آغار تخلیق کا بیان निर्माण के बारे में اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الروم میں) فرمانا ”وہی ہے جو پہلی بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا“۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی تمیم کے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے بنی تمیم (کے لوگو)! خوش ہو جاؤ۔“ انھوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بشارت دی اب (کچھ مال بھی) ہمیں دیجئیے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن کے لوگ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اہل یمن! تم بشارت کو قبول کرو کیونکہ اس کو بنی تمیم (کے لوگوں) نے قبول نہیں کیا۔“ انھوں نے کہا کہ ہم نے قبول کیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائے آفرینش اور عرش کی باتیں کرنے لگے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے (مجھ سے) کہا کہ اے عمران! تمہاری اونٹنی کھل گئی ہے (اس کو جا کر پکڑو۔ میں اٹھ کر چلا گیا مگر میرے دل میں یہ حسرت رہ گئی کہ) کاش میں نہ اٹھتا۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ایک روایت میں کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تھا اور اس کے سوا کچھ نہ تھا اور اس کا عرش پانی پر تھا اور لوح محفوظ میں اس نے ہر چیز لکھ دی تھی اور اس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ....۔“ پھر ایک شخص نے آواز دی کہ اے ابن حصین! تمہاری اونٹنی کھل گئی تو میں چلا گیا مگر وہ اونٹنی اب سراب (یعنی وہ ریت جو دھوپ میں پانی کی طرح چمکتی ہے) سے آگے جا چکی تھی مگر اللہ کی قسم! میں یہ چاہتا تھا کہ کاش! میں اس اونٹنی کو چھوڑ دیتا اور وہاں سے نہ اٹھتا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے گالی دیتا ہے، اسے زیبا نہیں کر وہ مجھے گالی دے اور میری تکذیب کرتا ہے حالانکہ اسے زیبا نہیں۔ اس کا گالی دینا، اس کا یہ قول ہے۔ کہ اللہ کی اولاد ہے اور تکذیب، اس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ مجھے پھر زندہ نہ کرے گا جیسے اس نے مجھے پیدا کیا تھا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کر چکا تو اس نے اپنی کتاب میں لکھ دیا اور وہ کتاب اس کے پاس عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔“
|