سنن ترمذي
كتاب الأمثال عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: مثل اور کہاوت کا تذکرہ
7. باب مَا جَاءَ فِي مَثَلِ ابْنِ آدَمَ وَأَجَلِهِ وَأَمَلِهِ
باب: آدمی کی موت اور آرزو کی مثال۔
حدیث نمبر: 2872
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا النَّاسُ كَإِبِلٍ مِائَةٍ لَا يَجِدُ الرَّجُلُ فِيهَا رَاحِلَةً "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لوگ سو اونٹ کی طرح ہیں۔ آدمی ان میں سے ایک بھی سواری کے قابل نہیں پاتا
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 35 (6498)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 60 (2547)، سنن ابن ماجہ/الفتن 16 (3990) (تحفة الأشراف: 6945)، و مسند احمد (2/7، 44، 70، 109، 121، 122، 123، 130) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: اچھے لوگ بہت کم ملتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3990)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2872 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2872
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی:
اچھے لوگ بہت کم ملتے ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2872
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3990
´جن کے بارے میں امید ہے کہ وہ فتنوں سے محفوظ ہوں گے ان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی مثال ان سو اونٹوں کے مانند ہے، جن میں سے ایک بھی سواری کے لائق نہیں پاؤ گے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3990]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صاحب کمال لوگ تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں۔
(2)
عوام میں زیادہ تر لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی اہم ذمہ داری کو اٹھانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
اگر کامل اہلیت والا فرد نہ ملے تو ناقص اہلیت والے ہی سے کام چلانا چاہیے تاہم ان کی مناسب رہنمائی اور ان کے کام کی مناسب نگرانی ضروری ہے۔
(3)
مربی تربیت میں محنت کرے اور اس کا مطلوب نتیجہ نہ نکلے تو ضروری نہیں کہ تربیت میں نقص ہو۔
بعض اوقات تربیت پانے والوں کے نقص کی وجہ سے مطلوب نتائج حاصل نہیں ہوتے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3990
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6499
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم لوگوں کو سو اونٹوں کی طرح پاؤگے،ان میں آدمی کو ایک بھی سواری کے قابل نہیں ملتا۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6499]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
الراحلة:
وہ اونٹ یا اونٹنی جو انتہائی اعلیٰ اور عمدہ ہو،
سواری اور بار برداری کے قابل ہو اور اوصاف کاملہ سے متصف ہو۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں انسان تو بہت ہیں،
لیکن ان میں اہل علم اور اہل فضل یا عالم باعمل بہت کم ہیں،
جس طرح اونٹ تو بےشمار ہیں،
لیکن ان میں عمدہ اور اعلیٰ سواری کے قابل بہت کم ہیں،
یا انسانوں میں عمدہ خصائل اور کامل اوصاف کے حامل لوگ بہت کم ہیں،
جنہیں دنیائے فانی کے مقابلہ میں عالم بقاء اور آخری جہان کی فکر زیادہ ہو اور دنیا سے دلچسپی اور رغبت واجبی سی ہو،
جیسے اونٹوں میں کامل اوصاف کے حامل اچھے اور عمدہ اونٹ بہت کم ہیں۔
یہ معنی بھی ہو سکتا ہے ایسے اشخاص جو جودوسخا سے متصف اور لوگوں کے بوجھ کو اٹھائیں اور ان کے قرض چکائیں ان کی تکالیف و مصائب کو دور کریں اور کم ہوں گے جیسا کہ سواری اور بار برادری کے قابل اونٹ بہت کم ہوتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6499
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6498
6498. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں کی مثال تو ایسے اونٹوں کی طرح ہے، جن میں سے تو کسی ایک کو بھی سواری کے قابل نہیں پائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6498]
حدیث حاشیہ:
آج کے مسلمان بکثرت ہر جگہ موجود ہیں مگر حقیقی مسلمان تلاش کئے جائیں تو مایوسی ہوگی۔
پھر بھی اللہ والوں سے زمین خالی نہیں ہے کم من عبا د اللہ لو أقسم علی اللہ لأبرہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6498
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6498
6498. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں کی مثال تو ایسے اونٹوں کی طرح ہے، جن میں سے تو کسی ایک کو بھی سواری کے قابل نہیں پائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6498]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں لوگوں سے مراد صحابۂ کرام یا تابعین عظام نہیں کیونکہ ان کی فضیلت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی ہے بلکہ ان سے مراد مستقبل بعید کے لوگ ہیں کہ ان میں شاذ شاذ لوگ احکام شریعت کی پابندی کریں گے، یعنی عوام الناس تعداد میں بہت زیادہ ہوں گے لیکن ان میں کام کے آدمی بہت کم ہوں گے۔
اکثریت، ان فرائض کو ضائع کر دے گی جو ان کے ذمے واجب الادا ہوں گے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین کے بعد والے لوگوں کی تخصیص کرنا درست نہیں کیونکہ اہل ایمان کی تعداد کفار کے مقابلے میں ہمیشہ کم ہوتی ہے، لہذا حدیث میں ذکر کردہ تقابل ہر وقت اور ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 408/11) (2)
آج مسلمان بکثرت ہر جگہ موجود ہیں مگر حقیقی مسلمان اگر تلاش کیے جائیں تو انتہائی مایوسی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اللہ والوں سے زمین کبھی خالی نہیں ہوتی۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6498