كتاب الأمثال عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: مثل اور کہاوت کا تذکرہ 7. باب مَا جَاءَ فِي مَثَلِ ابْنِ آدَمَ وَأَجَلِهِ وَأَمَلِهِ باب: آدمی کی موت اور آرزو کی مثال۔
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو کنکریاں پھینکتے ہوئے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے اور یہ کیا ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو بہتر معلوم ہے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ امید (و آرزو) ہے اور یہ اجل (موت) ہے“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1950) (ضعیف) (سند میں بشیر بن مہاجر لین الحدیث راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ انسان کی آرزوئیں بہت ہیں ان آرزؤں کی تکمیل میں وہ سرگرداں رہتا ہے، اس کی بہت ساری امیدوں کی تکمیل ابھی باقی ہے اور اچانک موت اسے اپنے آہنی شکنجے میں دبوچ لیتی ہے، گویا انسان یہ کہتا ہے کہ موت سے قبل اپنی ساری آرزوئیں پوری کر لے گا جب کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (4 / 133)
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری مدت گزری ہوئی امتوں کے مقابل میں عصر سے مغرب تک کی درمیانی مدت کی طرح ہے (یعنی بہت مختصر تھوڑی) تمہاری مثال اور یہود و نصاریٰ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے کئی مزدور رکھے۔ اس نے کہا: میرے یہاں کون فی کس ایک قیراط پر دوپہر تک کام کرتا ہے؟ تو یہود نے ایک ایک قیراط پر کام کیا، پھر اس نے کہا: میرے یہاں کون مزدوری کرتا ہے دوپہر سے عصر تک فی کس ایک ایک قیراط پر؟ تو نصاریٰ نے ایک قیراط پر کام کیا۔ پھر تم (مسلمان) کام کرتے ہو عصر سے سورج ڈوبنے تک فی کس دو دو قیراط پر۔ (یہ دیکھ کر) یہود و نصاریٰ غصہ ہو گئے، انہوں نے کہا: ہمارا کام زیادہ ہے اور مزدوری تھوڑی ہے؟، اللہ نے فرمایا: کیا تمہارا حق کچھ کم کر کے میں نے تم پر ظلم کیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ تو اس نے کہا: یہ میرا فضل و انعام ہے میں جسے چاہوں دوں“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإجارة 9 (22669)، وأحادیث الأنبیاء 50 (3459)، وفضائل القرآن 17 (5021) (تحفة الأشراف: 7235)، و مسند احمد (2/6، 111) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر البخارى (312)
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ سو اونٹ کی طرح ہیں۔ آدمی ان میں سے ایک بھی سواری کے قابل نہیں پاتا“ ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 35 (6498)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 60 (2547)، سنن ابن ماجہ/الفتن 16 (3990) (تحفة الأشراف: 6945)، و مسند احمد (2/7، 44، 70، 109، 121، 122، 123، 130) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: اچھے لوگ بہت کم ملتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3990)
سفیان بن عیینہ زہری سے اسی سند سے اسی طرح روایت کرتے ہیں اور انہوں نے کہا: تم ان میں ایک بھی سواری کے قابل نہ پاؤ گے، یا یہ کہا: تم ان میں سے صرف ایک سواری کے قابل پا سکو گے۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 6835) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (2872)
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری اور میری امت کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے آگ جلائی تو مکھیاں اور پتنگے اس میں پڑنے لگے (یہی حال تمہارا اور ہمارا ہے) میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تمہیں بچا رہا ہوں اور تم ہو کہ اس میں (جہنم کی آگ میں) بلا سوچے سمجھے گھسے چلے جا رہے ہو“۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 40 (3426)، صحیح مسلم/الفضائل 6 (2284) (تحفة الأشراف: 13879)، و مسند احمد (2/361، 392) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الضعيفة تحت الحديث (3082)
|