سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: خواب کے آداب و احکام
Chapters On Dreams
10. باب مَا جَاءَ فِي رُؤْيَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِيزَانَ وَالدَّلْوَ
10. باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں ترازو اور ڈول دیکھنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2293
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسين بن محمد، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، قال: كان ابو هريرة يحدث، ان رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إني رايت الليلة ظلة ينطف منها السمن والعسل، ورايت الناس يستقون بايديهم فالمستكثر والمستقل، ورايت سببا واصلا من السماء إلى الارض، واراك يا رسول الله اخذت به فعلوت، ثم اخذ به رجل بعدك فعلا، ثم اخذ به رجل بعده فعلا، ثم اخذ به رجل فقطع به، ثم وصل له فعلا به، فقال ابو بكر: اي رسول الله، بابي انت وامي والله لتدعني اعبرها، فقال: " اعبرها "، فقال: اما الظلة فظلة الإسلام، واما ما ينطف من السمن والعسل، فهو القرآن لينه وحلاوته، واما المستكثر والمستقل فهو المستكثر من القرآن والمستقل منه، واما السبب الواصل من السماء إلى الارض فهو الحق الذي انت عليه فاخذت به فيعليك الله، ثم ياخذ به بعدك رجل آخر فيعلو به، ثم ياخذ به بعده رجل آخر فيعلو به، ثم ياخذ رجل آخر فينقطع به، ثم يوصل له فيعلو، اي رسول الله، لتحدثني اصبت او اخطات؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اصبت بعضا واخطات بعضا "، قال: اقسمت بابي انت وامي لتخبرني ما الذي اخطات؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تقسم "، قال هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو هُرَيْرَة يُحَدِّثُ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ ظُلَّةً يَنْطِفُ مِنْهَا السَّمْنُ وَالْعَسَلُ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَسْتَقُونَ بِأَيْدِيهِمْ فَالْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ، وَرَأَيْتُ سَبَبًا وَاصِلًا مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَأَرَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ بَعْدَكَ فَعَلَا، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ بَعْدَهُ فَعَلَا، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ فَقُطِعَ بِهِ، ثُمَّ وُصِلَ لَهُ فَعَلَا بِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي وَاللَّهِ لَتَدَعَنِّي أَعْبُرُهَا، فَقَالَ: " اعْبُرْهَا "، فَقَالَ: أَمَّا الظُّلَّةُ فَظُلَّةُ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا مَا يَنْطِفُ مِنَ السَّمْنِ وَالْعَسَلِ، فَهُوَ الْقُرْآنُ لِينُهُ وَحَلَاوَتُهُ، وَأَمَّا الْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ فَهُوَ الْمُسْتَكْثِرُ مِنَ الْقُرْآنِ وَالْمُسْتَقِلُّ مِنْهُ، وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ فَهُوَ الْحَقُّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ فَأَخَذْتَ بِهِ فَيُعْلِيكَ اللَّهُ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ بَعْدَكَ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ بَعْدَهُ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ بِهِ، ثُمَّ يُوصَلُ لَهُ فَيَعْلُو، أَيْ رَسُولَ اللَّهِ، لَتُحَدِّثَنِّي أَصَبْتُ أَوْ أَخْطَأْتُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا "، قَالَ: أَقْسَمْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي لَتُخْبِرَنِّي مَا الَّذِي أَخْطَأْتُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُقْسِمْ "، قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے تھے: ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں نے رات کو خواب میں بادل کا ایک ٹکڑا دیکھا جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا، اور لوگوں کو میں نے دیکھا وہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے پی رہے ہیں، کسی نے زیادہ پیا اور کسی نے کم، اور میں نے ایک رسی دیکھی جو آسمان سے زمین تک لٹک رہی تھی، اللہ کے رسول! اور میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ وہ رسی پکڑ کر اوپر چلے گئے، پھر آپ کے بعد ایک اور شخص اسے پکڑ کر اوپر چلا گیا، پھر اس کے بعد ایک اور شخص نے پکڑ اور وہ بھی اوپر چلا گیا، پھر اسے ایک اور آدمی نے پکڑا تو رسی ٹوٹ گئی، پھر وہ جوڑ دی گئی تو وہ بھی اوپر چلا گیا، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! - میرے باپ ماں آپ پر قربان ہوں - اللہ کی قسم! مجھے اس کی تعبیر بیان کرنے کی اجازت دیجئیے، آپ نے فرمایا: بیان کرو، ابوبکر نے کہا: ابر کے ٹکڑے سے مراد اسلام ہے اور اس سے جو گھی اور شہد ٹپک رہا تھا وہ قرآن ہے اور اس کی شیرینی اور نرمی مراد ہے، زیادہ اور کم پینے والوں سے مراد قرآن حاصل کرنے والے ہیں، اور آسمان سے زمین تک لٹکنے والی اس رسی سے مراد حق ہے جس پر آپ قائم ہیں، آپ اسے پکڑے ہوئے ہیں پھر اللہ تعالیٰ آپ کو اوپر اٹھا لے گا، پھر اس کے بعد ایک اور آدمی پکڑے گا اور وہ بھی پکڑ کر اوپر چڑھ جائے گا، اس کے بعد ایک اور آدمی پکڑے گا، تو وہ بھی پکڑ کر اوپر چڑھ جائے گا، پھر اس کے بعد ایک تیسرا آدمی پکڑے گا تو رسی ٹوٹ جائے گی، پھر اس کے لیے جوڑ دی جائے گی اور وہ بھی چڑھ جائے گا، اللہ کے رسول! بتائیے میں نے صحیح بیان کیا یا غلط؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کچھ صحیح بیان کیا اور کچھ غلط، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: میرے باپ ماں آپ پر قربان! میں قسم دیتا ہوں آپ بتائیے میں نے کیا غلطی کی ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم نہ دلاؤ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

