(مرفوع) حدثنا علي بن حجر السعدي، حدثنا بقية بن الوليد، عن بحير بن سعد، عن خالد بن معدان، عن جبير بن نفير، عن النواس بن سمعان الكلابي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله ضرب مثلا صراطا مستقيما على كنفي الصراط داران لهما ابواب مفتحة، على الابواب ستور، وداع يدعو على راس الصراط، وداع يدعو فوقه والله يدعو إلى دار السلام ويهدي من يشاء إلى صراط مستقيم سورة يونس آية 25، والابواب التي على كنفي الصراط حدود الله، فلا يقع احد في حدود الله حتى يكشف الستر، والذي يدعو من فوقه واعظ ربه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، قال: سمعت عبد الله بن عبد الرحمن يقول، سمعت زكريا بن عدي، يقول، قال ابو إسحاق الفزاري: خذوا عن بقية ما حدثكم عن الثقات، ولا تاخذوا عن إسماعيل بن عياش ما حدثكم عن الثقات ولا غير الثقات.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْكِلَابِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ ضَرَبَ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا عَلَى كَنَفَيِ الصِّرَاطِ دَارَانِ لَهُمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ، عَلَى الْأَبْوَابِ سُتُورٌ، وَدَاعٍ يَدْعُو عَلَى رَأْسِ الصِّرَاطِ، وَدَاعٍ يَدْعُو فَوْقَهُ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلامِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ سورة يونس آية 25، وَالْأَبْوَابُ الَّتِي عَلَى كَنَفَيِ الصِّرَاطِ حُدُودُ اللَّهِ، فَلَا يَقَعُ أَحَدٌ فِي حُدُودِ اللَّهِ حَتَّى يُكْشَفَ السِّتْرُ، وَالَّذِي يَدْعُو مِنْ فَوْقِهِ وَاعِظُ رَبِّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ، سَمِعْتُ زَكَرِيَّا بْنَ عَدِيٍّ، يَقُولُ، قَالَ أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ: خُذُوا عَنْ بَقِيَّةَ مَا حَدَّثَكُمْ عَنِ الثِّقَاتِ، وَلَا تَأْخُذُوا عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَيَّاشٍ مَا حَدَّثَكُمْ عَنِ الثِّقَاتِ وَلَا غَيْرِ الثِّقَاتِ.
نواس بن سمعان کلابی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی مثال دی ہے، اس صراط مستقیم کے دونوں جانب دو گھر ہیں، ان گھروں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، دروازوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں، ایک پکارنے والا اس راستے کے سرے پر کھڑا پکار رہا ہے، اور دوسرا پکارنے والا اوپر سے پکار رہا ہے، (پھر آپ نے یہ آیت پڑھی) «والله يدعوا إلى دار السلام ويهدي من يشاء إلى صراط مستقيم»”اللہ تعالیٰ دارالسلام (جنت کی طرف) بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ”صراط مستقیم“ کی ہدایت دیتا ہے“، تو وہ دروازے جو صراط مستقیم کے دونوں جانب ہیں وہ حدود اللہ ہیں ۱؎ تو کوئی شخص جب تک پردہ کھول نہ دیا جائے، حدود اللہ میں داخل نہیں ہو سکتا اور اوپر سے پکارنے والا اس کے رب کا واعظ ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن کو سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے زکریا