وعن إسماعيل بن جعفر، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”حق المسلم على المسلم ست“، قيل: ما هي يا رسول الله؟ قال: ”إذا لقيته فسلم عليه، وإذا دعاك فاجبه، وإذا استنصحك فانصح له، وإذا عطس فحمد الله فشمته، وإذا مرض تعوده، وإذا مات فاتبعه.“وَعَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلاَءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ“، قِيلَ: مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: ”إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَشَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ تَعُودُهُ، وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں۔“ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کون کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اس سے ملو تو اسے سلام کرو، جب وہ تمہیں دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو، جب تم سے نصیحت طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرو، جب اسے چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو اس کی چھینک کا جواب دو، جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کرو اور جب مرجائے تو اس کا جنازہ پڑھو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب السلام، باب من حق المسلم للمسلم رد السلام: 2162 - الصحيحة: 1832»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 925
فوائد ومسائل: اس روایت میں صراحت ہے کہ چھینک لینے والا اگر الحمد للہ کہے تو اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ ”مسلمان کے مسلمان کے ذمہ چھ حقوق ہیں“ اس سے ان کا وجوب واضح ہوتا ہے۔ پھر اس جگہ زیادہ تر امر کے صیغے آ رہے ہیں اور امر کا اصل یہ ہے کہ اس سے وجوب ثابت ہوتا ہے۔ ہاں قرینہ صارفہ ہو تو الگ بات ہے اور اس جگہ ایسا کوئی قرینہ نہیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 925