فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2615
´صدقہ و زکاۃ بدل کر ہدیہ ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خرید کر آزاد کر دینا چاہا، لیکن ان کے مالکان نے ولاء (ترکہ) خود لینے کی شرط لگائی۔ تو انہوں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ”اسے خرید لو، اور آزاد کر دو، ولاء (ترکہ) اسی کا ہے جو آزاد کرے“، اور جس وقت وہ آزاد کر دی گئیں تو انہیں اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے شوہر کی زوجیت میں رہیں یا نہ رہیں۔ (اسی درمیان) رسول ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2615]
اردو حاشہ:
(1) حضرت بریرہؓ کسی اور خاندان کی لونڈی تھیں۔ حضرت عائشہؓ کے پاس خدمت کے لیے آتی جاتی رہتی تھیں۔ انھوں نے اپنے مالکوں سے آزادی کا معاہدہ کیا کہ میں قسط وار اپنی قیمت خود ادا کر دوں گی، مجھے آزاد کر دو۔ وہ مان گئے۔ حضرت عائشہؓ کو پتہ چلا تو انھوں نے پیش کش کی کہ میں پوری قیمت دے کر ابھی خرید لیتی ہوں اور آزاد کر دیتی ہوں۔ مالک راضی ہوگئے مگر کہنے لگے: وَلَا کا حق ہمارا ہوگا، حالانکہ مولیٰ وہی ہوتا ہے جو آزاد کرے۔ حضرت عائشہؓ نے یہ مسئلہ رسول اللہﷺ کے سامنے پیش کیا تو اپ نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔ (2) ”وَلَا“ سے مراد وہ حق ہے جو آزاد کرنے والے کو آزاد کردہ غلام پر ہوتا ہے، مثلاً: وہ اس کا مولیٰ کہلاتا ہے۔ اگر غلام فوت ہو جائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو مالک کو وراثت ملتی ہے، وغیرہ۔ (3) اگر منکوحہ لونڈی آزاد ہو جائے تو آزادی کے بعد اسے اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو سابقہ خاوند سے نکاح قائم رکھے، چاہے تو نکاح فسخ کر دے۔ لیکن جمہور اہل علم کے نزدیک یہ اختیار تب ہے اگر اس کا خاوند غلام ہو۔ اگر وہ آزاد ہو تو عورت کو باوجود آزاد ہونے کے نکاح ختم کرنے کا اختیار نہیں۔ حضرت بریرہؓ کے خاوند غلام تھے، نام ان کا مغیث تھا۔ البتہ احناف کے نزدیک خاوند آزاد ہو یا غلام، آزاد ہونے والی کو نکاح ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ (4) ”گوشت لایا گیا۔“ یہ گوشت صدقے کا تھا۔ کسی نے حضرت بریرہؓ کو بھیجا تھا۔ انھوں نے کچھ گوشت بطور تحفہ حضرت عائشہؓ کے پاس بھیج دیا۔ ظاہر ہے گوشت جس کو صدقے میں دے دیا جائے اس کی ملک ہوگیا، اب وہ جسے صدقے کے طور پر دے، اس کے لیے صدقہ ہے۔ جسے تحفے کے طور پر دے، اس کے لیے تحفہ ہے۔ اسی لیے نبیﷺ نے وہ گوشت تناول فرمایا۔ (5) ”آزاد تھا۔“ دوسری روایات میں صراحت ہے کہ یہ حضرت اسود کا قول ہے، نہ کہ حضرت عائشہؓ کا۔ اور اسود تابعی ہیں۔ دوسری روایات میں حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم کا صریح فرمان ہے کہ بریرہ کا خاوند غلام تھا۔ (صحیح البخاری، الطلاق، حدیث: 5282، وصحیح مسلم، العتق، حدیث: 1504) اگر وہ غلام نہ ہوتا تو اسے اختیار نہ دیا جاتا کیونکہ عورت آزاد ہونے کے باوجود خاوند سے بلند رتبہ نہیں ہوتی۔ (6) تفصیلی روایات میں صراحت ہے کہ حضرت بریرہؓ نے باوجود حضرت مغیث کی منت سماجت کے نکاح ختم کر دیا تھا۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الطلاق، حدیث: 2583)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2615
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3477
