عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خواب کے بارے میں مروی ہے جس میں آپ نے ابوبکر اور عمر کو دیکھا، آپ نے فرمایا:
”میں نے دیکھا کہ لوگ
(ایک کنویں پر) جمع ہو گئے ہیں، پھر ابوبکر نے ایک یا دو ڈول کھینچے اور ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی اللہ ان کی مغفرت کرے، پھر عمر رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ڈول کھینچا تو وہ ڈول بڑے ڈول میں بدل گیا، میں نے کسی مضبوط اور طاقتور شخص کو نہیں دیکھا جس نے ایسا کام کیا ہو، یہاں تک کہ لوگوں نے اپنی آرام گاہوں میں جگہ پکڑی
“ (یعنی سب آسودہ ہو گئے ۱؎)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ ابن عمر رضی الله عنہما کی روایت سے صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
● صحيح البخاري | 7019 | عبد الله بن عمر | بينا أنا على بئر أنزع منها إذ جاء أبو بكر وعمر فأخذ أبو بكر الدلو فنزع ذنوبا أو ذنوبين وفي نزعه ضعف فغفر الله له ثم أخذها عمر بن الخطاب من يد أبي بكر فاستحالت في يده غربا فلم أر عبقريا من الناس يفري فريه حتى ضرب الناس بعطن |
● صحيح البخاري | 3676 | عبد الله بن عمر | بينما أنا على بئر أنزع منها جاءني أبو بكر وعمر فأخذ أبو بكر الدلو فنزع ذنوبا أو ذنوبين وفي نزعه ضعف والله يغفر له ثم أخذها ابن الخطاب من يد أبي بكر فاستحالت في يده غربا فلم أر عبقريا من الناس يفري فريه فنزع حتى ضرب الناس بعطن |
● صحيح البخاري | 3682 | عبد الله بن عمر | أريت في المنام أني أنزع بدلو بكرة على قليب فجاء أبو بكر فنزع ذنوبا أو ذنوبين نزعا ضعيفا والله يغفر له ثم جاء عمر بن الخطاب فاستحالت غربا فلم أر عبقريا يفري فريه حتى روي الناس وضربوا بعطن |
● صحيح البخاري | 7020 | عبد الله بن عمر | رأيت الناس اجتمعوا فقام أبو بكر فنزع ذنوبا أو ذنوبين وفي نزعه ضعف والله يغفر له ثم قام ابن الخطاب فاستحالت غربا فما رأيت من الناس من يفري فريه حتى ضرب الناس بعطن |
● صحيح مسلم | 6196 | عبد الله بن عمر | أريت كأني أنزع بدلو بكرة على قليب فجاء أبو بكر فنزع ذنوبا أو ذنوبين فنزع نزعا ضعيفا والله تبارك و يغفر له ثم جاء عمر فاستقى فاستحالت غربا فلم أر عبقريا من الناس يفري فريه حتى روي الناس وضربوا العطن |
● جامع الترمذي | 2289 | عبد الله بن عمر | رأيت الناس اجتمعوا فنزع أبو بكر ذنوبا أو ذنوبين فيه ضعف والله يغفر له ثم قام عمر فنزع فاستحالت غربا فلم أر عبقريا يفري فريه حتى ضرب الناس بعطن |
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6196
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:"مجھے دکھایاگیا کہ میں ایک کنویں پر چرخی کے ڈول کو کھینچ رہا ہوں تو ابوبکر آگئے اور انہوں نے ایک دو ڈول کھینچے اور انہوں نے کمزوری کے ساتھ ڈول،کھینچا،اللہ تبارک وتعالیٰ اسے معاف فرمائے،پھرعمرآگئے،انہوں نے پانی نکالنا شروع کیا اور ڈول بہت بڑا ڈول بن گیا،میں نے کوئی ماہراور عبقری انسان اس جیسا کام سرانجام دیتے نہیں دیکھا،حتیٰ کہ لوگ سیراب ہوگئے اور اپنے اونٹوں کو پانی پلاکر ان کی جگہوں پر بٹھادیا،" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6196]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
بدلو بكرة:
چرخی کا ڈول ہے۔
(2)
بكرة:
اس چرخی کو کہتے ہیں،
جس پر ڈول لٹکایا جاتا ہے اور اگر کاف پر سکون پڑھیں تو جوان اونٹ کو کہتے ہیں،
مراد ہو گا،
اونٹوں کو پانی پلانے کا ڈول۔
(3)
يفري فريه:
ان کی طرح کاٹتا،
کیونکہ فَري کا معنی ہوتا ہے،
اصلاح اور بہتری کی خاطر کاٹنا،
مراد ہے بہترین طور پر کام کرنا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6196
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3682
