سنن نسائي
كتاب آداب القضاة
کتاب: قاضیوں اور قضا کے آداب و احکام اور مسائل
28. بَابُ : شَفَاعَةِ الْحَاكِمِ لِلْخُصُومِ قَبْلَ فَصْلِ الْحُكْمِ
باب: فیصلہ سے پہلے حاکم کسی فریق کے حق میں سفارش کرے تو اس کے جواز کا بیان۔
حدیث نمبر: 5419
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا , يُقَالُ لَهُ: مُغِيثٌ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَطُوفُ خَلْفَهَا يَبْكِي وَدُمُوعُهُ تَسِيلُ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ:" يَا عَبَّاسُ , أَلَا تَعْجَبْ مِنْ حُبِّ مُغِيثٍ بَرِيرَةَ وَمِنْ بُغْضِ بَرِيرَةَ مُغِيثًا"، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ رَاجَعْتِيهِ فَإِنَّهُ أَبُو وَلَدِكِ"، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَأْمُرُنِي؟، قَالَ:" إِنَّمَا أَنَا شَفِيعٌ"، قَالَتْ: فَلَا حَاجَةَ لِي فِيهِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر غلام تھے جنہیں مغیث کہا جاتا تھا، گویا میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس (بریرہ) کے پیچھے پیچھے روتے پھر رہے ہیں، اور ان کے آنسو ڈاڑھی پر بہہ رہے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: عباس! کیا آپ کو حیرت نہیں ہے کہ مغیث بریرہ سے کتنی محبت کرتا ہے اور بریرہ مغیث سے کس قدر نفرت کرتی ہے؟، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (بریرہ) سے فرمایا: ”اگر تم اس کے پاس واپس چلی جاتی (تو بہتر ہوتا) اس لیے کہ وہ تمہارے بچے کا باپ ہے“، وہ بولیں: اللہ کے رسول! کیا مجھے آپ حکم دے رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، میں تو سفارش کر رہا ہوں“، وہ بولیں: پھر تو مجھے اس کی ضرورت نہیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 16 (5283)، سنن ابی داود/الطلاق 19 (2231)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 29 (2077)، (تحفة الأشراف: 6048)، مسند احمد (1/215) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مغیث اور بریرہ (رضی اللہ عنہما) کے معاملہ میں عدالتی قانونی فیصلہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ ”بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزادی مل جانے کے بعد مغیث کے نکاح میں نہ رہنے کا حق حاصل ہے“ مگر اس عدالتی فیصلہ سے پہلے بریرہ رضی اللہ عنہا سے قانوناً نہیں اخلاقی طور پر مغیث کے نکاح میں باقی رہنے کی سفارش کی، یہی باب سے مناسبت ہے، اور اس طرح کی سفارش صرف ایسے ہی معاملات میں کی جا سکتی ہے، جس میں مدعی کو اختیار ہو (جیسے بریرہ کا معاملہ اور قصاص ودیت والا معاملہ وغیرہ) لیکن چوری و زنا کے حدود کے معاملے میں اس طرح کی سفارش نہیں کی جا سکتی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
سنن نسائی کی حدیث نمبر 5419 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5419
اردو حاشہ:
(1) اگر کوئی فریق یا شخص کسی اہم راہنما یا حاکم وغیرہ کی سفارش قبول نہ کرے تو کوئی حرج نہیں۔ سفارش کرنا مشروع ہے جبکہ سفارش قبول کرنا ضروری نہیں‘ لہٰذا سفارش کرنے والے شخص کوسفارش قبول نہ کرنے پرغصہ نہیں کرنا چاہیے اورنہ اسے کسی قسم کا کوئی اورنقصان ہی پہنچانا چاہیے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کی درخواست کے بغیر ازخود بھی سفارش کرنا درست اور جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کے مطالبہ سفارش کے بغیر ہی حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے سفارش فرمائی تھی۔ اور پھر ان کے سفارش قبول نہ کرنے پراظہار ناراضی قطعا نہیں فرمایا‘ البتہ اصلاح کی کوشش ضرور فرمائی ہے اور یہ مستحب ہے۔
(3) یہ حدیث مبارکہ حضر ت بریرہ رضی اللہ عنہا کے اس حسن ادب کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جو ان سے رسول اللہ ﷺ کی بابت صادر ہوا کہ انھوں نے پوچھا: آپ حکم فرما رہے ہیں یا سفارش؟ نیز انھوں نے صراحتا آپ کی سفارش کو رد نہیں کیا بلکہ یہ کہ مجھے ان کی ضرورت نہیں۔