´آزادی پانے والی لونڈی کو اپنے غلام شوہر کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا سے تین سنتیں تھیں ۱؎، ایک یہ کہ وہ لونڈی تھیں آزاد کی گئیں، (آزادی کے باعث) انہیں ان کے شوہر کے سلسلہ میں اختیار دیا گیا (اپنے غلام شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا) اور (دوسری سنت یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے“، اور (تیسری سنت یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3477]
اردو حاشہ:
(1) ”اختیار دیا گیا“ کیونکہ ان کا خاوند ”مغیث“ ابھی غلام تھا۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ نے نکاح ختم کردیا تھا۔ معلوم ہوا عورت کے آزاد ہونے سے طلاق واقع ہوگی نہ فسخ نکاح ہوگا بلکہ اختیار ملے گا۔
(2) ”حق ولا“ سے مراد ہو حق ہے جو آزاد کرنے والے کو آزاد شدہ غلام پر ہوتا ہے کہ اسے اس کا مولیٰ کہا جاتا ہے۔ اور یہ آزاد شدہ غلام فوت ہوجائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو آزاد کرنے والا اس کا وارث بھی بنے گا۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی آزادی کے لیے حضرت عائشہؓ سے رابطہ کیا تو انہوں نے فرمایا: میں تمہیں یک مشت خرید کر آزاد کردیتی ہوں۔ مالک بیچنے پر تو راضی ہوگئے مگر ”حق ولا“ اپنے لیے مانگنے لگے‘ حالانکہ یہ حق تو اسی کا ہے جو غلام کو لوجہ اللہ آزاد کرے۔
(3) ”ہدیہ ہے“ اس سے یہ اصول سمجھ میں آیا کہ جو چیز بذات خود پلید اور حرام نہیں‘ ا س کی حیثیت بدلتی رہتی ہے‘ مثلاً: رشوت یا سود کا پیسہ اس شخص کے لیے حرام ہے جو رشوت یا سود لے رہا ہے‘ لیکن اگر رشوت یا سود لینے والا وہ رقم آگے کسی کو بطور اجرت یا قیمت دے تو لینے والے کے لیے جائز ہوگی‘ حرام نہیں ہوگی کیونکہ رقم بذات خود پلید یا حرام نہیں بلکہ اس کی حیثیت اسے حلال یا حرام بناتی ہے۔ زکاۃ کی رقم مال دار کے لیے حرام مگر فقیر کے لیے حلال ہے۔ یہ اصول بہت اہم ہے۔
(4) میاں بیوی غلام ہوں تو کسی ایک سے مکاتبت کر کے اسے آزاد کیا جاسکتا ہے۔ ضمناً یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ کسی ایک کو آگے بیچا جاسکتا ہے۔
(5) اگر کسی غلط اور غیر شرعی کام کاج لوگ ارتکاب کررہے ہوں تو علماء کو مسئلے کی وضاحت کرنی چاہیے اور اس کے متعلق شرعی احکام نمایاں کرنے چاہئیں‘ نیز جس شرعی کام اور رسم کا وہ مستقبل میں ارتکاب کرنے والے ہوں اس کے بارے میں بروقت اپنے خطبے میں وضاحت کردینی چاہیے۔
(6) نیک بیوی ہر معاملے میں اپنے خاوند کی خیر خواہ ہوتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے آپ کو گوشت کا سالن نہ دیا کیونکہ انہیں علم تھا کہ آپ صدقے کی چیز نہیں کھاتے‘ ورنہ آپ کو علم نہ تھا کیونکہ آپ عالم غیب نہ تھے۔
(7) صدقے اور ہدیے میں فرق ہے۔
(8) آزاد کرنے والا آزاد کردہ سے تحفہ قبول کرسکتا ہے۔ اس سے آزاد کرنے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3477
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3479
´آزاد شخص کی غلام بیوی آزاد ہو تو اسے اختیار کا حق حاصل ہو گا۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا تو اس کے (بیچنے والے) مالکان نے اس کی ولاء (وراثت) کی شرط لگائی (کہ اس کے مرنے کا ترکہ ہم پائیں گے)، میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ”تم اسے آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہوتا ہے جو پیسہ خرچ کرے (یعنی لونڈی یا غلام خرید کر آزاد کرے)، چنانچہ میں نے اسے آزاد کر دیا پھر (میرے آزاد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3479]
اردو حاشہ:
(1) ”جو خریدتا ہے“ یعنی خریدنے کے بعد اسے آزاد بھی کرتا ہے ورنہ صرف خریدنے سے حق ولا نہیں ملتا۔
