كتاب الأمثال عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: مثل اور کہاوت کا تذکرہ 4. باب مَا جَاءَ فِي مَثَلِ الْمُؤْمِنِ الْقَارِئِ لِلْقُرْآنِ وَغَيْرِ الْقَارِئِ باب: قرآن پڑھنے والے اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال۔
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کی خوشبو بھی اچھی ہے اور ذائقہ و مزہ بھی اچھا ہے، اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اس کھجور کی سی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہے اور مزہ میٹھا ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے خوشبودار پودے کی ہے جس کی بو، مہک تو اچھی ہے مزہ کڑوا ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا ہے اندرائن (حنظل) (ایک کڑوا پھل) کی طرح ہے جس کی بو بھی اچھی نہیں اور مزہ بھی اچھا نہیں“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے شعبہ نے قتادہ سے بھی روایت کیا ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 17 (5020)، و 36 (5059)، والأطعمة 30 (5427)، التوحید 57 (7560)، صحیح مسلم/المسافرین (37 (797)، سنن ابی داود/ الأدب 19 (4830)، سنن النسائی/الإیمان 32 (5041)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 16 (214) (تحفة الأشراف: 8981)، و مسند احمد (397، 408) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے کلام کی اثر انگیزی انسان کے ظاہر و باطن دونوں میں پائی جاتی ہے اور انسان چونکہ مختلف اوصاف کے حامل ہوتے ہیں اس لیے قرآن کریم کا پورا پورا تاثیری فائدہ صرف اس بندے کو حاصل ہوتا ہے جو مومن ہونے کے ساتھ حافظ قرآن اور اس پر عمل کرنے والا ہو، ایسا مومن اللہ کے نزدیک خوش رنگ اور خوش ذائقہ پھل کی طرح مقبول ہے۔ اور کچھ بندے ایسے ہیں جن کا باطن قرآن سے مستفید ہوتا ہے لیکن ظاہر محروم رہتا ہے، یہ وہ مومن بندہ ہے جو قاری قرآن نہیں ہے، ایسا مومن اللہ کے نزدیک اس مزے دار پھل کی طرح ہے جس میں خوشبو نہیں ہوتی، اور کچھ بندے ایسے ہیں جن کا ظاہر قرآن پڑھنے کے سبب اچھا ہے لیکن باطن تاریک ہے، یہ قرآن پڑھنے والا منافق ہے، یہ اللہ کے نزدیک اس خوشبودار پودے کی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہے لیکن مزہ کڑوا ہے، اور کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں اس قرآن سے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا، یہ قرآن نہ پڑھنے والا منافق ہے، یہ اللہ کے نزدیک حنظلہ اندرائن (حنظل) کی طرح ہے جس میں نہ تو خوشبو ہے اور نہ ہی اس کا مزہ اچھا ہے، بلکہ کڑوا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح نقد الكتانى (43)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی مثال اس کھیتی کی سی ہے جسے ہوائیں (ادھر ادھر) ہلاتی رہتی ہیں۔ (ایسا ہی مومن ہے) مومن پر بلائیں برابر آتی رہتی ہیں، اور منافق کی مثال صنوبر (اشوک) کے درخت کی ہے، وہ اپنی جگہ سے ہلتا نہیں جب تک کہ کاٹ نہ دیا جائے“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المنافقین 14 (2809) (تحفة الأشراف: 13279) (وراجع ماعند صحیح البخاری/ في المرضی 1 (5644)، والتوحید 31 (7466)، و مسند احمد (2/234، 284، 523) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج إيمان ابن أبى شيبة (86)، الصحيحة (2883)
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کا پتا نہیں جھڑتا، یہ مومن کی مثال ہے تو مجھے بتاؤ یہ کون سا درخت ہے؟ عبداللہ کہتے ہیں: لوگ اسے جنگلوں کے درختوں میں ڈھونڈنے لگے، اور میرے دل میں آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کھجور ہے“، مجھے شرم آ گئی کہ میں (چھوٹا ہو کر بڑوں کے سامنے) بولوں (جب کہ لوگ خاموش ہیں) پھر میں نے (اپنے والد) عمر رضی الله عنہ کو وہ بات بتائی جو میرے دل میں آئی تھی، تو انہوں نے کہا (میرے بیٹے) اگر تم نے یہ بات بتا دی ہوتی تو یہ چیز مجھے اس سے زیادہ عزیز و محبوب ہوتی کہ میرے پاس اس اس طرح کا مال اور یہ یہ چیزیں ہوتیں“۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 4 (61)، و5 (72)، و 50 (131)، وتفسیر سورة ابراہیم 1 (4698)، والأدب 79 (6122)، و 89 (6144)، صحیح مسلم/المنافقین 15 (2811) (تحفة الأشراف: 7234)، و مسند احمد (2/31، 61) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|