3682. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے۔ کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک کنویں پر چرخی سے ڈول کھینچ رہا ہوں۔ اتنے میں حضرت ابو بکر ؓ آئے تو انھوں نے ایک یا دو ڈول پانی کے بھرے ہوئے کھینچے۔ ان کے پانی بھرنے میں کچھ کمزوری تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ پھر حضرت عمر ؓ آئےتو وہ ڈول ایک بڑے ڈول کی شکل اختیار کر گیا۔ میں نے کوئی شہ زوراور طاقتور آدمی نہیں دیکھا جس نے اتنی مہارت سےاپنا کام پورا کیا ہو، یہاں تک لوگ خود بھی سیراب ہوئے اور انھوں نے اپنے اونٹوں کو سیراب کر کے ان کے ٹھکانوں میں باندھ دیا۔“ ابن جبیر ؓ کہتے ہیں کہ عَبْقَرِيٍّ عمدۃ قالین کو کہتے ہیں۔ حضرت یحییٰ کہتے ہیں کہ زَرَابِيُّ باریک کناروں والی چادروں کو کہاجاتا ہے۔ مَبْثُوثَةٌ کے معنی کثرت کے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3682]
حدیث حاشیہ:
یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب حدیث میں لفظ ”بکرة“ بفتح با اور کاف ہو یعنی وہ گول لکڑی جس سے ڈول لٹکادیتے ہیں، اگر ”بکرة“ سکون کاف کے ساتھ ہوتو ترجمہ یوں ہوگا، وہ ڈول جس سے جو ان اونٹنی کو پانی پلاتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3682
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3676
3676. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں(خواب میں)ایک کنویں پر کھڑا اس سے پانی کھینچ رہا تھا کہ میرے پاس ابو بکروعمر ؓ بھی پہنچ گئے۔ پھر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ڈول لے لیا اور ایک یا دو ڈول کھینچے۔ ان کے پانی بھرنے میں کچھ کمزوری تھی۔ اللہ تعالیٰ اسے دور کردے گا۔ پھر ابو بکر ؓ کے ہاتھ سے وہ ڈول حضرت عمر ؓ نے لے لیا اور ان کے ہاتھ میں پہنچتے ہی وہ ڈول ایک بڑے ڈول کی شکل اختیار کر گیا۔ میں نے کوئی ہمت والا شہ زور انسان نہیں دیکھا جو اتنی حسن تدبیر اور قوت کے ساتھ کام کرنے کا عادی ہو، چنانچہ انھوں نے اتنا پانی کھنچا کہ لوگوں نے اپنے اونٹوں کو بھی پانی پلا کر بٹھا دیا۔“ (راوی حدیث)وہب نے بیان کیا کہ العطن اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ عرب کا محاورہ ہے۔ اونٹ سیراب ہوئے کہ(وہیں) بیٹھ گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3676]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث پہلے بھی گزرچکی ہے اور حضرت صدیق ؓ کی یہ ناتوانانی کوئی عیب نہیں ہے جو ان کے لیے خلقی تھی، اس ناتوانی کے باوجود ڈول انہوں نے پہلے سنبھالا، اسی سے حضرت عمر ؓ پر ان کی فوقیت ثابت ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3676
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3676
3676. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں(خواب میں)ایک کنویں پر کھڑا اس سے پانی کھینچ رہا تھا کہ میرے پاس ابو بکروعمر ؓ بھی پہنچ گئے۔ پھر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ڈول لے لیا اور ایک یا دو ڈول کھینچے۔ ان کے پانی بھرنے میں کچھ کمزوری تھی۔ اللہ تعالیٰ اسے دور کردے گا۔ پھر ابو بکر ؓ کے ہاتھ سے وہ ڈول حضرت عمر ؓ نے لے لیا اور ان کے ہاتھ میں پہنچتے ہی وہ ڈول ایک بڑے ڈول کی شکل اختیار کر گیا۔ میں نے کوئی ہمت والا شہ زور انسان نہیں دیکھا جو اتنی حسن تدبیر اور قوت کے ساتھ کام کرنے کا عادی ہو، چنانچہ انھوں نے اتنا پانی کھنچا کہ لوگوں نے اپنے اونٹوں کو بھی پانی پلا کر بٹھا دیا۔“ (راوی حدیث)وہب نے بیان کیا کہ العطن اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ عرب کا محاورہ ہے۔ اونٹ سیراب ہوئے کہ(وہیں) بیٹھ گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3676]
حدیث حاشیہ:
1۔
کنویں سے مراد دین کی طرف اشارہ ہے کہ جو حیاتِ نفوس کا منبع ہے اور جس سے معاش ومعاد سب کے معاملات پورے ہوتے ہیں۔
2۔
ضعف سے فتنہ ارتداد کی طرف اشارہ ہے جو ابوبکر ؓ کے دورخلافت میں ظاہر ہوا،جس میں ان کا کوئی قصور نہیں بلکہ انھوں نے استقامت کاپہاڑ بن کر ان فتنوں کا مقابلہ کیا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے ان کی نرم مزاجی کی طرف اشارہ ہو کہ و ہ سخت گیر نہ تھے۔
3۔
بہرحال اس کمزوری کے باوجود انھوں نے حضرت عمر ؓ سے پہلے ڈول سنبھالا،اس سے حضرت عمر ؓ پر ان کی فوقیت ثابت ہوتی ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3676
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3682