(2) ”اس کا خاوند آزاد تھا“ یہ حضرت عائشہؓ کے الفاظ نہیں بلکہ حضرت اسود کے ہیں جو کہ تابعی ہیں اور وہ موقع پر موجود نہیں تھے جب کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے غلام ہونے کی صراحت آتی ہے۔ یہ دونوں موقع کے گواہ ہیں۔ ظاپر ہے ان کی گواہی معتبر ہے۔ حضرت اسود کو غلطی لگی ہے۔ احناف کہہ دیتے ہیں کہ پہلے وہ غلام تھا‘ پھر بریرہ کی آزادی سے پہلے وہ آزاد ہو گیا تھا لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ حضرت عائشہ وحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بریرہ اور اس کی آزادی کے وقت کی بات کر رہے ہیں۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس واقعے کے بعد وہ بھی آزاد ہوگیا تھا۔ اس میں کوئی اشکال نہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3479
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3480
´آزاد شخص کی غلام بیوی آزاد ہو تو اسے اختیار کا حق حاصل ہو گا۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے ولاء (میراث) خود لینے کی شرط رکھی، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے خرید لو اور آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے ۱؎، اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانے کے لیے) گوشت لایا گیا اور بتا بھی دیا گیا کہ یہ اس گوشت میں سے ہے جو بریرہ رضی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3480]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث:3476‘3477‘3479۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3480
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3484
´شوہر غلام ہو اور لونڈی بیوی آزاد کر دی جائے تو اسے حق خیار حاصل ہو گا۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں آپ کی رائے پوچھی، میرا ارادہ اسے خرید لینے کا ہے، لیکن اس کے مالکان کی طرف سے (اپنے لیے) ولاء (میراث) کی شرط لگائی گئی ہے (پھر میں کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس شرط کے ساتھ بھی) تم اسے خرید لو (یہ شرط لغو و باطل ہے) ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہے جو آزاد کرے۔“ راوی ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3484]
اردو حاشہ:
”میں نہیں جانتا“ کہ وہ آزاد تھا یا غلام راوئ حدیث عبدالرحمن بن قاسم اس بارے میں متردد تھے۔ کبھی انہوں نے آزاد کہا‘ کبھی غلام اور کبھی کہا کہ پتہ نہیں آزاد تھا یا غلام۔ محفوظ بات یہی ہے کہ وہ غلام تھا۔ عروہ نے ان کی اس بات کی موافقت کی ہے۔ بعد میں واقع ہونے والے شک سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ پہلی بات بالجزم ہو اور اس میں اوثق راویوں کی موافقت بھی ہو۔ باقی تفصیلات پچھلے دو تین ابواب میں ذکر ہوچکی ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3484
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4646
´بیع میں اگر شرط فاسد ہو تو بیع صحیح ہو جائے گی اور شرط باطل ہو گی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا تو ان کے گھر والوں نے ولاء (وراثت) کی شرط لگائی، میں نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ”اسے آزاد کر دو، کیونکہ ولاء (وراثت) اس کا حق ہے جس نے درہم (روپیہ) دیا ہے“، چنانچہ میں نے انہیں آزاد کر دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور انہیں ان کے شوہر کے بارے میں اختیار دیا ۱؎ تو بریرہ ر [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4646]
اردو حاشہ:
(1) اگر کوئی شخص بیع کرتے وقت ایسی شرط لگاتا ہے جو شرعاً درست نہ ہو تو اس صورت میں بیع کرنا درست ہو گا جبکہ وہ شرط جو خلاف شریعت ہو، باطل ہو گی، لہٰذا اس شرط کو کا لعدم سمجھا جائے گا اور اس کا کوئی لحاظ نہیں ہو گا جیسا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں رسول اللہ ﷺ نے پوری وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ بیان فرمایا ہے۔
(2) اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں اور مختلف روایت میں مختلف الفاظ مذکور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث بیان کرنے والے راویوں نے کہیں تفصیلی روایت بیان کی ہے اور کہیں اختصار سے کام لیا ہے اور یہ سب کچھ ضرورت کے مطابق کیا گیا ہے۔ روائ حدیث کے اس قسم کے تصرف کو تمام محدثین عظام نے من و عن قبول کیا ہے اور حق بھی یہی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ احادیث سے مختلف احکام و مسائل اخذ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ (لہٰذا یہاں بھی مذکورہ حدیث سے علماء نے متعدد مسائل استنباط کیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔)
(3) مکاتبت جائز ہے۔ مکاتبت اس عہد و پیمان کو کہا جاتا ہے جو مالک اور اس کے غلام یا لونڈی کے درمیان، متعین رقم یک مشت دینا اور اس کی قسطیں کرنا، دونوں طرح جائز ہے۔ لونڈی یا غلام کی مکاتبت کی رقم دوسرا شخص دے سکتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا شخص مکاتبت کی طے شدہ رقم ادا کر دے اور لونڈی و غلام کو آزاد کر دے تو وہ آزاد ہو جائیں گے، البتہ اس صورت میں اس لونڈی یا غلام کے ولاء کا حق دار آزاد کرنے والا ہو گا نہ کہ پہلا مالک۔
(4) ولاء اس ربط و تعلق کو کہتے ہیں جو آزاد کرنے والے اور آزاد کردہ کے مابین، آزاد کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ تعلق نہ تو بیچا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ تعلق بالکل اسی طرح کا ہوتا ہے جیسا کہ باپ اور بیٹے کے درمیان والا تعلق ہوتا ہے جو نہ بیچا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس تعلق کا فائدہ یہ ہے کہ اگر آزاد کردہ شخص کے عصبہ اور ذوی الفروض (جن کا حصہ میراث مقرر ہے) نہ ہوں تو اس کی تمام جائداد کا مالک آزاد کرنے والا ہوتا ہے۔
(5) اگر کوئی لونڈی یا غلام اپنی مکاتبت کی رقم کی ادائیگی کے لیے دستِ سوال دراز کرے تو یہ سوال کرنا درست ہے اور اس سلسلے میں اس کی مدد بھی کرنی چاہیے، نیز اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مستحق آدمی کا اپنی جائز ضرورت یا ضروریات پوری کرنے کی خاطر سوال کرنا درست ہے۔
(6) اس حدیث مبارکہ سے باہمی مشاورت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے خصوصاً میاں بیوی کی باہمی مشاورت کا اثبات ہوتا ہے، نیز اگر بیوی خاوند سے کسی مسئلے میں مشورہ طلب کرے تو خاوند کے لیے ضروری ہے کہ اسے درست مشورہ دے۔
(7) اگر لونڈی یا غلام اپنی مکاتبت کی طے شدہ رقم ادا نہ کر سکتے ہوں تو انھیں بیچا جا سکتا ہے۔ اس کی دلیل رسول اللہ ﷺ کے الفاظ مبارک اشتريها وَ أعتقيها ہیں، یعنی اسے خریدو اور آزاد کر دو۔ دیکھیے: (صحيح البخاري، المكاتب، باب المكاتب و نحوه۔۔۔۔۔۔الخ، حديث:2560،و صحيح مسلم، العتق، باب ذكر سعاية العبد، حديث:1504)
(8) اگر میاں بیوی دونوں غلام ہوں تو ان میں سے کسی ایک کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ دونوں اکٹھے ہی بیچے جائیں۔
(9) اس حدیث بریرہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس لونڈی یا غلام کے پاس مال وغیرہ نہ ہو، اس سے مکاتبت کرنا، یعنی اسے مکاتب بنانا درست ہے، خواہ اس کے پاس مال کمانے کے وسائل ہوں یا نہ ہوں۔
