حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا الفزاري، عن عبد الرحمن بن زياد بن انعم الإفريقي قال: حدثني ابي، انهم كانوا غزاة في البحر زمن معاوية، فانضم مركبنا إلى مركب ابي ايوب الانصاري، فلما حضر غداؤنا ارسلنا إليه، فاتانا فقال: دعوتموني وانا صائم، فلم يكن لي بد من ان اجيبكم، لاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”إن للمسلم على اخيه ست خصال واجبة، إن ترك منها شيئا فقد ترك حقا واجبا لاخيه عليه: يسلم عليه إذا لقيه، ويجيبه إذا دعاه، ويشمته إذا عطس، ويعوده إذا مرض، ويحضره إذا مات، وينصحه إذا استنصحه“، قال: وكان معنا رجل مزاح، يقول لرجل اصاب طعامنا: جزاك الله خيرا وبرا، فغضب عليه حين اكثر عليه، فقال لابي ايوب: ما ترى في رجل إذا قلت له: جزاك الله خيرا وبرا، غضب وشتمني؟ فقال ابو ايوب: إنا كنا نقول: إن من لم يصلحه الخير اصلحه الشر، فاقلب عليه، فقال له حين اتاه: جزاك الله شرا وعرا، فضحك ورضي، وقال: ما تدع مزاحك، فقال الرجل: جزى الله ابا ايوب الانصاري خيرا.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ الإِفْرِيقِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُمْ كَانُوا غُزَاةً فِي الْبَحْرِ زَمَنَ مُعَاوِيَةَ، فَانْضَمَّ مَرْكَبُنَا إِلَى مَرْكَبِ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، فَلَمَّا حَضَرَ غَدَاؤُنَا أَرْسَلْنَا إِلَيْهِ، فَأَتَانَا فَقَالَ: دَعَوْتُمُونِي وَأَنَا صَائِمٌ، فَلَمْ يَكُنْ لِي بُدٌّ مِنْ أَنْ أُجِيبَكُمْ، لأَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ”إِنَّ لِلْمُسْلِمِ عَلَى أَخِيهِ سِتَّ خِصَالٍ وَاجِبَةٍ، إِنْ تَرَكَ مِنْهَا شَيْئًا فَقَدْ تَرَكَ حَقًّا وَاجِبًا لأَخِيهِ عَلَيْهِ: يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَحْضُرُهُ إِذَا مَاتَ، وَيَنْصَحُهُ إِذَا اسْتَنْصَحَهُ“، قَالَ: وَكَانَ مَعَنَا رَجُلٌ مَزَّاحٌ، يَقُولُ لِرَجُلٍ أَصَابَ طَعَامَنَا: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا وَبِرًّا، فَغَضِبَ عَلَيْهِ حِينَ أَكْثَرَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لأَبِي أَيُّوبَ: مَا تَرَى فِي رَجُلٍ إِذَا قُلْتُ لَهُ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا وَبِرًّا، غَضِبَ وَشَتَمَنِي؟ فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ: إِنَّا كُنَّا نَقُولُ: إِنَّ مَنْ لَمْ يُصْلِحْهُ الْخَيْرُ أَصْلَحْهُ الشَّرُّ، فَاقْلِبْ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ حِينَ أَتَاهُ: جَزَاكَ اللَّهُ شَرًّا وَعَرًّا، فَضَحِكَ وَرَضِيَ، وَقَالَ: مَا تَدَعُ مُزَاحَكَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: جَزَى اللَّهُ أَبَا أَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ خَيْرًا.