(4) کسی چیز کی حد سے زیادہ محبت حیا ختم کر دیتی ہے اور آدمی اندھا بہرا ہوجاتا ہے۔
(5) جھگڑا کرنے والے‘ خواہ میاں بیوی ہوں یا کوئی اور ان کے مابین صلح کرانا اورجھگڑا ختم کرنے کی سفارش کرنا مستحب اورپسندیدہ شرعی عمل ہے نیز مومن کے دل کو مسرور کرنا اورقلبی مسرت وخوشی بہم پہنچانا بھی مستحب ہے۔
(6) یہ مسئلہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ لونڈی آزاد ہوجائے اوراس کا خاوند ابھی غلام ہو تواسے اختیار ہے نکاح قائم رکھے یا توڑ دے۔ یہاں یہی مسئلہ تھا۔ گویا ضروری نہیں حاکم فیصلہ ہی کرے بلکہ وہ کسی ایک فریق سے دوسرے کےحق میں سفارش کرکے مصالحت بھی کرا سکتا ہے بلکہ یہ افضل ہے خصوصا جہاں ٹوٹ پھوٹ کا معاملہ ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5419
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2231
´آزاد یا غلام کے نکاح میں موجود لونڈی کی آزادی کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مغیث رضی اللہ عنہ ایک غلام تھے وہ کہنے لگے: اللہ کے رسول! اس سے میری سفارش کر دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بریرہ! اللہ سے ڈرو، وہ تمہارا شوہر ہے اور تمہارے لڑکے کا باپ ہے“ کہنے لگیں: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے ایسا کرنے کا حکم فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں بلکہ میں تو سفارشی ہوں“ مغیث کے آنسو گالوں پر بہہ رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: ”کیا آپ کو مغیث کی بریرہ کے تئیں محبت اور بریرہ کی مغیث کے تئیں نفر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2231]
فوائد ومسائل:
1۔
غلام اور لونڈی اگر عقد زوجیت میں منسلک ہوں لیکن لونڈی کو پہلے آزادی مل جائےتو اسے اپنے (غلام) شوہر کی زوجیت میں رہنے یا نہ رہنے کا اختیار حاصل ہے۔
اگر شوہر پہلے آزاد ہوجائےتو بیوی کو کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
درج ذیل احادیث میں مذکورہواقعہ بریرہ (لونڈی) اور اس کے شوہر مغیث (غلام) کا ہے۔
بریرہ رضی اللہ عنہ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے پہلے آزاد کر دیا تھا جبکہ مغیث رضی اللہ عنہ غلام ہی رہے تھے۔
2۔
بریرہ رضی اللہ عنہ جیسی عورت جسے ایک صحیح حدیث میں ناقص العلقل کہا گیا ہے دین کے معاملے میں کس قدر دانا تھیں۔
وہ جانتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ٹال دینا دین ودنیا کا خسارا ہے مگر جب آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ میری یہ بات حکم نہیں محض سفارش ہے تو انہوں نے شرعاً حاصل شدہ اختیار کو ترجیح دی۔
اس واقعہ میں حریت فکر کا درس ہے اور اور یہ بھی کہ یہ آزادی اللہ کے دین اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے مشروط ہے کیونکہ اللہ تعالی انسان کا خالق ہے اور رسول اللہ ﷺ اللہ کے پیامبر ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2231
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2232
´آزاد یا غلام کے نکاح میں موجود لونڈی کی آزادی کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر ایک کالے کلوٹے غلام تھے جن کا نام مغیث رضی اللہ عنہ تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (مغیث کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا اور (نہ رہنے کی صورت میں) انہیں عدت گزارنے کا حکم فرمایا۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2232]
فوائد ومسائل:
صحیح حدیث میں ہے کہ اسے تین حیض عدت گزارنے کا حکم دیا گیا تھا۔
(سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث:2077) کیونکہ وہ آزاد ہو چکی تھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2232
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2075
