كتاب الرؤيا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: خواب کے آداب و احکام 10. باب مَا جَاءَ فِي رُؤْيَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِيزَانَ وَالدَّلْوَ باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں ترازو اور ڈول دیکھنے کا بیان۔
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا: ”تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے؟“ ایک آدمی نے کہا: میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک ترازو اترا، آپ اور ابوبکر تولے گئے تو آپ ابوبکر سے بھاری نکلے، ابوبکر اور عمر تولے گئے، تو ابوبکر بھاری نکلے، عمر اور عثمان تولے گئے تو عمر بھاری نکلے پھر ترازو اٹھا لیا گیا، ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھے ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ السنة 9 (4634) (تحفة الأشراف: 11662)، و مسند احمد (5/44، 50) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ناگواری کا سبب یہ تھا کہ میزان کے اٹھا لیے جانے کا مفہوم یہ نکلا کہ عمر رضی الله عنہ کے بعد فتنوں کا آغاز ہو جائے گا، «واللہ اعلم» ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6057 / التحقيق الثانى)
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ورقہ (ورقہ بن نوفل) کے بارے میں پوچھا گیا تو خدیجہ نے کہا: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی تھی مگر وہ آپ کی نبوت کے ظہور سے پہلے وفات پا گئے، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے خواب میں انہیں دکھایا گیا ہے، اس وقت ان کے جسم پر سفید کپڑے تھے، اگر وہ جہنمی ہوتے تو ان کے جسم پر کوئی دوسرا لباس ہوتا“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- محدثین کے نزدیک عثمان بن عبدالرحمٰن قوی نہیں ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 16536) (ضعیف) (سند میں عثمان بن عبد الرحمن متروک الحدیث راوی ہے، خود متن سے بھی اس حدیث کا منکر ہونا واضح ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں دلیل ہے کہ اگر کوئی مسلمان خواب میں اپنے کسی مرے ہوئے مسلمان بھائی کے جسم پر سفید کپڑا دیکھے تو یہ اس کے حسن حال کی پیشین گوئی ہے کہ وہ جنتی ہے، ورقہ بن نوفل خدیجہ رضی الله عنہا کے چچیرے بھائی تھے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال سن کر آپ کی رسالت کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ جو فرشتہ تمہارے پاس آتا ہے وہ ناموس اکبر ہے، اپنے بڑھاپے پر افسوس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو اس وقت آپ کا ساتھ ضرور دوں گا جس وقت آپ کی قوم آپ کو گھر سے نکال دے گی۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (4623) // ضعيف الجامع الصغير (792) //
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خواب کے بارے میں مروی ہے جس میں آپ نے ابوبکر اور عمر کو دیکھا، آپ نے فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ لوگ (ایک کنویں پر) جمع ہو گئے ہیں، پھر ابوبکر نے ایک یا دو ڈول کھینچے اور ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی اللہ ان کی مغفرت کرے، پھر عمر رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ڈول کھینچا تو وہ ڈول بڑے ڈول میں بدل گیا، میں نے کسی مضبوط اور طاقتور شخص کو نہیں دیکھا جس نے ایسا کام کیا ہو، یہاں تک کہ لوگوں نے اپنی آرام گاہوں میں جگہ پکڑی“ (یعنی سب آسودہ ہو گئے ۱؎)۔