(10) مکاتب لونڈی یا غلام اس وقت تک آزاد نہیں ہوں گے جب تک مکاتبت کے بابت طے شدہ ساری رقم ادا نہ کردیں۔ جب تک ان کے ذمے ایک درہم بھی باقی ہے وہ غلام ہی رہیں گے اور اسی اصل کے مطابق ان پر دیگر احکام جاری ہوں گے، یعنی نکاح، طلاق اور حدود وغیرہ کے احکام غلاموں والے ہی ان پر لاگو ہوں گے۔
(11) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ظابر ہوتا ہے کہ شادی شدہ لونڈی کی فروخت اور آزادی نہ طلاق ہو گی اور نہ فسخ نکاح ہی، اس لیے کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو بعد ازاں اختیار دیا گیا تھا کہ چاہے تو وہ اپنے خاوند مغیث کے نکاح میں رہے اور چاہے تو اس سے الگ ہوجائے۔ اس اختیار کے بعد انھوں نے اپنے خاوند سے علیحدگی کو اختیار کیا۔
(12) لونڈی سے اس کا مالک جماع کر سکتا ہے، تاہم اگر وہ کسی کی بیوی ہو تو پھر جائز نہیں، نیز لونڈی کو محض بیچ دینے سے، اس کے ساتھ جماع کرنا حلال نہ ہو گا۔ سیدہ بریرہ کو خاوند کے پاس رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دینا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ابھی تک خاوند کے ساتھ ان کا تعلق باقی تھا۔ اگر کوئی تعلق باقی نہ رہتا تو پھر اختیار کس چیز کا تھا؟
(13) اگر بوقت سوال، سائل مجبور نہیں ہے تو سوال کر سکتا ہے، یعنی مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے وقت ضرورت کے آنے سے پہلے بھی اس ضرورت کی بابت سوال ہو سکتا ہے۔
(14) شادی شدہ عورت سے مدد اور مالی تعاون مانگا جا سکتا ہے جیسا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنی مکاتبت کی بابت مالی تعاون مانگا تھا اور انھوں نے اس کی درخواست قبول فرما لی تھی اور بریرہ کو خرید کر اسے آزاد کر دیا تھا۔
(15) شادی شدہ خاتون، اپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کر سکتی ہے بشر طیکہ وہ تصرف کسی جائز ضرورت کی خاطر ہو۔
(16) طلب اجر کی خاطر مال خرچ کرنا بلکہ زائد از ضرورت خرچ کرنا درست ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی مکاتبت کی ساری رقم جو نو قسطوں کی نو سال میں ادائیگی کی صورت میں طے ہوئے تھی، یکمشت ادا کر دی اور انھیں اسی وقت آزاد کر دیا۔
(17) غلام اور لونڈی کے لیے اپنی آزادی کی خاطر محنت اور کوشش کرنا جائز ہے، خواہ اس مقصد کے لیے اسے کسی ایسے شخص سے سوال کرنا پڑے جو اسے خرید کر آزاد بھی کر دے۔ ایسا کرنے سے اس کے مالک کا اگر چہ نقصان بھی ہوتا ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ اس لیے کہ شارع ﷺ نے غلام کی آزادی کو سراہا اور اس عظیم نیکی کا شوق بھی دلایا ہے، اس لیے اس کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
(18) اگر کوئی شخص لونڈی یا غلام بیچے لیکن یہ شرط لگا لے کہ یہ میری خدمت کرتا رہے گا تو یہ شرط باطل ہو گی۔
(19) اگر مکاتب اپنی قسط کی رقم اس مال سے ادا کرے جو اس پر صدقہ کیا گیا ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں، مالک کو ایسی رقم قبول کرنے سے تامل نہیں کرنا چاہیے اگرچہ وقت مقررہ سے قبل ہی وہ رقم کی ادائیگی کر رہا ہو۔ مکاتب دراصل غلام ہی ہوتا ہے جب تک کہ وہ تمام رقم ادا نہ کر دے اور غلام پر صدقہ کرنا درست ہے۔ جب صدقہ اصل محل تک پہنچ جائے تو وہ مالدار شخص کے استعمال کے لیے جائز ہو جاتا ہے۔
