العلم والسنة والحديث النبوي علم سنت اور حدیث نبوی सुन्नतों की जानकारी और नबवी हदीसें اس امت کے اگلوں میں خیر اور پچھلوں میں شر ہے، جنت کے خواہش مندوں کو کس حالت میں موت آنی چاہیے؟ “ इस उम्मत के पहले लोगों में अच्छाई है और बाद में बुराई ، स्वर्ग की इच्छा करने वालों की मोत किस हालत में होनी चाहिए ? ”
سیدنا عبدالرحمن بن عبدرب کعبہ کہتے ہیں: میں مسجد الحرام میں داخل ہوا، وہاں کعبہ کے سائے میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ارد گرد لوگ جمع تھے، میں ان کے پاس آیا اور وہاں بیٹھ گیا۔ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا، کوئی اپنے خیمے کو درست کرنے لگ گیا، کوئی تیر اندازی میں مقابلہ کر رہا تھا اور کوئی جانوروں میں مصروف تھا، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان کرنے والے نے (لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے) یہ آواز دی: «الصلاة جامعة» ۔ سو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے پہلے ہر نبی پر حق تھا کہ اپنی امت کو ہر اس خیر و بھلائی کی تعلیم دے، جس کا اسے علم تھا اور اس کو ہر اس شر سے متنبہ کر دے، جس کا اس کو علم تھا، (میں یہی فریضہ ادا کرتے ہوئے کہوں گا کہ) تمہاری اس امت کے ابتدائی دور میں (سلامتی و) عافیت ہے، لیکن بعد والے دور میں (فرزندان امت) آزمائشوں اور ناپسندیدہ امور میں مبتلا ہو جائیں گے، فتنے نمودار ہوں گے اور (ہر بعد والا) فتنہ (اپنی شدت کی وجہ سے پہلے والے) فتنے کی سختی کو کم کر دے گا۔ ایک فتنہ ابھرے گا، اسے دیکھ کر مومن کہے گا: یہ میری ہلاکت گاہ ہو گی، لیکن وہ چھٹ جائے گا۔ دوسرا فتنہ ظاہر ہو گا، مومن اسے دیکھ کر کہے گا: یہ ہے (میری ہلاکت گاہ)، یہ ہے۔ (خلاصہ یہ ہے کہ) جو یہ چاہتا ہو گا کہ اسے جہنم سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں سے وہی معاملہ کرتا ہو، جو ان سے اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ جس نے کسی امام کی بیعت کی، اس کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا اور اس سے پکا عہد کیا اور دل سے اس سے محبت کی، تو وہ حسب استطاعت اس کی اطاعت کرے۔ اگر کوئی دوسرا (خلیفہ) اس سے اختلاف شروع کر کے (بغاوت شروع کر دے) تو اس دوسرے کا سر قلم کر دو۔“ میں (عبدالرحمن) ان کے قریب ہوا اور کہا: میں تجھے اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں! کیا تو نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے اپنے ہاتھوں کو اپنے کانوں اور دل کے ساتھ لگایا اور کہا: میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد کیا۔ میں نے کہا: یہ آپ کے چچا زاد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں، وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم لوگ اپنا مال باطل طریقے سے کھائیں اور اپنے آپ کو قتل کریں، جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ، مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے خرید و فروخت ہو اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقینا اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے۔“ (سورہ نسا: ۲۹) یہ سن کر وہ (عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ) خاموش ہو گئے اور پھر کہا: اگر وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے تو اس کی اطاعت کر اور اللہ کی نافرمانی کی صورت میں اس کی نافرمانی کر۔
|