بن عدی کو سنا وہ کہتے تھے کہ ابواسحاق فزاری نے کہا: بقیہ (راوی) تم سے جو ثقہ راویوں کے ذریعہ روایت کریں اسے لے لو اور اسماعیل بن عیاش کی روایت نہ لو خواہ وہ ثقہ سے روایت کریں یا غیر ثقہ سے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی محرمات مثلاً زنا اور شراب وغیرہ، ان محرمات میں کوئی شخص اس وقت تک نہیں پڑ سکتا جب تک خود سے بڑھ کر ان کا ارتکاب نہ کرنے لگے، اور ارتکاب کرنے کے بعد اللہ کے عذاب و عقاب کا مستحق ہو جائے گا۔
۲؎: اس حدیث میں ”صراط مستقیم“ سے مراد اسلام ہے، اور ”کھلے ہوئے دروازوں“ سے مراد اللہ کے محارم ہیں اور ”لٹکے ہوئے پردے“ اللہ کی حدود ہیں، اور ”راستے کے سرے پر بلانے والا داعی“ قرآن ہے، اور ”اس کے اوپر سے پکار نے والا داعی“ مومن کا دل ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن خالد بن يزيد، عن سعيد بن ابي هلال، ان جابر بن عبد الله الانصاري، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فقال: " إني رايت في المنام كان جبريل عند راسي وميكائيل عند رجلي، يقول احدهما لصاحبه: اضرب له مثلا، فقال: اسمع سمعت اذنك، واعقل عقل قلبك، إنما مثلك ومثل امتك كمثل ملك اتخذ دارا، ثم بنى فيها بيتا، ثم جعل فيها مائدة، ثم بعث رسولا يدعو الناس إلى طعامه، فمنهم من اجاب الرسول، ومنهم من تركه، فالله هو الملك، والدار الإسلام، والبيت الجنة، وانت يا محمد رسول، فمن اجابك دخل الإسلام، ومن دخل الإسلام دخل الجنة، ومن دخل الجنة اكل ما فيها "، وقد روي هذا الحديث من غير وجه، عن النبي صلى الله عليه وسلم بإسناد اصح من هذا، قال ابو عيسى: هذا حديث مرسل سعيد بن ابي هلال لم يدرك جابر بن عبد الله، وفي الباب، عن ابن مسعود.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَقَالَ: " إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ جِبْرِيلَ عِنْدَ رَأْسِي وَمِيكَائِيلَ عِنْدَ رِجْلَيَّ، يَقُولُ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: اضْرِبْ لَهُ مَثَلًا، فَقَالَ: اسْمَعْ سَمِعَتْ أُذُنُكَ، وَاعْقِلْ عَقَلَ قَلْبُكَ، إِنَّمَا مَثَلُكَ وَمَثَلُ أُمَّتِكَ كَمَثَلِ مَلِكٍ اتَّخَذَ دَارًا، ثُمَّ بَنَى فِيهَا بَيْتًا، ثُمَّ جَعَلَ فِيهَا مَائِدَةً، ثُمَّ بَعَثَ رَسُولًا يَدْعُو النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ، فَمِنْهُمْ مَنْ أَجَابَ الرَّسُولَ، وَمِنْهُمْ مَنْ تَرَكَهُ، فَاللَّهُ هُوَ الْمَلِكُ، وَالدَّارُ الْإِسْلَامُ، وَالْبَيْتُ الْجَنَّةُ، وَأَنْتَ يَا مُحَمَّدُ رَسُولٌ، فَمَنْ أَجَابَكَ دَخَلَ الْإِسْلَامَ، وَمَنْ دَخَلَ الْإِسْلَامَ دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ دَخَلَ الْجَنَّةَ أَكَلَ مَا فِيهَا "، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِسْنَادٍ أَصَحَّ مِنْ هَذَا، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ سَعِيدُ بْنُ أَبِي هِلَالٍ لَمْ يُدْرِكْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَفِي الْبَابِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ.