(20) رسول اللہ ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالک ایسی شرط لگا رہے ہیں جو شرعاً درست نہیں تو آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور کسی کا نام لیے بغیر مسئلے کی وضاحت فرمائی اور ایسی ہر شرط کو باطل قرار دیا جو قرآن و حدیث کے منافی ہو۔ اس سے معلوم ہوا جب کوئی اہم شرعی معاملہ در پیش ہو تو کھڑے ہو کر خطبہ دینا مشروع ہے۔
(21) جس شخص سے کوئی غیر شرعی اور منکر کام سرزد ہو تو اس صورت میں غلط کام کرنے والے شخص کا نام لیے بغیر ہی اس کی اصلاح کی جائے۔ اس طرح کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے نہ کہ کسی کو شرمندہ اور رسوا کرنا۔
(22) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اجنبی عورتیں کسی شخص کے گھر میں آ سکتی ہیں، خواہ گھر کا مالک مرد اپنے گھر میں موجود ہو یا نہ ہو۔
(23) رسول اللہ ﷺ کے لیے صدقہ مطلقاً حرام ہے۔ آپ پر نہ صدقہ کیا جا سکتا ہے اور نہ آپ صدقے کا مال کھا ہی سکتے ہیں۔ ہاں، اگر صدقہ کسی مستحق پر کر دیا جائے اور وہ نبی ﷺ کو بطور ہد یہ پیش کر دے تو یہ درست ہے۔
(24) غنی اور مالدار شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ محتاج و فقیر کا دیا ہوا ہد یہ قبول کر لے، نیز معلوم ہوا کہ صدقے اور ہدیے کا حکم الگ الگ ہے۔
(25) اگر کسی شخص کو اپنے ہاں کسی شخص کے کھانے سے خوشی ہو تو وہ شخص بلا اجازت بھی اس کے گھر سے کھا پی سکتا ہے۔
(26) ایسا سوال کرنا مستحب ہے جس سے علم حاصل ہوتا ہو یا اس سے ادب ملتا ہو یا کسی قسم کا حکم واضح ہوتا ہو یا اس سے کوئی شبہ رفع ہوتا ہو۔
(27) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی پر تھوڑی چیز صدقہ کی جائے تو اس کو قبول کر لینا چاہیے۔ اس پر ناراضی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔
(28) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مومن کو خوش کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔ صحیح احادیث کی روشنی میں ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب عمل ہے۔
(29)یہ حدیث مبارکہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے حسن ادب پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی سفارش واضح انداز میں رد نہیں کی بلکہ یہ کہا ہے کہ مجھے اپنے خاوند مغیث کی حاجت نہیں۔
(30) سفارش کرنے والے کو یقینا اس کی جائز سفارش کرنے کا اجرو ثواب مل جاتا ہے، خواہ اس کی سفارش قبول ہو یا رد کر دی جائے۔
(31) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرطِ محبت انسان کے لیے بڑی آزمائش کا سبب بنتی ہے۔ بسا اوقات اسے بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے خاوند حضرت مغیث رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حالت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مدینے کی گلیوں میں ان کے پیچھے پیچھے ہوتے تھے۔أعاذنا الله منه۔
(32) دو باہم نفرت کرنے والوں کے مابین صلح صفائی کرانا مستحب ہے، خواہ وہ دونوں میاں بیوی ہی ہوں۔ میاں بیوی ہونے کی صورت میں یہ ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے تاکہ بچے والدین کی باہمی نفرت و اختلاف کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بریرہ کو حضرت مغیث رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بابت سفارش کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا: إنَّهُ أبو ولدِكِ ”وہ تیرے بچے کا باپ ہے۔“
(33) بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف کرنا بھی جائز ہے۔
(34)شوہر دیدہ خاتون کو مجبور نہیں کرنا چاہیے، خواہ وہ آزاد کردہ ہی کیوں نہ ہو۔
(35) نکاح فسخ ہونے کی صورت میں رجوع نہیں ہو سکتا لیکن نیا نکاح ہو سکتا ہے۔