3682. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے۔ کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک کنویں پر چرخی سے ڈول کھینچ رہا ہوں۔ اتنے میں حضرت ابو بکر ؓ آئے تو انھوں نے ایک یا دو ڈول پانی کے بھرے ہوئے کھینچے۔ ان کے پانی بھرنے میں کچھ کمزوری تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ پھر حضرت عمر ؓ آئےتو وہ ڈول ایک بڑے ڈول کی شکل اختیار کر گیا۔ میں نے کوئی شہ زوراور طاقتور آدمی نہیں دیکھا جس نے اتنی مہارت سےاپنا کام پورا کیا ہو، یہاں تک لوگ خود بھی سیراب ہوئے اور انھوں نے اپنے اونٹوں کو سیراب کر کے ان کے ٹھکانوں میں باندھ دیا۔“ ابن جبیر ؓ کہتے ہیں کہ عَبْقَرِيٍّ عمدۃ قالین کو کہتے ہیں۔ حضرت یحییٰ کہتے ہیں کہ زَرَابِيُّ باریک کناروں والی چادروں کو کہاجاتا ہے۔ مَبْثُوثَةٌ کے معنی کثرت کے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3682]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں شیخین کی خلافت کی طرف اشارہ ہے اور رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے امور کو کنویں سے تشبیہ دی ہے۔
چونکہ لوگوں کی زندگی کا انحصار اور ان کی بقا کا سبب پانی ہے اور لوگوں کا پانی پلانا ان کے امور کی اصلاح اور ان کے مصالح کا انتظام کرنا ہے،حضرت عمر ؓ کے دورخلافت میں اسلام کی بہت ترقی ملی فتوحات ہوئیں جن کے نتیجے میں لوگ خوشحال ہوئے۔
آپ کے زمانہ خلافت میں عدل وانصاف کا خوب چرچا ہوا۔
بہرحال حضرت ابوبکر ؓ کے مقابلے میں ان کا دور حکومت بہت طویل تھا۔
فتوحات ہونے کے باوجود اختلاف کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ ملا جیسا کہ حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں ہوا،بالآخر حضرت عثمان ؓ کی شہادت اسی اختلاف کے نتیجے میں ہوئی۔
2۔
حدیث کے آخری الفاظ کہ لوگ بھی سیراب ہوئے اور انھوں نے اپنے اونٹوں کو بھی سیراب کیا،ان میں حضرت عمرفاروق ؓ کی خلافت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ان کے دور میں اسلام کو وسعت ہوئی اور لوگوں کو آرام اورسکون ملا۔
اس حدیث میں حضرت عمر ؓ کی منقبت اور فضیلت بیان ہوئی ہے۔
3۔
امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ حدیث میں مذکور کسی لفظ کی مناسبت سے قرآنی الفاظ کی لغوی تشریح کردیتے ہیں،چنانچہ آپ نے لفظ عبقری کی لغوی تشریح کی ہے اگرچہ حدیث میں اس سے مراد ماہر،تجربہ کار اور قوم کا سردار ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3682
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7019
7019. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک دفعہ میں کنویں سے پانی نکال رہا تھا کہ اچانک میرے پاس ابو بکر اور عمر آئے اور پھر ابو بکر نے ڈول لے لیا اور ایک یا دو ڈول پانی نکالا۔ ان کے پانی نکالنے میں کچھ کمزوری تھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے۔ اس کے بعد عمر ؓ آئے۔ انہوں نے ابو بکر کے ہاتھ سے ڈول لے لیا اور وہ ڈول ان کے ہاتھ میں بڑا ڈول بن گیا۔ میں نے لوگوں میں کسی ماہر کو نہیں دیکھا جو عمر کی طرح پانی کھینچتا ہو حتیٰ کہ لوگوں نے اونٹوں کے پینے کے لیے پانی سے حوض بھر لیے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7019]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خواب بیان ہوا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب وحی ہوتا تھا اس کی تعبیر خلافت و امارات کا عمل ہے۔
پانی نکالنا لوگوں کے لیے اجتماعی خدمات سر انجام دینا ہے۔
خلافت کا عمل حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو یا تین سال کیا۔
ان کے دور خلافت میں داخلی انتشار کی وجہ سے فتوحات نہ ہو سکیں جس کی طرف کمزوری کی صورت میں اشارہ کیا گیا ہے۔
ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس عمل کو سنبھالا تو انھوں نے پوری قوت کے ساتھ اس عمل کو سر انجام دیا فتوحات ہوئیں۔
اسلامی حکومت خوب وسیع ہوئی مال غنیمت سے لوگوں میں آسودگی آئی اور داخلی طور پر بھی استحکام پیدا ہوا۔
2۔
اس خواب میں واضح اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا عمل حضرت ابو بکر چلائیں گے۔
ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس منصب پر فائز ہوں گے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7019