سنن ترمذي
كتاب الأمثال عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: مثل اور کہاوت کا تذکرہ
4. باب مَا جَاءَ فِي مَثَلِ الْمُؤْمِنِ الْقَارِئِ لِلْقُرْآنِ وَغَيْرِ الْقَارِئِ
باب: قرآن پڑھنے والے اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال۔
حدیث نمبر: 2865
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْأُتْرُجَّةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ لَا رِيحَ لَهَا وَطَعْمُهَا حُلْوٌ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ رِيحُهَا مُرٌّ وَطَعْمُهَا مُرٌّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ أَيْضًا.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کی خوشبو بھی اچھی ہے اور ذائقہ و مزہ بھی اچھا ہے، اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اس کھجور کی سی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہے اور مزہ میٹھا ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے خوشبودار پودے کی ہے جس کی بو، مہک تو اچھی ہے مزہ کڑوا ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا ہے اندرائن
(حنظل) (ایک کڑوا پھل) کی طرح ہے جس کی بو بھی اچھی نہیں اور مزہ بھی اچھا نہیں
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسے شعبہ نے قتادہ سے بھی روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 17 (5020)، و 36 (5059)، والأطعمة 30 (5427)، التوحید 57 (7560)، صحیح مسلم/المسافرین (37 (797)، سنن ابی داود/ الأدب 19 (4830)، سنن النسائی/الإیمان 32 (5041)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 16 (214) (تحفة الأشراف: 8981)، و مسند احمد (397، 408) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے کلام کی اثر انگیزی انسان کے ظاہر و باطن دونوں میں پائی جاتی ہے اور انسان چونکہ مختلف اوصاف کے حامل ہوتے ہیں اس لیے قرآن کریم کا پورا پورا تاثیری فائدہ صرف اس بندے کو حاصل ہوتا ہے جو مومن ہونے کے ساتھ حافظ قرآن اور اس پر عمل کرنے والا ہو، ایسا مومن اللہ کے نزدیک خوش رنگ اور خوش ذائقہ پھل کی طرح مقبول ہے۔ اور کچھ بندے ایسے ہیں جن کا باطن قرآن سے مستفید ہوتا ہے لیکن ظاہر محروم رہتا ہے، یہ وہ مومن بندہ ہے جو قاری قرآن نہیں ہے، ایسا مومن اللہ کے نزدیک اس مزے دار پھل کی طرح ہے جس میں خوشبو نہیں ہوتی، اور کچھ بندے ایسے ہیں جن کا ظاہر قرآن پڑھنے کے سبب اچھا ہے لیکن باطن تاریک ہے، یہ قرآن پڑھنے والا منافق ہے، یہ اللہ کے نزدیک اس خوشبودار پودے کی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہے لیکن مزہ کڑوا ہے، اور کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں اس قرآن سے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا، یہ قرآن نہ پڑھنے والا منافق ہے، یہ اللہ کے نزدیک حنظلہ اندرائن (حنظل) کی طرح ہے جس میں نہ تو خوشبو ہے اور نہ ہی اس کا مزہ اچھا ہے، بلکہ کڑوا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح نقد الكتانى (43)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2865 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2865
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے کلام کی اثر انگیزی انسان کے ظاہر و باطن دونوں میں پائی جاتی ہے اور انسان چونکہ مختلف اوصاف کے حامل ہوتے ہیں اس لیے قرآن کریم کا پورا پورا تاثیری فائدہ صرف اس بندے کو حاصل ہوتا ہے جو مومن ہونے کے ساتھ حافظ قرآن اور اس پر عمل کرنے والا ہو،
ایسا مومن اللہ کے نزدیک خوش رنگ اور خوش ذائقہ پھل کی طرح مقبول ہے۔
اور کچھ بندے ایسے ہیں جن کا باطن قرآن سے مستفید ہوتا ہے لیکن ظاہر محروم رہتا ہے،
یہ وہ مومن بندہ ہے جو قاری قرآن نہیں ہے،
ایسا مومن اللہ کے نزدیک اس مزے دار پھل کی طرح ہے جس میں خوشبو نہیں ہوتی،
اور کچھ بندے ایسے ہیں جن کا ظاہر قرآن پڑھنے کے سبب اچھا ہے لیکن باطن تاریک ہے،
یہ قرآن پڑھنے والا منافق ہے،
یہ اللہ کے نزدیک اس خوشبودار پودے کی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہے لیکن مزہ کڑوا ہے،
اور کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں اس قرآن سے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا،
یہ قرآن نہ پڑھنے والا منافق ہے،
یہ اللہ کے نزدیک حنظلہ اندرائن(حنظل) کی طرح ہے جس میں نہ تو خوشبو ہے اور نہ ہی اس کا مزہ اچھا ہے،
بلکہ کڑوا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2865
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5020
´قرآن مجید کی فضیلت دوسرے تمام کلاموں پر کس قدر ہے؟`
«. . . عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَالْأُتْرُجَّةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَرِيحُهَا طَيِّبٌ، وَالَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَالتَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَلَا رِيحَ لَهَا، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ طَعْمُهَا مُرٌّ وَلَا رِيحَ لَهَا . . .»
”. . . ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی (مومن کی) مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کا مزا بھی لذیذ ہوتا ہے اور جس کی خوشبو بھی بہترین ہوتی ہے اور جو مومن قرآن کی تلاوت نہیں کرتا اس کی مثال کھجور کی سی ہے اس کا مزہ تو عمدہ ہوتا ہے لیکن اس میں خوشبو نہیں ہوتی اور اس بدکار (منافق) کی مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے ریحانہ کی سی ہے کہ اس کی خوشبو تو اچھی ہوتی لیکن مزا کڑوا ہوتا ہے اور اس بدکار کی مثال جو قرآن کی تلاوت بھی نہیں کرتا اندرائن کی سی ہے جس کا مزا بھی کڑوا ہوتا ہے اور اس میں کوئی خوشبو بھی نہیں ہوتی۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ: 5020]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5020 کا باب: «بَابُ فَضْلِ الْقُرْآنِ عَلَى سَائِرِ الْكَلاَمِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمتہ الباب میں قرآن مجید کی فضیلت پر اشارہ فرمایا ہے کہ تحت الباب پوری حدیث میں کہیں بھی قرآن مجید کی فضیلت پر واضح طور پر کوئی الفاظ نہیں ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«مناسبة الحديث الثاني من جهة ثبوت فضل هذه الامة على غيرها من الأمم وثبوت الفضل لها ثبت من فضل كتابها الذى أمرت بالعمل به» [فتح الباري لابن حجر: 58/10] ”ترجمۃ الباب سے اس حدیث کی مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ اس امت
(امت محمدیہ) کو تمام امتوں پر فضیلت جو ہے وہ فضیلت اس کتاب
(قرآن) کی وجہ سے ہے جس پر انہیں عمل کا حکم دیا گیا ہے۔
“ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس طرح ممکن ہے کہ امت محمدیہ کو فضیلت ہی اس قرآن کی وجہ سے عطا کی گئی ہے، لہٰذا اسی کتاب کی وجہ سے امت کو افضل قرار دیا گیا ہے تو وہ چیز جو افضلیت کا سبب ہے، تمام تر چیزوں سے افضل ہو گی۔
امام کرمانی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«واما الحديث الثاني فلا دلالة على الترجمه فيه اصلاّ .» [شرح كرماني: 9،30/19]
”جو حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ ترجمہ الباب سے اصل مناسبت نہیں رکھتی۔“
کرمانی صاحب کے اس اشکال کو دور کرتے ہوئے، محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«فضل القاري لقراءه القران وكذلك فضل هذه الامة على الامم انما هو بسبب القران .» [الابواب و التراجم لصحیح البخاری: 443/8] ”قاری کی فضیلت
(درحقیقت) قراءۃ قرآن کے ساتھ ہے اور اسی طرح امت کی فضیلت دیگر امتوں پر قرآن مجید کی وجہ سے ہے۔
“ لہٰذا حدیث اور باب میں مناسبت اس جہت سے ہے کہ اس امت کو فضیلت قرآن مجید کے سبب دی گئی ہے اور جب اس امت کو تمام امتوں پر فضیلت حاصل ہے تو بالاولیٰ اس امت کی کتاب کو بھی تمام کتابوں پر فضیلت ہو گی، یہیں سے ترجمہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 76
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5041
´قرآن پڑھنے والے مومن اور منافق کی مثال۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے سنترے کی سی ہے کہ اس کا مزہ بھی اچھا ہے اور بو بھی اچھی ہے، اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کے مانند ہے کہ اس کا مزہ اچھا ہے لیکن کوئی بو نہیں ہے، اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے ریحانہ (خوشبودار گھاس وغیرہ) کی سی ہے کہ اس کی بو اچھی ہے لیکن مزہ کڑوا ہے، اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا تھوہڑ (اندرائن) ج [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5041]
اردو حاشہ:
ان مثالوں میں ایمان کو اچھے ذائقے سے تشبیہ دی گئی ہے جوایمان کی طرح نظر آنے والی چیز نہیں اور قراءت قرآن ونماز کو خوشبو کے ساتھ کیو نکہ یہ دونوں ظاہر چیزں ہیں۔ محسوس ہوسکتی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے اس روایت کو ذکرکرنے سےمقصود ایمان کی کمی بیشی بیان کرنا ہے کیونکہ سب کھجور وں یا نازنگیوں کی مٹھاس ایک سی نہیں ہوتی بلکہ فرق ہوتاہے۔ اسی طرح سب مومن ایمان میں برابر نہیں ہوتے۔ ان میں بھی فرق ہوتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5041
