بارش طلب کرنے کا بیان बारिश के लिए नमाज़ के बारे में نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بددعا دینا کہ یااللہ! ان پر ایسی قحط سالی ڈال جیسی یوسف (کے عہد) کی قحط سالی (تھی)۔ “ रसूल अल्लाह ﷺ ने बद-दुआ की, ए अल्लाह, उनपर यूसुफ़ अलैहिस्सलाम के समय जैसा अकाल डाल ”
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غریب مسلمانوں کے لیے دعائے نجات مانگتے اور (قبیلہ) مضر (کے کافروں) پر بددعا کرتے .... پہلے گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب: وتر کا بیان۔۔۔ باب: رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد قنوت کا پڑھنا) اور اس روایت میں کہتے ہیں کہ آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اے اللہ!) قبیلہ غفار کو معاف فرما دے اور اسلم (قبیلہ اسلم) کو سلامت رکھ۔ ”ابن ابوالزناد نے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے کہا یہ سب صبح کی نماز میں تھا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب (قبول دعوت اسلام سے) لوگوں کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو (اللہ سے) دعا کی: ”اے اللہ! (ان پر) سات برس (قحط ڈال دے) جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے (عہد میں) سات برس تک (مسلسل قحط رہا تھا)۔“ پس قحط نے انھیں آ لیا۔ جس نے ہر قسم کی روئیدگی کو نیست و نابود کر دیا حتیٰ کہ لوگوں نے کھالیں اور مردار اور سڑے جانور کھانا شروع کر دیئے اور بھوک کی وجہ سے (ضعف اس قدر ہو گیا کہ) جب کوئی ان میں سے آسمان کی طرف دیکھتا تو اس کو دھواں (سا) دکھائی دیتا۔ پس ابوسفیان (جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے محمد! آپ تو اللہ کی بندگی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور بیشک یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لوگ (ہیں جو مارے بھوک کے) مرے جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ان کے لیے دعا کیجئیے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے نبی! تم اس دن کا انتظار کرو جس دن آسمان ایک صریح دھواں ظاہر کرے گا اگر ہم ان کافروں سے عذاب دور کر دیں تو یہ پھر (بھی) کفر کریں گے اس کی سزا ان کو اسی دن ملے گی جس دن ہم ایک سخت گرفت میں ان کو پکڑیں گے۔“ (الدخان: 10 - 16) ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ بطشہ (یعنی پکڑ) بدر کے دن ہوئی اور بیشک (سورۃ الدخان میں) دخان (دھواں) اور بطشہ (پکڑ) اور (سورۃ الفرقان میں) لزام (قید) اور سورۃ الروم کی آیت میں جو ذکر ہے سب واقع ہو چکے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اکثر میں شاعر کے قول کو یاد کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ (مبارک) کی طرف دیکھتا تھا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (دعائے) استسقاء مانگتے ہوتے تھے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) نہ اترنے پاتے تھے کہ تمام پر نالے بہنے لگتے تھے (وہ قول شاعر کا یہ ہے): ”گورا ان کا رنگ، وہ حامی یتیموں بیواؤں کے۔ لوگ پانی مانگتے ہیں ان کے منہ کے صدقے سے“ اور یہ ابوطالب کا کلام ہے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب لوگ قحط زدہ ہوتے تو امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے بارش برسنے کی دعا مانگتے۔ کہتے کہ اے اللہ! (پہلے) ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دعائے استسقاء کیا کرتے تھے اور تو بارش برسا دیتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے ذریعے سے دعا کرتے ہیں پس (اب بھی) بارش برسا دے۔ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ بارش برسنے لگتی تھی۔
|