لقول الله تعالى: فلا تعضلوهن سورة البقرة آية 232 فدخل فيه الثيب وكذلك البكر، وقال: ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا سورة البقرة آية 221، وقال: وانكحوا الايامى منكم سورة النور آية 32.لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: فَلا تَعْضُلُوهُنَّ سورة البقرة آية 232 فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ وَكَذَلِكَ الْبِكْرُ، وَقَالَ: وَلا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا سورة البقرة آية 221، وَقَالَ: وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ سورة النور آية 32.
کیونکہ اللہ تعالیٰ (سورۃ البقرہ) میں ارشاد فرماتا ہے «فلا تعضلوهن»”جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو عورتوں کے اولیاء تم کو ان کا روک رکھنا درست نہیں۔“ اس میں ثیبہ اور باکرہ سب قسم کی عورتیں آ گئیں اور اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا «ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا»”عورتوں کے اولیاء، تم عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کرو“ اور سورۃ النور میں فرمایا «وأنكحوا الأيامى منكم»”جو عورتیں خاوند نہیں رکھتیں ان کا نکاح کر دو۔“
(مرفوع) قال يحيى بن سليمان، حدثنا ابن وهب، عن يونس. ح وحدثنا احمد بن صالح، حدثنا عنبسة، حدثنا يونس، عن ابن شهاب، قال:اخبرني عروة بن الزبير، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته،" ان النكاح في الجاهلية كان على اربعة انحاء: فنكاح منها نكاح الناس، اليوم يخطب الرجل إلى الرجل وليته او ابنته فيصدقها ثم ينكحها، ونكاح آخر كان الرجل يقول لامراته إذا طهرت من طمثها: ارسلي إلى فلان فاستبضعي منه، ويعتزلها زوجها ولا يمسها ابدا حتى يتبين حملها من ذلك الرجل الذي تستبضع منه، فإذا تبين حملها اصابها زوجها إذا احب، وإنما يفعل ذلك رغبة في نجابة الولد، فكان هذا النكاح نكاح الاستبضاع، ونكاح آخر يجتمع الرهط ما دون العشرة فيدخلون على المراة كلهم يصيبها فإذا حملت ووضعت ومر عليها ليال بعد ان تضع حملها ارسلت إليهم فلم يستطع رجل منهم ان يمتنع حتى يجتمعوا عندها تقول لهم قد عرفتم الذي كان من امركم وقد ولدت فهو ابنك يا فلان تسمي من احبت باسمه فيلحق به ولدها لا يستطيع ان يمتنع به الرجل، ونكاح الرابع يجتمع الناس الكثير فيدخلون على المراة لا تمتنع ممن جاءها وهن البغايا كن ينصبن على ابوابهن رايات تكون علما فمن ارادهن دخل عليهن فإذا حملت إحداهن ووضعت حملها جمعوا لها ودعوا لهم القافة ثم الحقوا ولدها بالذي يرون فالتاط به ودعي ابنه لا يمتنع من ذلك، فلما بعث محمد صلى الله عليه وسلم بالحق هدم نكاح الجاهلية كله إلا نكاح الناس اليوم".(مرفوع) قَالَ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ:أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ،" أَنَّ النِّكَاحَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْحَاءٍ: فَنِكَاحٌ مِنْهَا نِكَاحُ النَّاسِ، الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ أَوِ ابْنَتَهُ فَيُصْدِقُهَا ثُمَّ يَنْكِحُهَا، وَنِكَاحٌ آخَرُ كَانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا: أَرْسِلِي إِلَى فُلَانٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ، وَيَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا وَلَا يَمَسُّهَا أَبَدًا حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ، فَإِذَا تَبَيَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِذَا أَحَبَّ، وَإِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةِ الْوَلَدِ، فَكَانَ هَذَا النِّكَاحُ نِكَاحَ الِاسْتِبْضَاعِ، وَنِكَاحٌ آخَرُ يَجْتَمِعُ الرَّهْطُ مَا دُونَ الْعَشَرَةِ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ كُلُّهُمْ يُصِيبُهَا فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ وَمَرَّ عَلَيْهَا لَيَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَهَا أَرْسَلَتْ إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ يَمْتَنِعَ حَتَّى يَجْتَمِعُوا عِنْدَهَا تَقُولُ لَهُمْ قَدْ عَرَفْتُمُ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِكُمْ وَقَدْ وَلَدْتُ فَهُوَ ابْنُكَ يَا فُلَانُ تُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ بِاسْمِهِ فَيَلْحَقُ بِهِ وَلَدُهَا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَمْتَنِعَ بِهِ الرَّجُلُ، وَنِكَاحُ الرَّابِعِ يَجْتَمِعُ النَّاسُ الْكَثِيرُ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ لَا تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَهَا وَهُنَّ الْبَغَايَا كُنَّ يَنْصِبْنَ عَلَى أَبْوَابِهِنَّ رَايَاتٍ تَكُونُ عَلَمًا فَمَنْ أَرَادَهُنَّ دَخَلَ عَلَيْهِنَّ فَإِذَا حَمَلَتْ إِحْدَاهُنَّ وَوَضَعَتْ حَمْلَهَا جُمِعُوا لَهَا وَدَعَوْا لَهُمُ الْقَافَةَ ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَهَا بِالَّذِي يَرَوْنَ فَالْتَاطَ بِهِ وَدُعِيَ ابْنَهُ لَا يَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِكَ، فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ هَدَمَ نِكَاحَ الْجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ إِلَّا نِكَاحَ النَّاسِ الْيَوْمَ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح چار طرح ہوتے تھے۔ ایک صورت تو یہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کر لیتا۔ دوسرا نکاح یہ تھا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے جب وہ حیض سے پاک ہو جاتی تو کہتا تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کرا لے اس مدت میں شوہر اس سے جدا رہتا اور اسے چھوتا بھی نہیں۔ پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہو جاتا جس سے وہ عارضی طور پر صحبت کرتی رہتی، تو حمل کے ظاہر ہونے کے بعد اس کا شوہر اگر چاہتا تو اس سے صحبت کرتا۔ ایسا اس لیے کرتے تھے تاکہ ان کا لڑکا شریف اور عمدہ پیدا ہو۔ یہ نکاح ”استبضاع“ کہلاتا تھا۔ تیسری قسم نکاح کی یہ تھی کہ چند آدمی جو تعداد میں دس سے کم ہوتے کسی ایک عورت کے پاس آنا جانا رکھتے اور اس سے صحبت کرتے۔ پھر جب وہ عورت حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو وضع حمل پر چند دن گزرنے کے بعد وہ عورت اپنے ان تمام مردوں کو بلاتی۔ اس موقع پر ان میں سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ وہ سب اس عورت کے پاس جمع ہو جاتے اور وہ ان سے کہتی کہ جو تمہارا معاملہ تھا وہ تمہیں معلوم ہے اور اب میں نے یہ بچہ جنا ہے۔ پھر وہ کہتی کہ اے فلاں! یہ بچہ تمہارا ہے۔ وہ جس کا چاہتی نام لے دیتی اور وہ لڑکا اسی کا سمجھا جاتا، وہ شخص اس سے انکار کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ چوتھا نکاح اس طور پر تھا کہ بہت سے لوگ کسی عورت کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ عورت اپنے پاس کسی بھی آنے والے کو روکتی نہیں تھی۔ یہ کسبیاں ہوتی تھیں۔ اس طرح کی عورتیں اپنے دروازوں پر جھنڈے لگائے رہتی تھیں جو نشانی سمجھے جاتے تھے۔ جو بھی چاہتا ان کے پاس جاتا۔ اس طرح کی عورت جب حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو اس کے پاس آنے جانے والے جمع ہوتے اور کسی قیافہ جاننے والے کو بلاتے اور بچہ کا ناک نقشہ جس سے ملتا جلتا ہوتا اس عورت کے اس لڑکے کو اسی کے ساتھ منسوب کر دیتے اور وہ بچہ اسی کا بیٹا کہا جاتا، اس سے کوئی انکار نہیں کرتا تھا۔ پھر جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ رسول ہو کر تشریف لائے آپ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کو باطل قرار دے دیا صرف اس نکاح کو باقی رکھا جس کا آج کل رواج ہے۔
Narrated 'Urwa bin Az-Zubair: 'Aishah, the wife of the Prophet (saws) told him that there were four types of marriage during Pre-Islamic period of Ignorance. One type was similar to that of the present day i.e. a man used to ask somebody else for the hand of a girl under his guardianship or for his daughter's hand, and give her Mahr and then marry her. The second type was that a man would say to his wife after she had become clean from her period. "Send for so-and-so and have sexual intercourse with him." Her husband would then keep awy from her and would never sleep with her till she got pregnant from the other man with whom she was sleeping. When her pregnancy became evident, he husband would sleep with her if he wished. Her husband did so (i.e. let his wife sleep with some other man) so that he might have a child of noble breed. Such marriage was called as Al-Istibda'. Another type of marriage was that a group of less than ten men would assemble and enter upon a woman, and all of them would have sexual relation with her. If she became pregnant and delivered a child and some days had passed after delivery, she would sent for all of them and none of them would refuse to come, and when they all gathered before her, she would say to them, "You (all) know waht you have done, and now I have given birth to a child. So, it is your child so-and-so!" naming whoever she liked, and her child would follow him and he could not refuse to take him. The fourth type of marriage was that many people would enter upon a lady and she would never