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4829
´کن لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چاہئے؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اس نارنگی کی سی ہے جس کی بو بھی اچھی ہے اور جس کا ذائقہ بھی اچھا ہے اور ایسے مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اس کھجور کی طرح ہے جس کا ذائقہ اچھا ہوتا ہے لیکن اس میں بو نہیں ہوتی، اور فاجر کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے، گلدستے کی طرح ہے جس کی بو عمدہ ہوتی ہے اور اس کا مزا کڑوا ہوتا ہے، اور فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا، ایلوے کے مانند ہے، جس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے، اور اس میں کوئی بو بھی نہیں ہوتی، اور صالح دوست کی مثال مشک والے کی طرح ہے، کہ ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4829]
فوائد ومسائل:
1) صالح متقی اور صاحبِ عمل مومن کی صحبت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس میں دین اور دُنیا دونوں کا فائدہ ہے۔
2) فاسق و فاجر لوگوں سے دور رہنا چاہیئے کہ ان کی صحبت میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔
3) استاذ اور خطیب کو عمدہ مثالوں سے اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4829
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث214
´قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کے فضائل و مناقب۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال سنترے کی سی ہے کہ اس کا مزہ بھی اچھا ہے اور بو بھی اچھی ہے، اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے کہ اس کا مزہ اچھا ہے لیکن کوئی بو نہیں ہے، اور قرآن پڑھنے والے منافق کی مثال ریحانہ (خوشبودار گھاس وغیرہ) کی سی ہے کہ اس کی بو اچھی ہے لیکن مزہ کڑوا ہے، اور قرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال تھوہڑ (اندرائن) جیسی ہے کہ اس کا مزہ کڑوا ہے، اور اس میں کوئی خوشبو بھی نہیں۔“ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 214]
اردو حاشہ:
(1)
قرآن کی تلاوت اور اس پر عمل دونوں خوبیاں ہیں اور دونوں مطلوب ہیں۔
تلاوت ظاہری خوبی ہے جسے خوشبو سے تشبیہ دی گئی ہے اور عمل باطنی خوبی ہے کیونکہ اس میں ایمان، اخلاص، اللہ سے محبت، خشیت الہی اور تقویٰ جیسے باطنی اعمال بھی شامل ہیں، اس لیے اسے ذائقے سے تشبیہ دی گئی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ تلاوت کو خوشبو سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہو کہ اسے ہر خاص و عام سن لیتا ہے جب کہ عمل کا اندازہ اسی کو ہوتا ہے جس کو واسطہ پڑے جس طرح ذائقے کا علم اسی کو ہوتا ہے جو پھل کو چکھے۔
(2)
الْأُتْرُجَّة :
(ترنجبین)
لیموں کے خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک پھل ہے۔
اس کا رنگ بھی خوش کن ہوتا ہے اور ذائقہ بھی عمدہ ہوتا ہے۔
(3)
الرَّيْحَانَة:
اصل میں ہر اس پودے کو کہتے ہیں جس سے خوشبو آئے، عام طور پر یہ لفظ نازبو کے لیے مستعمل ہے لیکن دوسرے خوشبودار پودوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
(4)
منافق کا عقیدہ اور سیرت تلخ اور خراب ہوتی ہے مگر قراءت قرآن کی وجہ سے دوسروں کو فائدہ پہنچتا ہے اس لیے اس کی مثال ایسے پھول سے دی ہے جس کی خوشبو دور سے بھی محسوس ہے لیکن کھانے کے لائق ہرگز نہیں ہوتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 214
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1860
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس مومن کی مثال جو قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے نارنگی کی سی ہے اس کی خوشبوبھی عمدہ اور اس کا ذائقہ خوشگوار ہے اور وہ مومن جو قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرتا، اس کی مثال کھجور کی سی ہے، اس کی خوشبو نہیں اور اس کا ذائقہ شیریں ہے، اور وہ منافق جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے اس کی مثال ریحانہ کے پھول کی ہے۔ اس کی خوشبوعمدہ ہے اور ذائقہ کڑوا ہے اور اس منافق کی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1860]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایمان ایک اعلیٰ اور عمدہ وصف ہے جو مستقل طور پر ایک کمال اور خوبی ہے،