جابر بن عبداللہ انصاری رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے پاس آئے اور فرمایا: ”میں نے خواب دیکھا ہے کہ جبرائیل میرے سر کے پاس ہیں اور میکائیل میرے پیروں کے پاس، ان دونوں میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی سے کہہ رہا تھا: ان کی کوئی مثال پیش کرو، تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: آپ سنیں، آپ کے کان ہمیشہ سنتے رہیں، آپ سمجھیں، آپ کا دل عقل (سمجھ، علم و حکمت) سے بھرا رہے۔ آپ کی مثال اور آپ کی امت کی مثال ایک ایسے بادشاہ کی ہے جس نے ایک شہر آباد کیا، اس شہر میں ایک گھر بنایا پھر ایک دستر خوان بچھایا، پھر قاصد کو بھیج کر لوگوں کو کھانے پر بلایا، تو کچھ لوگوں نے اس کی دعوت قبول کر لی اور کچھ لوگوں نے بلانے والے کی دعوت ٹھکرا دی (کچھ پرواہ ہی نہ کی) اس مثال میں یہ سمجھو کہ اللہ بادشاہ ہے، اور ”دار“ سے مراد اسلام ہے اور ”بیت“ سے مراد جنت ہے اور آپ اے محمد! رسول و قاصد ہیں۔ جس نے آپ کی دعوت قبول کر لی وہ اسلام میں داخل ہو گیا اور جو اسلام میں داخل ہو گیا وہ جنت میں داخل ہو گیا تو اس نے وہ سب کچھ کھایا جو جنت میں ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور وہ سندیں اس حدیث کی سند سے زیادہ صحیح ہیں، ۲- یہ مرسل حدیث ہے (یعنی منقطع ہے) ۳- سعید بن ابی ہلال نے جابر بن عبداللہ رضی الله عنہم کو نہیں پایا ہے، ۴- اس باب میں ابن مسعود رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے (جو آگے آ رہی ہے)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاعتصام 2 (تعلیقا عقب حدیث رقم 7281) (تحفة الأشراف: 2267) (صحیح) (سند میں سعید بن أبی ہلال، اور جابر کے درمیان انقطاع ہے، مگر دیگر سندوں سے یہ حدیث صحیح ہے، جیسے بخاری کی مذکورہ روایت)»
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن ابي عدي، عن جعفر بن ميمون، عن ابي تميمة الهجيمي، عن ابي عثمان، عن ابن مسعود، قال: " صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم العشاء ثم انصرف فاخذ بيد عبد الله بن مسعود حتى خرج به إلى بطحاء مكة، فاجلسه ثم خط عليه خطا، ثم قال: لا تبرحن خطك فإنه سينتهي إليك رجال فلا تكلمهم فإنهم لا يكلمونك، قال: ثم مضى رسول الله صلى الله عليه وسلم حيث اراد فبينا انا جالس في خطي إذ اتاني رجال كانهم الزط اشعارهم واجسامهم، لا ارى عورة، ولا ارى قشرا، وينتهون إلي ولا يجاوزون الخط، ثم يصدرون إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى إذا كان من آخر الليل لكن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد جاءني وانا جالس، فقال: لقد اراني منذ الليلة، ثم دخل علي في خطي، فتوسد فخذي، فرقد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رقد نفخ، فبينا انا قاعد ورسول الله صلى الله عليه وسلم متوسد فخذي، إذا انا برجال عليهم ثياب بيض الله اعلم ما بهم من الجمال، فانتهوا إلي، فجلس طائفة منهم عند راس رسول الله صلى الله عليه وسلم، وطائفة منهم عند رجليه، ثم قالوا بينهم: ما راينا عبدا قط اوتي مثل ما اوتي هذا النبي، إن عينيه تنامان وقلبه يقظان اضربوا له مثلا، مثل سيد بنى قصرا، ثم جعل مادبة، فدعا الناس إلى طعامه وشرابه، فمن اجابه اكل من طعامه وشرب من شرابه، ومن لم يجبه عاقبه، او قال عذبه، ثم ارتفعوا، واستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك فقال: سمعت ما قال هؤلاء؟ وهل تدري من هؤلاء؟ قلت: الله ورسوله اعلم، قال: هم الملائكة، افتدري ما المثل الذي ضربوا؟ قلت: الله ورسوله اعلم، قال: المثل الذي ضربوا الرحمن تبارك وتعالى بنى الجنة ودعا إليها عباده، فمن اجابه دخل الجنة، ومن لم يجبه عاقبه او عذبه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وابو تميمة هو الهجيمي، واسمه طريف بن مجالد، وابو عثمان النهدي اسمه عبد الرحمن بن مل، وسليمان التيمي قد روى هذا الحديث عنه معتمر وهو سليمان بن طرخان ولم يكن تيميا وإنما كان ينزل بني تيم فنسب إليهم، قال علي، قال يحيى بن سعيد: ما رايت اخوف لله تعالى من سليمان التيمي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَخَذَ بِيَدِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ حَتَّى خَرَجَ بِهِ إِلَى بَطْحَاءِ مَكَّةَ، فَأَجْلَسَهُ ثُمَّ خَطَّ عَلَيْهِ خَطًّا، ثُمَّ قَالَ: لَا تَبْرَحَنَّ خَطَّكَ فَإِنَّهُ سَيَنْتَهِي إِلَيْكَ رِجَالٌ فَلَا تُكَلِّمْهُمْ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَلِّمُونَكَ، قَالَ: ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ أَرَادَ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي خَطِّي إِذْ أَتَانِي رِجَالٌ كَأَنَّهُمْ الزُّطُّ أَشْعَارُهُمْ وَأَجْسَامُهُمْ، لَا أَرَى عَوْرَةً، وَلَا أَرَى قِشْرًا، وَيَنْتَهُونَ إِلَيَّ وَلَا يُجَاوِزُونَ الْخَطَّ، ثُمَّ يَصْدُرُونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ لَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَنِي وَأَنَا جَالِسٌ، فَقَالَ: لَقَدْ أَرَانِي مُنْذُ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَيَّ فِي خَطِّي، فَتَوَسَّدَ فَخِذِي، فَرَقَدَ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَقَدَ نَفَخَ، فَبَيْنَا أَنَا قَاعِدٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَسِّدٌ فَخِذِي، إِذَا أَنَا بِرِجَالٍ عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ بِيضٌ اللَّهُ أَعْلَمُ مَا بِهِمْ مِنَ الْجَمَالِ، فَانْتَهَوْا إِلَيَّ، فَجَلَسَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَطَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَالُوا بَيْنَهُمْ: مَا رَأَيْنَا عَبْدًا قَطُّ أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا النَّبِيُّ، إِنَّ عَيْنَيْهِ تَنَامَانِ وَقَلْبُهُ يَقْظَانُ اضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا، مَثَلُ سَيِّدٍ بَنَى قَصْرًا، ثُمَّ جَعَلَ مَأْدُبَةً، فَدَعَا النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ، فَمَنْ أَجَابَهُ أَكَلَ مِنْ طَعَامِهِ وَشَرِبَ مِنْ شَرَابِهِ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ، أَوْ قَالَ عَذَّبَهُ، ثُمَّ ارْتَفَعُوا، وَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ فَقَالَ: سَمِعْتَ مَا قَالَ هَؤُلَاءِ؟ وَهَلْ تَدْرِي مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: هُمُ الْمَلَائِكَةُ، أَفَتَدْرِي مَا الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا الرَّحْمَنُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَنَى الْجَنَّةَ وَدَعَا إِلَيْهَا عِبَادَهُ، فَمَنْ أَجَابَهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ أَوْ عَذَّبَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو تَمِيمَةَ هُوَ الْهُجَيْمِيُّ، وَاسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ، وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ، وَسُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ قَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْهُ مُعْتَمِرٌ وَهُوَ سُلَيْمَانُ بْنُ طَرْخَانَ وَلَمْ يَكُنْ تَيْمِيًّا وَإِنَّمَا كَانَ يَنْزِلُ بَنِي تَيْمٍ فَنُسِبَ إِلَيْهِمْ، قَالَ عَلِيٌّ، قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: مَا رَأَيْتُ أَخْوَفَ لِلَّهِ تَعَالَى مِنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھی۔ پھر پلٹے تو عبداللہ بن مسعود کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انہیں ساتھ لیے ہوئے مکہ کی پتھریلی زمین کی طرف نکل گئے (وہاں) انہیں (ایک جگہ) بٹھا دیا۔ پھر ان کے چاروں طرف لکیریں کھینچ دیں، اور ان سے کہا: ”ان لکیروں سے باہر نکل کر ہرگز نہ جانا۔ تمہارے قریب بہت سے لوگ آ کر رکیں گے لیکن تم ان سے بات نہ کرنا، اور وہ خود بھی تم سے بات نہ کریں گے“۔ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں جانا چاہتے تھے وہاں چلے گئے، اسی دوران کہ میں اپنے دائرہ کے اندر بیٹھا ہوا تھا کچھ لوگ میرے پاس آئے وہ جاٹ لگ رہے تھے ۱؎، ان کے بال اور جسم نہ مجھے ننگے دکھائی دے رہے تھے اور نہ ہی (ان کے جسموں پر مجھے) لباس نظر آ رہا تھا، وہ میرے پاس آ کر رک جاتے اور لکیر کو پار نہ کرتے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نکل جاتے، یہاں تک کہ جب رات ختم ہونے کو آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میں بیٹھا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”رات ہی سے اپنے آپ کو دیکھتا ہوں (یعنی میں سو نہ سکا) پھر آپ دائرے کے اندر داخل ہو کر میرے پاس آئے۔ اور میری ران کا تکیہ بنا کر سو گئے، آپ سونے میں خراٹے لینے لگتے تھے، تو اسی دوران کہ میں بیٹھا ہوا تھا اور آپ میری ران کا تکیہ بنائے ہوئے سو رہے تھے۔ یکایک میں نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے درمیان پایا جن کے کپڑے سفید تھے، اللہ خوب جانتا ہے کہ انہیں کس قدر خوبصورتی حاصل تھی۔ وہ لوگ میرے پاس آ کر رک گئے، ان میں سے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے بیٹھ گئے اور کچھ لوگ آپ کے پائتانے، پھر ان لوگوں نے آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہا: ہم نے کسی بندے کو کبھی نہیں دیکھا جسے اتنا ملا ہو جتنا اس نبی کو ملا ہے۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور ان کا دل بیدار رہتا ہے۔ ان کے لیے کوئی مثال پیش کرو (پھر انہوں نے کہا ان کی مثال) ایک سردار کی مثال ہے جس نے ایک محل بنایا، پھر ایک دستر خوان بچھایا اور لوگوں کو اپنے دستر خوان پر کھانے پینے کے لیے بلایا، تو جس نے ان کی دعوت قبول کر لی وہ ان کے کھانے پینے سے فیض یاب ہوا۔ اور جس نے ان کی دعوت قبول نہ کی وہ (سردار) اسے سزا دے گا پھر وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ اور ان کے جاتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: ”سنا، کیا کہا انہوں نے؟ اور یہ کون لوگ تھے؟ میں نے کہا: اللہ اور اللہ کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”وہ فرشتے تھے۔ تم سمجھتے ہو انہوں نے کیا مثال دی ہے؟“ میں نے (پھر) کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”انہوں نے جو مثال دی ہے وہ ہے رحمن (اللہ) تبارک و تعالیٰ کی، رحمن نے جنت بنائی، اور اپنے بندوں کو جنت کی دعوت دی۔ تو جس نے دعوت قبول کر لی وہ جنت میں داخل ہو گیا اور جو اس کی دعوت نہ قبول کرے گا وہ اسے عذاب و عقاب سے دوچار کرے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- ابو تمیمہ: ہجیمی ہیں اور ان کا نام طریف بن مجالد ہے، ۳- ابوعثمان نہدی کا نام عبدالرحمٰن بن مل ہے، ۴- سلیمان تیمی جن سے یہ حدیث معتمر نے روایت کی ہے وہ سلیمان بن طرخان ہیں، وہ اصلاً تیمی نہ تھے، لیکن وہ بنی تیم میں آیا جایا کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ تیمی مشہور ہو گئے۔ علی ابن المدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کہتے تھے: میں نے سلیمان تیمی سے زیادہ کسی کو اللہ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