(36) اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے نفرت کرتی ہو تو اس کے سر پرست کو چاہیے کہ وہ اس عورت کو خاوند کے ساتھ رہنے پر مجبور نہ کرے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو کہ عورت اپنے خاوند سے محبت کرتی ہو تو سر پرست اس کے اور اس کے خاوند کے درمیان جدائی اور تفریق نہ ڈالے۔
(37) شارحینِ حدیث نے اس حدیث مبارکہ سے کم و بیش ڈیڑھ سو (150) فوائد و مسائل کا استنباط کیا ہے لیکن ہم نے بغرض اختصار مذکورہ بالا فوائد و مسائل ہی پر اکتفا کیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملا حظہ فرمایے: (ذخيرة العقبىٰ، شرح سنن النسائي للأتيوبي:9/29-19) اس روایت پر مزید بحث کے لیے دیکھیے، احادیث 3477تا3484۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4646
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4659
´مکاتب غلام کو بیچنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں، اپنی کتابت کے سلسلے میں ان کی مدد چاہتی تھیں، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تم اپنے گھر والوں (مالکوں) کے پاس لوٹ جاؤ، اب اگر وہ پسند کریں کہ میں تمہاری مکاتبت (کی رقم) ادا کر دوں اور تمہارا ولاء (حق وراثت) میرے لیے ہو گا تو میں ادا کر دوں گی، بریرہ رضی اللہ عنہا نے اس کا تذکرہ اپنے گھر والوں سے کیا تو انہوں نے انکار کیا اور کہا: اگر وہ تمہارے سات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4659]
اردو حاشہ:
(1) یہ روایت اور اس پر بحث تفصیلاً گزر چکی ہے۔ (دیکھیے حدیث: 3481) یہاں بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مکاتب غلام بیچا جا سکتا ہے؟ مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس سے اس کا مالک طے کر لے کہ تو اتنی رقم اتنی قسطوں میں (یا یکمشت) اتنے عرصے تک ادا کر دے تو تجھے آزادی مل جائے گی۔ ظاہر ہے یہ ایک معاہدہ ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا الا یہ کہ وہ غلام راضی ہو جسے اس معاہدے کا مفاد ہے۔ اور واضح بات ہے کہ وہ تبھی راضی ہو گا اگر اسے فوری آزادی کا یقین دلا دیا جائے۔ ایسی صورت میں جب معاہدے سے بڑھ کر غلام کو مفاد حاصل ہو رہا ہو اور دونوں فریق راضی ہوں تو اسے فوری آزادی کے لیے بیچنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ مندرجہ بالا روایات میں ذکر ہے۔ ہاں، مالکان اپنے مفاد کی خاطر اس کی مرضی کے بغیر اسے کسی دوسرے کو نہیں بیچ سکتے کیونکہ یہ غدر اور وعدہ خلافی ہے جس میں حکومت مداخلت کر سکتی ہے۔
(2) اس روایت کے مفصل فوائد و مسائل کے لیے ملا حظہ فرما ئیں فوائد و مسائل، حدیث: 4646
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4659
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4660
´مکاتب نے اگر بدل کتابت میں سے کچھ نہ ادا کیا ہو تو اسے بیچا جا سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس بریرہ رضی اللہ عنہا نے آ کر کہا: عائشہ! میں نے نو اوقیہ کے بدلے اپنے گھر والوں (مالکوں) سے مکاتبت کر لی ہے کہ ہر سال ایک اوقیہ دوں گی تو آپ میری مدد کریں۔ (اس وقت) انہوں نے اپنی کتابت میں سے کچھ بھی ادا نہ کیا تھا۔ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا اور ان میں دلچسپی لے رہی تھیں: جاؤ اپنے لوگوں (مالکوں) کے پاس اگر وہ پسند کریں کہ میں انہیں یہ رقم ادا کر دوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4660]
اردو حاشہ:
اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے، فوائد و مسائل، حدیث: 4646.