اگر اس کے ساتھ قرآن مجید کا حق تلاوت ادا کیا جائے یعنی قرآن مجید کی تلاوت ادا کیا جائے یعنی قرآن مجید کی تلاوت کی پابندی کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے جیسا بعض روایات میں عمل کی صراحت موجود ہے تو یہ نورٌ عَلٰی نور ہے۔
ایمان کے حسن و کمال میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کو چار چاند لگ جاتے ہیں لیکن اگر قرآن مجید کا حق ادا نہ کیا جائے،
اس کی تلاوت نہ کی جائے یا اس پر عمل نہ کیا جائے تو اس کا حسن و کمال ماند پڑجاتا ہے۔
نفاق ایک بدخصلت ہے لیکن ظاہری طور پر اس میں خوبی ہے اور باطنی طور پر خباثت ہے اس لیے تلاوت قرآن پر سچا جھوٹا عمل بظاہر ایک خوبی ہے لیکن اگر منافق قرآن کی تلاوت نہ کرے اور اس پر کچھ نہ کچھ عمل بھی نہ کرے تو ظاہری خوبی بھی ماند پڑجاتی ہے اور اندر کا خبث نمایاں ہو جاتا ہے،
اس لیے بعض روایات میں(لَيْسَ لَهَا رِيْحٌ کی بجائے رِيْحُهاَ مُرٌّ)
ہے کہ اس کی کڑواہٹ سونگھی جا سکتی،
ہے اس کے تلخ ذائقہ کا اثر اس کی بو پر بھی پڑتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1860
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5020
5020. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اس مومن شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہےسنگترے جیسی ہے جس کا مزہ بھی لذیذ اور خوشبو بھی بہترین ہوتی ہے اور جو مومن قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال کھجور جیسی ہے جس کا مزہ تو اچھا لیکن اس میں خوشبو نہیں۔ فاجر کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے گل ریحان جسی ہے اس کی خوشبو تو اچھی ہے لیکن مزہ کڑوا ہے اور فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اندرائن جیسی ہے جس کا مزہ کڑوا اور خوشبو نہیں ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5020]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ اس میں قاری کی فضیلت مذکور ہے اور یہ فضیلت قرآن ہی کی وجہ سے ہے تو اس قرآن کی فضیلت ثابت ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5020
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5427
5427. سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس مومن کی مثال جو قرآن مجید پڑھتا ہے سنگترے کی طرح ہے جس کی خوشبو نہیں ہوتی لیکن پڑھتا کھجور جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی لیکن ذائقہ شیریں ہے اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے گل ببونہ کی طرح ہے جس کی خوشبو دلربا لیکن ذائقہ انتہائی کڑوا ہے۔ اور جو منافق قرآن بھی نہیں پڑھتا اسکی مثال اندرائن (تمے) جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور جس کا مزا بھی کڑوا ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5427]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ مزیدار اور خوشبو دار کھانا کھانا درست ہے کیونکہ مومن کی مثل آپ نے اس سے دی۔
حدیث سے یہ بھی نکلا کہ اگر حلال طور سے اللہ تعالیٰ مزیدار کھانا عنایت فرمائے تو اسے خوشی سے کھائے، حق تعالیٰ کا شکر بجا لائے اور مزیدار کھانے کھانا زہد اور درویشی کے خلاف نہیں ہے اور جو بعض جاہل فقیر مزیدار کھانے کوپانی یا نمک ملا کر بدمزہ کر کے کھاتے ہیں یہ اچھا نہیں ہے۔
بعض بزرگوں نے کہا ہے کہ خوش ذائقہ کھانے پر خوش ہونا چاہیئے۔
اسے بد ذائقہ بنانا حماقت اور نادانی ہے۔
ایسے جاہل فقیر شریعت الٰہی کو الٹ پلٹ کرنے والے حلال و حرام کی نہ پرواہ کرنے والے در حقیقت دشمنان اسلام ہوتے ہیں۔
أعاذنا من شرورھم آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5427
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7560