´آزاد ہو جانے کے بعد لونڈی کو اختیار ہے کہ وہ اپنے شوہر کے پاس رہے یا نہ رہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کا شوہر غلام تھا اس کو مغیث کہا جاتا تھا، گویا کہ میں اس وقت اس کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ بریرہ کے پیچھے پھر رہا ہے، اور رو رہا ہے اور اس کے آنسو اس کے گالوں پہ بہہ رہے ہیں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عباس رضی اللہ عنہ سے فرما رہے ہیں: ”عباس! کیا تمہیں بریرہ سے مغیث کی محبت اور مغیث سے بریرہ کی نفرت پہ تعجب نہیں ہے“؟ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا سے کہا: ”کاش تو مغیث کے پاس لوٹ جاتی، وہ تیرے بچے کا باپ ہے“، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2075]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر خاوند اور بیوی دونوں غلام ہوں، پھر عورت آزاد ہوجائے تو اسے اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ چاہے اس خاوند کے ساتھ رہے، چاہے تو الگ ہوجائے۔
(2)
الگ ہونے کا فیصلہ کرلینے سے پہلا نکاح ختم ہوجاتا ہے لیکن نئے نکاح کے ساتھ وہ دوبارہ اکٹھے ہوسکتے ہیں۔
رسول اللہﷺ نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو رجوع کرنے کا مشورہ دیا، اس کا یہی مطلب ہے کہ دوبارہ نکاح کرلو۔
(3)
اگر پہلے خاوند آزاد ہوجائے تو بیوی کو یہ اختیار نہیں ہوتا۔
(4)
رسول اللہﷺ کے مشورے اور حکم میں شرعی طور پر فرق ہے۔
حکم ماننا فرض ہے اور مشورہ تسلیم کرنا فرض نہیں، مومن اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کرسکتا ہے۔
(5)
رسول اللہﷺ نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو رجو ع کا حکم نہیں دیا کیونکہ شریعت نے حضرت بریرہ ؓ کو جو حق دیا تھا، رسول اللہﷺ انہیں اس سے محروم نہیں کرسکتے تھے۔
(6)
محبت اور نفرت فطری چیزیں ہیں۔
عام معاملات میں کسی کو کسی چیزسے محبت یا نفرت پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، البتہ ارادے سے کی جانے والی محبت کا تعلق ایمان سے ہے جس میں اللہ عزوجل کی محبت، رسول اللہﷺ کی محبت اور نیک لوگوں سے محبت شامل ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2075
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5283
5283. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے، سیدہ بریرہ ؓ کے شوہر غلام تھے جنہں مغیث کہا جاتا تھا۔ گویا وہ منظر اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے جب وہ بریرہ ؓ کے پیچھے روتے ہوئے گھوم رہے تھے اور ان کے آنسو ان کی ڈاڑھی پر بہہ رہے تھے۔ نبی ﷺ نے سیدنا عباس ؓ نے فرمایا: ”اے عباس! کیا تمہیں مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی مغیث سے نفرت پر حیرت نہیں؟“ آخر نبی ﷺ نے سیدہ بریرہ ؓ سے فرمایا: ”تم اب بھی مغیث کے متعلق فیصلہ بدل لو۔“ انہوں نے عرض کی: آپ نے فرمایا: ”نہیں، میں صرف سفارش کر رہا ہوں۔“ اس پر سیدہ بریرہ نے کہا: مجھے مغیث کے پاس رہنے کی کوئی خواہش نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5283]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور آپ کی سفارش میں فرق معلوم ہوا کہ آپ کا حکم تو وجوب کے لیے ہے جس کا ماننا ضروری ہے لیکن سفارش قبول کرنا ضروری نہیں۔
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے جواب میں سفارش قبول نہ کرنے کا عذر بیان کیا ہے کہ مجھے حضرت مغیث رضی اللہ عنہ سے کوئی غرض نہیں ہے اور نہ ان سے رجوع ہی کرنے میں میری کوئی بھلائی پوشیدہ ہے۔
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کی اولاد بھی تھی، اس کے باوجود اس نے انکار کر دیا کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارش کرتے ہوئے فرمایا:
”تم اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرلو کیونکہ وہ تیری اولاد کا باپ ہے۔
“ (سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث: 2075) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام، عالم اور صاحب اختیار سے رعایا کی ضرورت پوری کرنے کے لیے سفارش کرائی جا سکتی ہے۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5283