آغار تخلیق کا بیان निर्माण के बारे में ابلیس اور اس کے لشکر کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا (اس کا اثر یہ ہوا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوتا تھا کہ ایک کام کیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نہ کیا ہوتا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن دعا کی اور (بہت) دعا کی۔ اس کے بعد (مجھ سے) فرمایا: ”تم کو معلوم ہے کہ اللہ نے مجھے وہ بات بتا دی جس میں میری شفاء ہے۔ دو آدمی میرے پاس آئے، ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس پیٹھ گیا۔ پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ اس شخص کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے۔ اس نے پوچھا کہ کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ دوسرے نے کہا کہ لبید بن اعصم (یہودی) نے۔ اس نے پوچھا کہ کس چیز میں؟ دوسرے نے کہا کہ کنگھی میں اور بالوں میں اور نر کھجور کے خوشے کے اوپر والے چھلکے میں۔ اس نے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ذروان (نامی) کنویں میں۔“ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے۔ جب وہاں سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”اس (کنویں) کے (قریب والے) درخت گویا کہ شیاطین کے سر ہیں۔“ (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ) میں نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نکلوا لیا؟ فرمایا کہ نہیں۔ اللہ نے تو مجھے شفاء دے دی اور (اس کے نکلوانے میں) مجھے یہ خیال ہوا کہ لوگوں میں فساد پھیلے گا (اور جادو کا چرچا زیادہ ہو جائے گا) اس کے بعد وہ کنواں بند کر دیا گیا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے (یعنی وسوسہ ڈالتا ہے) کہ یہ کس نے پیدا کیا ہے؟ وہ کس نے پیدا کیا ہے؟ آخر میں کہتا ہے کہ بتاؤ تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا ہے؟ پس جب یہاں تک نوبت پہنچ جائے تو وہ شخص اعوذ باﷲ پڑھے اور شیطانی خیال چھوڑ دے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرماتے تھے کہ فتنہ و فساد اسی طرف سے نکلے گا، فتنہ و فساد اسی طرف سے نکلے گا جہاں سے شیطان کے سر کا کونا نکلتا ہے۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رات کا اندھیرا چھا جائے تو تم اپنے بچوں کو گھر میں روک لو کیونکہ اس وقت شیاطین پھیل جاتے ہیں۔ جب عشاء کے وقت میں سے ایک گھڑی گزر جائے تو اس وقت بچوں کو چھوڑ دو (چلیں پھریں) اور بسم اللہ کہہ کر اپنا دروازہ بند کر لو اور بسم اللہ کہہ کر اپنا چراغ بجھا دو (یعنی ہر طرح کی آگ بجھا دو) پانی کا برتن (صراحی، کولر، زمین دوز ٹینک وغیرہ) بسم اللہ کہہ کر ڈھانک دو اگر ڈھانکنے کے لیے کوئی چیز نہ ملے تو کوئی لکڑی وغیرہ اس کے اوپر رکھ دو۔“
سیدنا سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور دو آدمی باہم گالی گلوچ کر رہے تھے۔ ایک کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور رگیں پھول گئیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایک ایسی دعا جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص پڑھے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے گا، اگر یہ کہہ دے اعوذ بااللہ من الشیطان الرجیم تو اس کا غصہ جاتا رہے۔“ تو لوگوں نے اس شخص سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے اس لیے تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ! اس نے کہا: ”کیا مجھے جنون ہے۔“ (جو میں شیطان سے پناہ مانگوں؟) (شاید یہ شخص جاہل گنوار تھا یا منافق اس لیے یہ بات نہ مانی)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمائی شیطان (کی حرکات میں) سے ہے پس جب تم میں سے کسی کو جمائی (انگڑائی) آئے تو وہ حتیٰ الامکان اس کو روکے کیونکہ جب تم میں سے کوئی شخص (جمائی لیتے وقت) ”ہا“ کہتا ہے تو شیطان ہنستا ہے۔“
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمدہ خواب اللہ کی طرف سے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے پس جب تم میں سے کسی کو برا خواب آئے (نظر آئے) جس سے وہ ڈر جائے تو (جاگتے ہی) اپنی بائیں طرف تھوکے اور اس کی برائی سے اللہ کی پناہ مانگے، پس وہ (خواب) اسے کچھ نقصان نہ پہنچائے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”جب کوئی تم میں سے سو کر جاگے اور وضو کرے تو تین بار ناک جھاڑے، کیونکہ شیطان رات کو ناک کے بانسے (چوٹی) پر رہتا ہے۔“
|