7560. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اترنج کی طرح ہے جس کا ذائقہ بھی اچھا اور خوشبو بھی عمدہ ہے۔ اور جو قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال کھجور جیسی ہے کہ اس کا ذائقہ تو اچھا ہے لیکن اس کی خوشبو نہیں ہوتی۔ اور فاجر کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے گل ببونہ کی طرح ہے جس کی خوشبو اچھی ہے لیکن اس کا ذائقہ کڑوا ہے اور وہ فاجر جو قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن (تمے) کی سی ہے کہ اس کا مزہ بھی کڑوا ہے اور اس میں کوئی خوشبو بھی نہیں ہوتی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7560]
حدیث حاشیہ:
قرآن شریف اپنی جگہ پراللہ کا کلام غیرمخلوق اوربہتر ہے مگر اس کے پڑھنے والوں کےعمل واخلاق کی بنا پر وہ ریحان اور اندرائن کے پھلوں کی طرح ہو جاتا ہے۔
مومن مخلص کے قرآن شریف پڑھنے کا فعل خوشبودار ریمان کی طرح ہے اور منافق کے قرآن شریف پڑھنے کا فعل اندرائن کے پھل کی طرح ہے۔
پس قرآن شریف اللہ کا کلام غیرمخلوق اورمومن ومنافق کا تلاوت کرنا ان کافعل ہے جو فعل ہونے کےطور پرمخلوق ہے۔
ایسا ہی خارجیوں کےقرآن شریف پڑھنے کا حل ہے جوحدیث ذیل میں بیان ہو رہا ہے۔
ان کا یہ فعل مخلوق ہے۔
کتاب خلق افعال العباد کا یہی خلاصہ ہے کہ بندوں کے افعال سب مخلوق ہیں۔
جن کا خالق اللہ تبارک وتعالیٰ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7560
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5020
5020. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اس مومن شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہےسنگترے جیسی ہے جس کا مزہ بھی لذیذ اور خوشبو بھی بہترین ہوتی ہے اور جو مومن قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال کھجور جیسی ہے جس کا مزہ تو اچھا لیکن اس میں خوشبو نہیں۔ فاجر کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے گل ریحان جسی ہے اس کی خوشبو تو اچھی ہے لیکن مزہ کڑوا ہے اور فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اندرائن جیسی ہے جس کا مزہ کڑوا اور خوشبو نہیں ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5020]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں قرآن کی فضیلت بیان ہوئی ہے کیونکہ قرآن پڑھنے کے باعث قاری کو فضیلت حاصل ہوتی ہے۔
اس میں مومن قاری کو سنگترے سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ یہ دیکھنے میں خوشنما اور کھانے میں خوش ذائقہ ہے یہ معدے کو قوی اور صاف کرتا ہے اور قوت ہضم کو تیز کرتا ہے۔
اس کا چھلکا کپڑوں میں رکھنے سے جراثیم دور ہو جاتے ہیں۔
یہ دوائی کے کام بھی آتا ہے ان خصوصیات کی بنا پر مناسب یہی تھا کہ اس کے ساتھ مومن قاری کو تشبیہ دی جائے ایک روایت میں ہے۔
”یہ مثال اس مومن کی ہے جو قرآن کریم پڑھتا اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے۔
“ (جامع الترمذي، فضائل القرآن، حدیث: 5059)
2۔
اس سے شریعت کی مراد واضح ہوتی ہے کہ مذکورہ فضیلت صرف تلاوت سے نہیں بلکہ تلاوت کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 85/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5020
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5059
5059. سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا اور اس پر عمل بھی کرتا ہے سنگترے کی طرح ہے جس کا مزہ بھی لذیذ اور خوشبو بھی اچھی ہے۔ اور وہ مومن جو قرآن نہیں پڑھتا مگر اس کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے اس کی مثال کھجور کی سی ہے جس کا ذائقہ تو اچھا ہے اس کی مثال کجھور کی سی ہے جس کا ذائقہ تو اچھا ہے لیکن اس کی خوشبو نہں ہوتی۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے گل ببونہ کی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن ذائقہ کڑوا ہوتا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن بھی نہیں پڑھتا اندرائن کی طرح ہے جس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے اور اس کی بو بھی خراب ہوتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5059]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں قرآن کریم کو ریا کاری کے طور پر پڑھنے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہے اور انھیں منافق قرار دیا گیا ہے۔
2۔
اس حدیث میں بیان کردہ تشبیہ و تمثیل دراصل موصوف کے وصف کی ہے جو خالص معقول معنی پر مشتمل ہے۔
یہ تشبیہ اس کی پوشیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔
