(مرفوع) حدثنا احمد ابن ابي عمرو، قال: حدثني ابي، قال: حدثني إبراهيم، عن يونس، عن الحسن، فلا تعضلوهن سورة البقرة آية 232، قال: حدثني معقل بن يسار: انها نزلت فيه، قال:" زوجت اختا لي من رجل، فطلقها حتى إذا انقضت عدتها جاء يخطبها، فقلت له: زوجتك وفرشتك واكرمتك فطلقتها، ثم جئت تخطبها، لا والله لا تعود إليك ابدا، وكان رجلا لا باس به وكانت المراة تريد ان ترجع إليه، فانزل الله هذه الآية: فلا تعضلوهن سورة البقرة آية 232، فقلت: الآن افعل يا رسول الله، قال: فزوجها إياه".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، فَلا تَعْضُلُوهُنَّ سورة البقرة آية 232، قَالَ: حَدَّثَنِي مَعْقِلُ بْنُ يَسَارٍ: أَنَّهَا نَزَلَتْ فِيهِ، قَالَ:" زَوَّجْتُ أُخْتًا لِي مِنْ رَجُلٍ، فَطَلَّقَهَا حَتَّى إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا جَاءَ يَخْطُبُهَا، فَقُلْتُ لَهُ: زَوَّجْتُكَ وَفَرَشْتُكَ وَأَكْرَمْتُكَ فَطَلَّقْتَهَا، ثُمَّ جِئْتَ تَخْطُبُهَا، لَا وَاللَّهِ لَا تَعُودُ إِلَيْكَ أَبَدًا، وَكَانَ رَجُلًا لَا بَأْسَ بِهِ وَكَانَتِ الْمَرْأَةُ تُرِيدُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ: فَلا تَعْضُلُوهُنَّ سورة البقرة آية 232، فَقُلْتُ: الْآنَ أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَزَوَّجَهَا إِيَّاهُ".
ہم سے احمد بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد حفص بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے حسن بصری نے آیت «فلا تعضلوهن» کی تفسیر میں بیان کیا کہ مجھ سے معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی میں نے اپنی ایک بہن کا نکاح ایک شخص سے کر دیا تھا۔ اس نے اسے طلاق دے دی لیکن جب عدت پوری ہوئی تو وہ شخص (ابوالبداح) میری بہن سے پھر نکاح کا پیغام لے کر آیا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں نے تم سے اس کا (اپنی بہن) کا نکاح کیا اسے تمہاری بیوی بنایا اور تمہیں عزت دی لیکن تم نے اسے طلاق دیدی اور اب پھر تم نکاح کا پیغام لے کر آئے ہو۔ ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اب میں تمہیں کبھی اسے نہیں دوں گا۔ وہ شخص ابوالبداح کچھ برا آدمی نہ تھا اور عورت بھی اس کے یہاں واپس جانا چاہتی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «فلا تعضلوهن» کہ ”تم عورتوں کو مت روکو“ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اب میں کر دوں گا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے اپنی بہن کا نکاح اس شخص سے کر دیا۔
Narrated Al-Hasan: concerning the Verse: 'Do not prevent them' (2.232) Ma'qil bin Yasar told me that it was revealed in his connection. He said, "I married my sister to a man and he divorced her, and when her days of 'Idda (three menstrual periods) were over, the man came again and asked for her hand, but I said to him, 'I married her to you and made her your bed (your wife) and favored you with her, but you divorced her. Now you come to ask for her hand again? No, by Allah, she will never go back to you (again)!' That man was not a bad man and his wife wanted to go back to him. So Allah revealed this Verse: 'Do not prevent them.' (2.232) So I said, 'Now I will do it (let her go back to him), O Allah's Apostle."So he married her to him again.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 61
