(مقطوع) اخبرنا محمد، قال: حدثنا حبان، قال: انبانا عبد الله، عن معمر، عن حماد، وقتادة:" في رجل قال لرجل: استكري منك إلى مكة بكذا وكذا، فإن سرت شهرا او كذا وكذا شيئا سماه فلك زيادة كذا وكذا. فلم يريا به باسا , وكرها ان يقول: استكري منك بكذا وكذا، فإن سرت اكثر من شهر نقصت من كرائك كذا وكذا". (مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ حَمَّادٍ، وَقَتَادَةَ:" في رجل قَالَ لِرَجُلٍ: أَسْتَكْرِي مِنْكَ إِلَى مَكَّةَ بِكَذَا وَكَذَا، فَإِنْ سِرْتُ شَهْرًا أَوْ كَذَا وَكَذَا شَيْئًا سَمَّاهُ فَلَكَ زِيَادَةُ كَذَا وَكَذَا. فَلَمْ يَرَيَا بِهِ بَأْسًا , وَكَرِهَا أَنْ يَقُولَ: أَسْتَكْرِي مِنْكَ بِكَذَا وَكَذَا، فَإِنْ سِرْتُ أَكْثَرَ مِنْ شَهْرٍ نَقَصْتُ مِنْ كِرَائِكَ كَذَا وَكَذَا".
حماد اور قتادہ سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے سلسلے میں پوچھا گیا، جس نے ایک آدمی سے کہا: میں تجھ سے مکے تک کے لیے اتنے اور اتنے میں کرائے پر (سواری) لیتا ہوں۔ اگر میں ایک مہینہ یا اس سے کچھ زیادہ - اور اس نے فاضل مسافت کی تعیین کر دی - چلا تو تیرے لیے اتنا اور اتنا زیادہ کرایہ ہو گا۔ تو اس (صورت) میں انہوں نے کوئی حرج نہیں سمجھا۔ لیکن اس (صورت) کو انہوں نے ناپسند کیا کہ وہ کہے کہ میں تم سے اتنے اور اتنے میں کرائے پر (سواری) لیتا ہوں، اب اگر مجھے ایک مہینہ سے زائد چلنا پڑا ۱؎، تو میں تمہارے کرائے میں سے اسی قدر اتنا اور اتنا کاٹ لوں گا ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: سواری کی سست رفتاری کے سبب ایسا کرنا پڑا تو ایسا کروں گا ۲؎: متعین مسافت (دوری) کو تیزی کی وجہ سے وقت سے پہلے طے کر لینے پر زیادہ اجرت بطور انعام و اکرام ہے اس لیے دونوں نے اس کو جائز قرار دیا ہے، اور دھیرے دھیرے چلنے کی وجہ سے کرائے میں کمی کرنا ظلم اور دوسرے کے حق کو چھیننے کے مشابہ ہے، یہی وجہ کہ دونوں نے اس دوسری صورت کو مکروہ جانا ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3891
اردو حاشہ: مقصود یہ ہے کہ سواری تیز چلی اور وقت کم لگا تو تجھے زیادہ رقم دوں گا اور اگر سواری تیز نہ چلی اور وقت زیادہ لگا تو میں تجھے کم کرایہ دوں گا۔ پہلی صورت اس لیے جائز ہے کہ اس میں انعام دینے کی صورت ہے۔ اور ظاہر ہے انعام دینا تو جائز ہے۔ دوسری صورت اس لیے منع ہے کہ اس میں سواری والے پر ظلم ہے۔ ایک تو وقت زیادہ لگا اور دوسرا کرایہ بھی کم۔ اور ظلم جائز نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3891