یعنی انسان کے ظاہر و باطن میں کلام اللہ کی تاثیر کار فرما ہے۔
اس میں لوگ مختلف ہیں بعض میں یہ تاثیر پوری ہوتی ہےاور وہ اس سے پوری طرح متاثر ہوتے ہیں اور وہ مومن قاری ہے بعض میں یہ تاثیر بالکل نہیں ہوتی وہ حقیقی منافق ہیں۔
بعض کا ظاہر تو متاثر ہوتا ہے لیکن باطن متاثر نہیں ہوتا وہ ریا کار لوگ ہوتے ہیں۔
اور بعض کا صرف باطن متاثر ہوتا ہے اور ظاہر پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا وہ مومن ہیں جو قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرتے۔
بہر حال اس حدیث میں قرآن کریم کو ریا کاری کے طور پر استعمال کرنے والوں کا ذکر ہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے. واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5059
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5427
5427. سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس مومن کی مثال جو قرآن مجید پڑھتا ہے سنگترے کی طرح ہے جس کی خوشبو نہیں ہوتی لیکن پڑھتا کھجور جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی لیکن ذائقہ شیریں ہے اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے گل ببونہ کی طرح ہے جس کی خوشبو دلربا لیکن ذائقہ انتہائی کڑوا ہے۔ اور جو منافق قرآن بھی نہیں پڑھتا اسکی مثال اندرائن (تمے) جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور جس کا مزا بھی کڑوا ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5427]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مزیدار اور خوشبودار کھانا تناول کرنا جائز ہے کیونکہ آپ نے مومن کی مثال سنگترے سے دی ہے جو مزیدار اور خوشبودار ہوتا ہے۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ حلال طور پر مزیدار کھانا عنایت فرمائے تو اسے خوشی خوشی کھانا چاہیے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
(2)
مزیدار کھانا زہد و تقویٰ کے خلاف نہیں ہے اور جو جاہل لوگ مزیدار لوگ کھانے کو پانی یا نمک سے بدمزہ کر کے کھاتے ہیں یہ ان کی حماقت اور نادانی ہے، نیز اس حدیث میں تلخ طعام کی کراہت کی طرف اشارہ ہے۔
واللہ أعلم۔
بعض اسلاف سے مزیدار کھانوں کی کراہت منقول ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ کے لیے ایسی عادت اختیار نہ کی جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی وقت صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے اور وہ گمراہی میں جا پڑے۔
(فتح الباري: 687/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5427
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7560
7560. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اترنج کی طرح ہے جس کا ذائقہ بھی اچھا اور خوشبو بھی عمدہ ہے۔ اور جو قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال کھجور جیسی ہے کہ اس کا ذائقہ تو اچھا ہے لیکن اس کی خوشبو نہیں ہوتی۔ اور فاجر کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے گل ببونہ کی طرح ہے جس کی خوشبو اچھی ہے لیکن اس کا ذائقہ کڑوا ہے اور وہ فاجر جو قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن (تمے) کی سی ہے کہ اس کا مزہ بھی کڑوا ہے اور اس میں کوئی خوشبو بھی نہیں ہوتی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7560]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ قرآن اور تلاوت میں فرق واضح کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور تلاوت بندے کا فعل ہے یہی وجہ ہے کہ بندے کے فعل کی وجہ سے تلاوت، تلاوت میں فرق ہے۔
ایک عامل مومن کا تلاوت کرنا سنگترے کی طرح ہے جو بے شمار فوائد کا حامل ہے اور بد کردار کی تلاوت سے ماحول معطر نہیں ہوتا اور اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس بنا پر قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق اور مومن و منافق کا تلاوت کرنا ان کا ذاتی فعل ہے اور فعل ہونے کے اعتبار سے وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں بہر حال بندوں کے افعال سب مخلوق ہیں جن کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7560