرفوع) حدثنا زياد بن الربيع ابو خداش ، حدثنا واصل مولى ابي عيينة، عن بشار بن ابي سيف الجرمي ، عن الوليد بن عبد الرحمن ، عن عياض بن غطيف ، قال: دخلنا على ابي عبيدة بن الجراح نعوده من شكوى اصابه، وامراته تحيفة قاعدة عند راسه، قلت: كيف بات ابو عبيدة؟ قالت: والله لقد بات باجر، فقال ابو عبيدة : ما بت باجر وكان مقبلا بوجهه على الحائط، فاقبل على القوم بوجهه، فقال: الا تسالونني عما قلت؟ قالوا: ما اعجبنا، ما قلت: فنسالك عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" من انفق نفقة فاضلة في سبيل الله، فبسبع مائة، ومن انفق على نفسه واهله، او عاد مريضا، او ماز اذى، فالحسنة بعشر امثالها، والصوم جنة ما لم يخرقها، ومن ابتلاه الله ببلاء في جسده، فهو له حطة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ أَبُو خِدَاشٍ ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ، عَنْ بَشَّارِ بْنِ أَبِي سَيْفٍ الْجَرْمِيِّ ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ غُطَيْفٍ ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ نَعُودُهُ مِنْ شَكْوًى أَصَابَهُ، وَامْرَأَتُهُ تُحَيْفَةُ قَاعِدَةٌ عِنْدَ رَأْسِهِ، قُلْتُ: كَيْفَ بَاتَ أَبُو عُبَيْدَةَ؟ قَالَتْ: وَاللَّهِ لَقَدْ بَاتَ بِأَجْرٍ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ : مَا بِتُّ بِأَجْرٍ وَكَانَ مُقْبِلًا بِوَجْهِهِ عَلَى الْحَائِطِ، فَأَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: أَلَا تَسْأَلُونَنِي عَمَّا قُلْتُ؟ قَالُوا: مَا أَعْجَبَنَا، مَا قُلْتَ: فَنَسْأَلُكَ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فَاضِلَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَبِسَبْعِ مِائَةٍ، وَمَنْ أَنْفَقَ عَلَى نَفْسِهِ وَأَهْلِهِ، أَوْ عَادَ مَرِيضًا، أَوْ مَازَ أَذًى، فَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ يَخْرِقْهَا، وَمَنْ ابْتَلَاهُ اللَّهُ بِبَلَاءٍ فِي جَسَدِهِ، فَهُوَ لَهُ حِطَّةٌ".
عیاض بن غطیف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، ہم ان کی عیادت کے لئے گئے تو ان کی اہلیہ - جن کا نام تحیفہ تھا - ان کے سر کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں، ہم نے ان سے پوچھا کہ ان کی رات کیسی گذری؟ انہوں نے کہا: واللہ! انہوں نے ساری رات اجر و ثواب کے ساتھ گذاری ہے، سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں نے ساری رات اجر کے ساتھ نہیں گذاری، پہلے ان کے چہرے کا رخ دیوار کی طرف تھا، اب انہوں نے اپنا چہرہ لوگوں کی طرف کر لیا اور فرمایا کہ میں نے جو بات کہی ہے، تم اس کے متعلق مجھ سے سوال نہیں کرتے؟ لوگوں نے کہا کہ ہمیں آپ کی بات پر تعجب ہوتا تو آپ سے سوال کرتے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص اللہ کی راہ میں اپنی زائد چیز خرچ کر دے اس کا ثواب سات سو گنا ہوگا، جو اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ پر خرچ کرے، کسی بیمار کی عیادت کرے یا کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دے تو ہر نیکی کا بدلہ دس نیکیاں ہونگی، اور روزہ ڈھال ہے بشرطیکہ اسے انسان پھاڑ نہ دے، اور جس شخص کو اللہ جسمانی طور پر کسی آزمائش میں مبتلا کرے وہ اس کے لئے بخشش کا سبب بن جاتی ہے۔“