حدثنا موسى بن الحسن الكسائي الابلي ، حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، قال: انشا عمر بن الخطاب يحدثنا" عن اهل بدر، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كان يرينا مصارع اهل بدر بالامس من بدر، يقول: هذا مصرع فلان غدا، وهذا مصرع فلان غدا إن شاء الله، قال عمر: فوالذي بعثه بالحق، ما اخطاوا الحدود التي حدها رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، فجعلوا في بئر بعضهم على بعض، فانطلق رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حتى انتهى إليهم، فقال: يا فلان بن فلان، ويا فلان بن فلان، هل وجدتم ما وعدكم الله ورسوله حقا؟، فإني قد وجدت ما وعدني الله حقا، فقال عمر: يا رسول الله، كيف تكلم اجسادا لا ارواح فيها؟، فقال: ما انتم باسمع لما اقول منهم غير انهم لا يستطيعون ان يردوا شيئا"، لا يروى هذا الحديث عن عمر، إلا بهذا الإسناد، تفرد به سليمان بن المغيرةحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ الْحَسَنِ الْكِسَائِيُّ الأُبُلِّيُّ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: أَنْشَأَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يُحَدِّثُنَا" عَنْ أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُرِينَا مَصَارِعَ أَهْلِ بَدْرٍ بِالأَمْسِ مِنْ بَدْرٍ، يَقُولُ: هَذَا مَصْرَعُ فُلانٍ غَدًا، وَهَذَا مَصْرَعُ فُلانٍ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ عُمَرُ: فَوَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ، مَا أَخْطَأُوا الْحُدُودَ الَّتِي حَدَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، فَجُعِلُوا فِي بِئْرٍ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَهَى إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: يَا فُلانُ بْنَ فُلانٍ، وَيَا فُلانُ بْنَ فُلانٍ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ حَقًّا؟، فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي اللَّهُ حَقًّا، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تُكَلِّمُ أَجْسَادًا لا أَرْوَاحَ فِيهَا؟، فَقَالَ: مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ غَيْرَ أَنَّهُمْ لا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَرُدُّوا شَيْئًا"، لا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عُمَرَ، إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اہلِ بدر کے متعلق بیان کرنے لگے، چنانچہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اہلِ بدر کے بچھڑنے کی جگہیں ایک دن پہلے ہی بتانے لگے، اور فرمایا: ”یہاں پر فلاں کافر گرے گا، یہاں پر فلاں گرے گا۔“، اور فرمایا: ”یہاں پر فلاں کافر گرے گا، یہاں پر فلاں گرے گا۔“ پھر اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا، وہ اس حد سے نہیں گزرے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گرنے کی بتائی تھی، پھر وہ اوپر نیچے کر کے ایک کنوئیں میں ڈال دیے گئے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف گئے اور فرمانے لگے: ”اے فلاں بن فلاں شخص! اے فلاں بن فلاں شخص! کیا جو کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے تم سے وعدہ کیا تھا وہ تم نے سچا پا لیا ہے؟ میں نے تو وہ وعدہ جو مجھ سے میرے اللہ نے کیا تھا، سچا پا لیا“۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! آپ کس طرح ایسے اجسام سے باتیں کر رہے ہیں جن میں زندگی ہی نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جو کہہ رہا ہوں وہ تم سے زیادہ یہ سن رہے ہیں۔ صرف اتنی بات ہے کہ یہ جواب نہیں دے سکتے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2873، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2074، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2212، وأحمد فى «مسنده» برقم: 184، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 40، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 140، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 37864، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 8453، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1085»