refuse anyone who came to her. Those were the prostitutes who used to fix flags at their doors as sign, and he who would wished, could have sexual intercourse with them. If anyone of them got pregnant and delivered a child, then all those men would be gathered for her and they would call the Qa'if (persons skilled in recognizing the likeness of a child to his father) to them and would let the child follow the man (whom they recognized as his father) and she would let him adhere to him and be called his son. The man would not refuse all that. But when Muhammad (saws) was sent with the Truth, he abolished all the types of marriages observed in pre-Islamic period of Ignorance except the type of marriage the people recognize today.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 58
(موقوف) حدثنا يحيى، حدثنا وكيع، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة وما يتلى عليكم في الكتاب في يتامى النساء اللاتي لا تؤتونهن ما كتب لهن وترغبون ان تنكحوهن سورة النساء آية 127، قالت: هذا في اليتيمة التي تكون عند الرجل لعلها ان تكون شريكته في ماله وهو اولى بها، فيرغب ان ينكحها، فيعضلها لمالها ولا ينكحها غيره كراهية ان يشركه احد في مالها".(موقوف) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127، قَالَتْ: هَذَا فِي الْيَتِيمَةِ الَّتِي تَكُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ لَعَلَّهَا أَنْ تَكُونَ شَرِيكَتَهُ فِي مَالِهِ وَهُوَ أَوْلَى بِهَا، فَيَرْغَبُ أَنْ يَنْكِحَهَا، فَيَعْضُلَهَا لِمَالِهَا وَلَا يُنْكِحَهَا غَيْرَهُ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَشْرَكَهُ أَحَدٌ فِي مَالِهَا".
ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آیت «وما يتلى عليكم في الكتاب في يتامى النساء اللاتي لا تؤتونهن ما كتب لهن وترغبون أن تنكحوهن» یعنی ”وہ (آیات بھی) جو تمہیں کتاب کے اندر ان یتیم لڑکوں کے بارے میں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں جنہیں تم وہ نہیں دیتے ہو جو ان کے لیے مقرر ہو چکا ہے اور اس سے بیزار ہو کہ ان کا کسی سے نکاح کرو۔“ ایسی یتیم لڑکی کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو کسی شخص کی پرورش میں ہو۔ ممکن ہے کہ اس کے مال و جائیداد میں بھی شریک ہو، وہی لڑکی کا زیادہ حقدار ہے لیکن وہ اس سے نکاح نہیں کرنا چاہتا البتہ اس کے مال کی وجہ سے اسے روکے رکھتا ہے اور کسی دوسرے مرد سے اس کی شادی نہیں ہونے دیتا کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا اس کے مال میں حصہ دار بنے۔
Narrated `Aisha: (as regards the Verse): 'And about what is recited unto you in the Book, concerning orphan girls to whom you give not the prescribed portions and yet, whom you desire to marry.' (4.127) This Verse is about the female orphan who is under the guardianship of a man with whom she shares her property and he has more right over her (than anybody else) but does not like to marry her, so he prevents her, from marrying somebody else, lest he should share the property with him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 59
(موقوف) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا هشام، اخبرنا معمر، حدثنا الزهري، قال: اخبرني سالم، ان ابن عمر اخبره،" ان عمر حين تايمت حفصة بنت عمر من ابن حذافة السهمي وكان من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم من اهل بدر توفي بالمدينة، فقال عمر: لقيت عثمان بن عفان فعرضت عليه، فقلت: إن شئت، انكحتك حفصة، فقال: سانظر في امري، فلبثت ليالي ثم لقيني، فقال: بدا لي ان لا اتزوج يومي هذا، قال عمر: فلقيت ابا بكر، فقلت: إن شئت انكحتك حفصة".(موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ،" أَنَّ عُمَرَ حِينَ تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ ابْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ تُوُفِّيَ بِالْمَدِينَةِ، فَقَالَ عُمَرُ: لَقِيتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ، أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ، فَقَالَ: سَأَنْظُرُ فِي أَمْرِي، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ ثُمَّ لَقِيَنِي، فَقَالَ: بَدَا لِي أَنْ لَا أَتَزَوَّجَ يَوْمِي هَذَا، قَالَ عُمَرُ: فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ جب حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما ابن حذافہ سہمی سے بیوہ ہوئیں۔ ابن حذافہ رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے اور بدر کی جنگ میں شریک تھے ان کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملا اور انہیں پیش کش کی اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ کا نکاح آپ سے کروں۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں اس معاملہ میں غور کروں گا چند دن میں نے انتظار کیا اس کے بعد وہ مجھ سے ملے اور کہا کہ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ابھی نکاح نہ کروں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ کا نکاح آپ سے کروں۔