وضاحت:
۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ تم نے صحیح بیان کرنے کے ساتھ کچھ غلط بیان کیا تو ابوبکر رضی الله عنہ سے تعبیر بیان کرنے میں کیا غلطی ہوئی تھی اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں: بعض کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر انہوں نے تعبیر بیان کی یہ ان کی غلطی ہے، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیان کرنے کی اجازت اپنے اس قول «أعبرها» سے دے دی تھی، بعض کا کہنا ہے کہ ابوبکر رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے پوچھنے سے پہلے ہی تعبیر بیان کرنے کی خواہش ظاہر کر دی یہ ان کی غلطی تھی، بعض کا کہنا ہے تعبیر بیان کرنے میں غلطی واقع ہوئی تھی، صحیح بات یہ ہے کہ اگر ابوبکر رضی الله عنہ اس خواب کی تعبیر کے لیے اپنے آپ کو پیش نہ کرتے تو شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر خود بیان کرتے اور ظاہر ہے کہ آپ کی بیان کردہ تعبیر اس امت کے لیے ایک بشارت ثابت ہوتی اور اس سے جو علم حاصل ہوتا وہ یقینی ہوتا نہ کہ ظنی و اجتہادی، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قسم کو پورا کرنا اسی وقت ضروری ہے جب اس سے کسی شر و فساد کا خطرہ نہ ہو اور اگر بات ایسی ہے تو پھر قسم کو پورا کرنا ضروری نہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأیمان والنذور 13 (3268)، سنن ابن ماجہ/الرؤیا 10 (3918)، وانظر أیضا: صحیح البخاری/التعبیر 11 (7000)، و 47 (7046)، وصحیح مسلم/الرؤیا 3 (2269) (تحفة الأشراف: 13575) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3918)

   جامع الترمذي2293عبد الرحمن بن صخررأيت الليلة ظلة ينطف منها السمن والعسل ورأيت الناس يستقون بأيديهم فالمستكثر والمستقل ورأيت سببا واصلا من السماء إلى الأرض وأراك يا رسول الله أخذت به فعلوت ثم أخذ به رجل بعدك فعلا ثم أخذ به رجل بعده فعلا ثم أخذ به رجل فقطع به ثم وصل له فعلا به فقال أبو بكر

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2293 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2293  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
نبی اکرمﷺکا یہ فرمانا کہ تم نے صحیح بیان کرنے کے ساتھ کچھ غلط بیان کیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تعبیربیان کرنے میں کیا غلطی ہوئی تھی اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں:

بعض کا کہنا ہے کہ نبی اکرمﷺکی اجازت کے بغیرانہوں نے تعبیربیان کی یہ ان کی غلطی ہے،
لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ آپ ﷺنے انہیں بیان کرنے کی اجازت اپنے اس قول (أعبرها) سے دے دی تھی،
بعض کا کہنا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺسے آپ کے پوچھنے سے پہلے ہی تعبیربیان کرنے کی خواہش ظاہر کردی یہ ان کی غلطی تھی۔

بعض کا کہنا ہے تعبیربیان کرنے میں غلطی واقع ہوئی تھی،

صحیح بات یہ ہے کہ اگرابوبکر رضی اللہ عنہ اس خواب کی تعبیر کے لیے اپنے آپ کوپیش نہ کرتے تو شاید آپ ﷺاس کی تعبیرخود بیان کرتے اورظاہرہے کہ آپ کی بیان کردہ تعبیراس امت کے لیے ایک بشارت ثابت ہوتی اوراس سے جوعلم حاصل ہوتا وہ یقینی ہوتا نہ کہ ظنی واجتہادی،
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ قسم کو پورا کرنا اسی وقت ضروری ہے جب اس سے کسی شروفساد کا خطرہ نہ ہو اوراگربات ایسی ہے تو پھر قسم کو پورا کرنا ضروری نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2293   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.