زیاد بن انعم افریقی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں وہ ایک سمندری غزوے میں شریک تھے کہ ہماری کشتی سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی کشتی سے مل گئی۔ جب ہمارے کھانے کا وقت ہوا تو ہم نے انہیں بھی کھانے کے لیے بلایا، تو وہ تشریف لے آئے اور کہا: تم نے مجھے دعوت دی جبکہ میں روزے سے ہوں، اور تمہاری دعوت قبول کیے بغیر میرے لیے کوئی چارہ بھی نہیں، کیونکہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق واجب ہیں۔ اگر وہ ان میں سے کوئی چیز چھوڑ دے تو اس نے واجب حق چھوڑا ہے جو اس کے بھائی کا اس کے ذمے تھا۔ جب وہ اس سے ملے تو سلام کرے، جب وہ اسے دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرے، جب اسے چھینک آئے تو اس کی چھینک کا جواب دے، جب وہ بیمار ہوتو اس کی تیمار داری کرے، جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں حاضر ہو اور جب وہ اس سے نصیحت طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرے۔“ راوی کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایک نہایت مزاحیہ شخص تھا، اس نے ہمارے ساتھ کھانے والے ایک شخص سے کہا: جزاك الله خيرًا و برًا، چنانچہ جب اس نے زیادہ مزاح کیا تو وہ غصے ہو گیا۔ اس مزاحیہ شخص نے سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ دیکھتے ہیں کہ اس شخص کو جزاك الله خيرًا وبرًا کہتا ہوں تو یہ غصے ہو جاتا ہے اور برا بھلا کہتا ہے۔ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم کہتے ہیں کہ جسے بھلائی نہ سنوارے اسے برائی سنوار دیتی ہے، لہٰذا جملہ بدل دو، چنانچہ جب وہ آدمی اس کے پاس آیا تو اس نے کہا: جزاك الله شرًا وعرًا (اللہ تجھے برا اور تنگی کا بدلہ دے)، چنانچہ وہ ہنس پڑا اور راضی ہو گیا اور کہا: تم اپنا مذاق چھوڑنے والے نہیں ہو۔ اس آدمی نے کہا: الله ابوایوب انصاری کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه الحارث فى مسنده كما فى البغية: 910 و الطبراني فى الكبير: 4076»
حدثنا علي بن عبد الله، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثنا عبد الحميد بن جعفر قال: حدثني ابي، عن حكيم بن افلح، عن ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”اربع للمسلم على المسلم: يعوده إذا مرض، ويشهده إذا مات، ويجيبه إذا دعاه، ويشمته إذا عطس.“حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”أَرْبَعٌ لِلْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ: يَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَشْهَدُهُ إِذَا مَاتَ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ.“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے مسلمان پر چار حق ہیں: جب وہ بیمار ہو تو اس کی تیمار داری کرے، جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو، جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرے، اور جب اسے چھینک آئے تو اس کا جواب دے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن ماجه، كتاب الجنائز، باب ماجاء فى عيادة المريض: 1434 - أنظر الصحيحة: 2154»
حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا ابو الاحوص، عن اشعث، عن معاوية بن سويد، عن البراء بن عازب قال: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بسبع، ونهانا عن سبع: امرنا بعيادة المريض، واتباع الجنائز، وتشميت العاطس، وإبرار المقسم، ونصر المظلوم، وإفشاء السلام، وإجابة الداعي. ونهانا عن: خواتيم الذهب، وعن آنية الفضة، وعن المياثر، والقسية، والإستبرق، والديباج، والحرير.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ، وَنَهَانَا عَنْ سَبْعٍ: أَمَرَنَا بِعِيَادَةِ الْمَرِيضِ، وَاتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ، وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ، وَإِبْرَارِ الْمُقْسِمِ، وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ، وَإِفْشَاءِ السَّلاَمِ، وَإِجَابَةِ الدَّاعِي. وَنَهَانَا عَنْ: خَوَاتِيمِ الذَّهَبِ، وَعَنْ آنِيَةِ الْفِضَّةِ، وَعَنِ الْمَيَاثِرِ، وَالْقَسِّيَّةِ، وَالإِسْتَبْرَقِ، وَالدِّيبَاجِ، وَالْحَرِيرِ.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات باتوں سے منع فرمایا۔ ہمیں مریض کی عیادت کرنے، جنازوں میں شرکت کرنے، چھینک والے کو جواب دینے، قسم دینے والے کی قسم پوری کرنے، مظلوم کی مدد کرنے، سلام عام کرنے، اور دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول کرنے کا حکم دیا۔ اور ہمیں سونے کی انگوٹھیوں، چاندی کے برتنوں، سرخ ریشمی گدوں، قس (علاقہ) کے ریشمی کپڑے، استبرق (موٹے ریشم)، باریک ریشم اور خالص ریشم کے استعمال سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الجنائز، باب الأمر باتباع الجنائز: 1239، 5175 و مسلم: 2066 و الترمذي: 2809 و النسائي: 1939»
وعن إسماعيل بن جعفر، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”حق المسلم على المسلم ست“، قيل: ما هي يا رسول الله؟ قال: ”إذا لقيته فسلم عليه، وإذا دعاك فاجبه، وإذا استنصحك فانصح له، وإذا عطس فحمد الله فشمته، وإذا مرض تعوده، وإذا مات فاتبعه.“وَعَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلاَءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ“، قِيلَ: مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: ”إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَشَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ تَعُودُهُ، وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں۔“ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کون کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اس سے ملو تو اسے سلام کرو، جب وہ تمہیں دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو، جب تم سے نصیحت طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرو، جب اسے چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو اس کی چھینک کا جواب دو، جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کرو اور جب مرجائے تو اس کا جنازہ پڑھو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب السلام، باب من حق المسلم للمسلم رد السلام: 2162 - الصحيحة: 1832»