Narrated `Abdullah bin `Umar: When Hafsa, `Umar's daughter became a widow because of the death of her (husband) Ibn Hudhafa As-Sahmi who was one of the companion of the Prophet and the one of the Badr warriors and died at Medina, `Umar said, "I met `Uthman bin `Affan and gave him an offer, saying, 'If you wish, I will marry Hafsa to you.' He said. 'I will think it over' I waited for a few days, then he met me and said, 'I have made up my mind not to marry at present' "`Umar added, "Then I met Abu Bakr and said to him, 'If you wish, I will marry Hafsa to you.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 60
(مرفوع) حدثنا احمد ابن ابي عمرو، قال: حدثني ابي، قال: حدثني إبراهيم، عن يونس، عن الحسن، فلا تعضلوهن سورة البقرة آية 232، قال: حدثني معقل بن يسار: انها نزلت فيه، قال:" زوجت اختا لي من رجل، فطلقها حتى إذا انقضت عدتها جاء يخطبها، فقلت له: زوجتك وفرشتك واكرمتك فطلقتها، ثم جئت تخطبها، لا والله لا تعود إليك ابدا، وكان رجلا لا باس به وكانت المراة تريد ان ترجع إليه، فانزل الله هذه الآية: فلا تعضلوهن سورة البقرة آية 232، فقلت: الآن افعل يا رسول الله، قال: فزوجها إياه".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، فَلا تَعْضُلُوهُنَّ سورة البقرة آية 232، قَالَ: حَدَّثَنِي مَعْقِلُ بْنُ يَسَارٍ: أَنَّهَا نَزَلَتْ فِيهِ، قَالَ:" زَوَّجْتُ أُخْتًا لِي مِنْ رَجُلٍ، فَطَلَّقَهَا حَتَّى إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا جَاءَ يَخْطُبُهَا، فَقُلْتُ لَهُ: زَوَّجْتُكَ وَفَرَشْتُكَ وَأَكْرَمْتُكَ فَطَلَّقْتَهَا، ثُمَّ جِئْتَ تَخْطُبُهَا، لَا وَاللَّهِ لَا تَعُودُ إِلَيْكَ أَبَدًا، وَكَانَ رَجُلًا لَا بَأْسَ بِهِ وَكَانَتِ الْمَرْأَةُ تُرِيدُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ: فَلا تَعْضُلُوهُنَّ سورة البقرة آية 232، فَقُلْتُ: الْآنَ أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَزَوَّجَهَا إِيَّاهُ".
ہم سے احمد بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد حفص بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے حسن بصری نے آیت «فلا تعضلوهن» کی تفسیر میں بیان کیا کہ مجھ سے معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی میں نے اپنی ایک بہن کا نکاح ایک شخص سے کر دیا تھا۔ اس نے اسے طلاق دے دی لیکن جب عدت پوری ہوئی تو وہ شخص (ابوالبداح) میری بہن سے پھر نکاح کا پیغام لے کر آیا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں نے تم سے اس کا (اپنی بہن) کا نکاح کیا اسے تمہاری بیوی بنایا اور تمہیں عزت دی لیکن تم نے اسے طلاق دیدی اور اب پھر تم نکاح کا پیغام لے کر آئے ہو۔ ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اب میں تمہیں کبھی اسے نہیں دوں گا۔ وہ شخص ابوالبداح کچھ برا آدمی نہ تھا اور عورت بھی اس کے یہاں واپس جانا چاہتی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «فلا تعضلوهن» کہ ”تم عورتوں کو مت روکو“ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اب میں کر دوں گا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے اپنی بہن کا نکاح اس شخص سے کر دیا۔
Narrated Al-Hasan: concerning the Verse: 'Do not prevent them' (2.232) Ma'qil bin Yasar told me that it was revealed in his connection. He said, "I married my sister to a man and he divorced her, and when her days of 'Idda (three menstrual periods) were over, the man came again and asked for her hand, but I said to him, 'I married her to you and made her your bed (your wife) and favored you with her, but you divorced her. Now you come to ask for her hand again? No, by Allah, she will never go back to you (again)!' That man was not a bad man and his wife wanted to go back to him. So Allah revealed this Verse: 'Do not prevent them.' (2.232) So I said, 'Now I will do it (let her go back to him), O Allah's Apostle."So he married her to him again.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 61