زوجت أختا لي من رجل فطلقها ثم تركها حتى إذا انقضت عدتها خطبها فقلت زوجتك وفرشتك وأكرمتك فطلقتها ثم جئت تخطبها فلا والله تعود إليك أبدا قال وكان رجلا لا بأس به وكانت تريد أن ترجع إليه فأنزل الله هذه الآية فقلت الآن أفعل يا رسول الله فزوجتها إياه
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5130
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے بھی باب کا مطلب ثابت ہوا۔ کیو نکہ معقل نے اپنی بہن کا دوبارہ نکاح ابو البداح سے نہ ہونے دیا حالانکہ بہن چاہتی تھی تو معلوم ہوا کہ نکاح ولی کے اختیار میں ہے۔ بمقتضائے عقل بھی ہے کہ عورت کو کلی طور پر آزاد نہ چھوڑا جائے اسی لئے شادی بیاہ میں بہت سے مصالح کے تحت ولی کا ہونا لازم قرار پایا۔ جو لوگ ولی کا ہونا بطور شرط نہیں مانتے ان کا قول غلط ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5130
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5130
حدیث حاشیہ: (1) پوری آیت اس طرح ہے: ”اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو تم انھیں اس سے نہ روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کر لیں، بشرطیکہ وہ آپس میں اچھے اور جائز طریقے سے راضی ہو جائیں۔ “ اس آیت کریمہ میں اگرچہ نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف ہے لیکن اس سے سرپرست کا حق ولایت ختم نہیں ہوتا بلکہ اس کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم ان کے نکاح میں رکاوٹ نہ بنو۔ اگر ان کا اختیار نہیں ہے تو انھیں رکاوٹ بننے کا کیا حق ہے؟ عقل کا بھی تقاضا ہے کہ عورت کو کلی طور پر آزاد نہ چھوڑا جائے، اس لیے نکاح کے معاملات میں بہت مصالح کے پیش نظر ولی کی اجازت لازمی قرار دی گئی ہے۔ جو لوگ ولی کا ہونا بطور شرط تسلیم نہیں کرتے ان کا موقف انتہائی محل نظر ہے۔ (2) در حقیقت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اعتدال اور عدل و انصاف قائم کیا جائے لیکن ہمارے مجتہدین کرام نے ایک طرف تو بالغہ کو مطلق العنان کر دیا کہ وہ جب چاہے جس سے چاہے اپنا نکاح کرے، اسے کسی سرپرست کی ضرورت نہیں۔ اور دوسری طرف یہ اندھیرنگری کہ اگر کوئی شخص دھوکے سے ایجاب و قبول کے الفاظ عورت سے کہلوائے جنھیں وہ سمجھتی ہو تو وہ بھی قید نکاح میں آ جائے گی اور اسے اس سے گلو خلاصی کا کوئی اختیار نہیں۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس افراط و تفریق کے درمیان اعتدال کا پہلو اختیار کیا ہے اور اس اعتدال کو احادیث سے ثابت کیا۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ استنباط مسائل میں لوگوں کی مصلحتوں پر گہری نظر رکھتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ نصوص کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ آگے چل کر ایک دوسرا عنوان ان الفاظ سے قائم کرتے ہیں: (باب: لا ينكح الأب وغيره البكر و الثيب إلا برضاهما) ”باپ یا اس کے علاوہ کوئی دوسرا شخص کسی کنواری یا شوہر دیدہ کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر نہیں کرسکتا۔ “ ان دونوں ابواب سے مقصود یہ ہے کہ نہ تو عورت مطلق العنان ہے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے اپنی شادی رچا لے اور نہ وہ اس قدر مجبور و مقہور ہی ہے کہ اس کا سرپرست جب چاہے جس سے چاہے اس کا نکاح کردے اور وہ مجبور ہو کر خاموش رہے بلکہ اس کی وضاحت کے لیے انھوں نے ایک مزید عنوان ان الفاظ سے قائم کیا ہے: (باب إذا زوج الرجل ابنته وهي كارهة فنكاحه مردود) ”جب باپ اپنی بیٹی کا نکاح زبردستی کر دے جبکہ بیٹی اسے ناپسند کرتی ہو تو ایسا نکاح مردود ہے۔ “
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5130