۱- یہ ابن عمر رضی الله عنہما کی روایت سے صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 25 (3633)، وفضائل الصحابة 5 (3676)، و 6 (3682)، والتعبیر 28 (7019)، و 29 (7020)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 2 (2393) (تحفة الأشراف: 7022) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد عمر بن خطاب رضی الله عنہ کی مضبوط خلافت وامارت کا دور ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کے بارے میں روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے پراگندہ بالوں والی ایک کالی عورت کو دیکھا جو مدینہ سے نکلی اور مہیعہ میں ٹھہر گئی (مهيعه، جحفه کا دوسرا نام ہے)، میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ وہ مدینہ کی (بخار والی) وبا ہے جو جحفہ چلی جائے گی“۔
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التعبیر 41 (7038)، و 42 (7039)، 43 (7040)، سنن ابن ماجہ/الرؤیا 10 (3924)، (تحفة الأشراف: 7023)، وسنن الدارمی/الرؤیا 13 (2207) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3924)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخر وقت میں مومن کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے، اور خواب ان لوگوں کا سچا ہو گا جن کی باتیں زیادہ سچی ہوں گی، خواب تین قسم کے ہوتے ہیں: اچھے خواب جو اللہ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں، وہ خواب جسے انسان دل میں سوچتا رہتا ہے، اور وہ خواب جو شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور غم کا سبب ہوتا ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ خوب دیکھے تو اسے کسی سے بیان نہ کرے، اسے چاہیئے کہ اٹھ کر نماز پڑھے“، ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں خواب میں قید دیکھنا اچھا سمجھتا ہوں اور بیڑی دیکھنا برا سمجھتا ہوں، قید کی تعبیر ثابت قدمی ہے، ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے“۔
عبدالوہاب ثقفی نے ایوب سے یہ حدیث مرفوعاً روایت کی ہے اور حماد بن زید نے ایوب سے اسے موقوفاً روایت کیا ہے۔ تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2270 و2280) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح انظر الحديث (2396)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن ہیں، ان کے حال نے مجھے غم میں ڈال دیا، پھر مجھے وحی کی گئی کہ میں ان پر پھونکوں، لہٰذا میں نے پھونکا تو وہ دونوں اڑ گئے، میں نے ان دونوں کنگنوں کی تعبیر (نبوت کا دعویٰ کرنے والے) دو جھوٹوں سے کی جو میرے بعد نکلیں گے: ایک کا نام مسیلمہ ہو گا جو یمامہ کا رہنے والا ہو گا اور دوسرے کا نام عنسی ہو گا، جو صنعاء کا رہنے والا ہو گا“ ۱؎۔
یہ حدیث صحیح غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 25 (3621)، والمغازي 70 (4374، 4375)، و 71 (4379)، والتعبیر 38 (7034)، و 40 (7037)، صحیح مسلم/الرؤیا 4 (2274)، سنن ابن ماجہ/الرؤیا 10 (3922) (تحفة الأشراف: 13574)، و مسند احمد (2/319، 328، 344) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب میں یہ دیکھنا کہ آپ سونے کا دو کنگن پہنے ہوئے ہیں، جب کہ یہ عورتوں کا زیور ہے اس طرف اشارہ تھا کہ دو جھوٹے دعویدار ایسی بات کا دعویٰ کریں گے جس کے وہ حقدار نہ ہوں گے یعنی نبوت کا دعویٰ، اور پھونک مارنے سے ان کا اڑ جانا اس سے اشارہ تھا کہ آپ کے کام کے سامنے ان کی باتوں کا کوئی وزن نہ ہو گا وہ «لاشیٔ» کے مثل ہوں گے اور انہیں ختم کر دیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے تھے: ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں نے رات کو خواب میں بادل کا ایک ٹکڑا دیکھا جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا، اور لوگوں کو میں نے دیکھا وہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے پی رہے ہیں، کسی نے زیادہ پیا اور کسی نے کم، اور میں نے ایک رسی دیکھی جو آسمان سے زمین تک لٹک رہی تھی، اللہ کے رسول! اور میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ وہ رسی پکڑ کر اوپر چلے گئے، پھر آپ کے بعد ایک اور شخص اسے پکڑ کر اوپر چلا گیا، پھر اس کے بعد ایک اور شخص نے پکڑ اور وہ بھی اوپر چلا گیا، پھر اسے ایک اور آدمی نے پکڑا تو رسی ٹوٹ گئی، پھر وہ جوڑ دی گئی تو وہ بھی اوپر چلا گیا، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! - میرے باپ ماں آپ پر قربان ہوں - اللہ کی قسم! مجھے اس کی تعبیر بیان کرنے کی اجازت دیجئیے، آپ نے فرمایا: ”بیان کرو“، ابوبکر نے کہا: ابر کے ٹکڑے سے مراد اسلام ہے اور اس سے جو گھی اور شہد ٹپک رہا تھا وہ قرآن ہے اور اس کی شیرینی اور نرمی مراد ہے، زیادہ اور کم پینے والوں سے مراد قرآن حاصل کرنے والے ہیں، اور آسمان سے زمین تک لٹکنے والی اس رسی سے مراد حق ہے جس پر آپ قائم ہیں، آپ اسے پکڑے ہوئے ہیں پھر اللہ تعالیٰ آپ کو اوپر اٹھا لے گا، پھر اس کے بعد ایک اور آدمی پکڑے گا اور وہ بھی پکڑ کر اوپر چڑھ جائے گا، اس کے بعد ایک اور آدمی پکڑے گا، تو وہ بھی پکڑ کر اوپر چڑھ جائے گا، پھر اس کے بعد ایک تیسرا آدمی پکڑے گا تو رسی ٹوٹ جائے گی، پھر اس کے لیے جوڑ دی جائے گی اور وہ بھی چڑھ جائے گا، اللہ کے رسول! بتائیے میں نے صحیح بیان کیا یا غلط؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کچھ صحیح بیان کیا اور کچھ غلط، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: میرے باپ ماں آپ پر قربان! میں قسم دیتا ہوں آپ بتائیے میں نے کیا غلطی کی ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم نہ دلاؤ“ ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأیمان والنذور 13 (3268)، سنن ابن ماجہ/الرؤیا 10 (3918)، وانظر أیضا: صحیح البخاری/التعبیر 11 (7000)، و 47 (7046)، وصحیح مسلم/الرؤیا 3 (2269) (تحفة الأشراف: 13575) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ تم نے صحیح بیان کرنے کے ساتھ کچھ غلط بیان کیا تو ابوبکر رضی الله عنہ سے تعبیر بیان کرنے میں کیا غلطی ہوئی تھی اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں: بعض کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر انہوں نے تعبیر بیان کی یہ ان کی غلطی ہے، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیان کرنے کی اجازت اپنے اس قول «أعبرها» سے دے دی تھی، بعض کا کہنا ہے کہ ابوبکر رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے پوچھنے سے پہلے ہی تعبیر بیان کرنے کی خواہش ظاہر کر دی یہ ان کی غلطی تھی، بعض کا کہنا ہے تعبیر بیان کرنے میں غلطی واقع ہوئی تھی، صحیح بات یہ ہے کہ اگر ابوبکر رضی الله عنہ اس خواب کی تعبیر کے لیے اپنے آپ کو پیش نہ کرتے تو شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر خود بیان کرتے اور ظاہر ہے کہ آپ کی بیان کردہ تعبیر اس امت کے لیے ایک بشارت ثابت ہوتی اور اس سے جو علم حاصل ہوتا وہ یقینی ہوتا نہ کہ ظنی و اجتہادی، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قسم کو پورا کرنا اسی وقت ضروری ہے جب اس سے کسی شر و فساد کا خطرہ نہ ہو اور اگر بات ایسی ہے تو پھر قسم کو پورا کرنا ضروری نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3918)
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمیں فجر پڑھا کر فارغ ہوتے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے: ”کیا تم میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے؟“۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث ایک طویل قصے کے ضمن میں عوف اور جریر بن حازم سے مروی ہے، جسے یہ دونوں رجاء سے، رجاء، سمرہ سے اور سمرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۳- محمد بن بشار نے اسی طرح یہ حدیث وہب بن جریر سے اختصار کے ساتھ روایت کی ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 93 (1386)، والتعبیر 48 (7047)، صحیح مسلم/الرؤیا 4 (2275) (تحفة الأشراف: 4630) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (1 / 198 - 199)
|