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4660
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1493
1493. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت بریرہ ؓ کو آزاد کرنے کے لیے انھیں خریدنے کاارادہ کیا لیکن حضرت بریرہ ؓ کے مالکان نے اپنے لیے ان کی ولا کی شرط عائد کردی۔ حضرت عائشہ نے نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر یا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اسے خرید لو، ولا تو اس کےلیے ہے جو اسے آزاد کرے۔“ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ پھر ایک بار نبی کریم ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ وہ گوشت ہے جو حضرت بریرہ ؓ صدقے میں ملا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:”یہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1493]
حدیث حاشیہ:
غلام کے آزاد کردینے کے بعد مالک اور آزاد شدہ غلام میں بھائی چارہ کے تعلق کو ولاء کہا جاتا ہے۔
گیا غلام آزاد ہونے کے بعد بھی اصل مالک سے کچھ نہ کچھ متعلق رہتا تھا۔
اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو اس شخص کا حق ہے جو اسے خرید کر آزاد کرا رہا ہے۔
اب بھائی چارے کا تعلق اصل مالک کی بجائے اس خرید کر آزاد کرنے والے سے ہوگا۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1493
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2155
2155. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میرے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے (حضرت بریرہ ؓ کو خرید کا) ذکر کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم(بریرہ کو) خرید کر آزاد کرسکتی ہو۔ ولاء تو اسی کے لیے ہوتی ہے جو آزاد کرے۔“ پھر آپ شام کے وقت منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے شایان وشان حمد وثنا کی، اسکے بعد فرمایا: ”لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ (معاملات میں) ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں۔ جس نے ایسی شرط لگائی جو کتاب اللہ میں نہیں تو وہ باطل ہے اگرچہ اس طرح کی سو شرطیں لگائے۔ اللہ تعالیٰ کی شرط ہی زیادہ سچی اور مضبوط ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2155]
حدیث حاشیہ:
اور حدیث میں جو شرطیں پیغمبر ﷺ نے بیان فرمائی ہیں وہ بھی اللہ ہی کی لگائی ہوئی ہیں۔
کیوں کہ جو کچھ حدیث میں ہے وہ بھی اللہ ہی کا حکم ہے۔
یہ خطبہ آپ ﷺ نے اس وقت سنایا جب بریرہ ؓ کے مالک حضرت عائشہ ؓ سے یہ شرط لگاتے تھے کہ ہم بریرہ ؓ کو اس شرط پر بیچتے ہیں کہ اس کا ترکہ ہم لیں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2155
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2156
2156. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرۃ ؓ کاسودا کیا۔ آپ ﷺ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ جب واپس آئے تو ام المومنین ؓ نے کہا کہ وہ لوگ حضرت بریرہ ؓ کو فروخت کرنے سے انکاری ہیں مگر اس شرط پر کہ ولاء ان کی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”ولاء تو اس کا حق ہے جس نے اسے آزاد کیا ہو۔“ (راوی حدیث ہمام کہتے ہیں کہ) میں نے (اپنے شیخ) حضرت نافع سے پوچھا: بریرہ ؓ کا شوہر آزاد تھا یا غلام؟انھوں نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2156]
حدیث حاشیہ:
ان ہر دو احادیث میں حضرت بریرہ ؓ کی اپنے مالکوں سے مکاتبت کا ذکر ہے یعنی غلام یا لونڈی اپنی مالک سے طے کرلے کہ اتنی مدت میں وہ اس قدر روپیہ یا کوئی جنس وغیرہ ادا کرے گا۔
اور اس شرط کے پورا کرنے کے بعد وہ آزاد ہوجائے گا۔
تو اگر وہ شرط پوری کردی گئی اب وہ آزاد ہو گیا۔
بریرہ ؓ نے بھی اپنے مالکوں سے ایسی ہی صورت طے کی تھی۔
جس کا ذکر انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کیا۔
جس پر حضرت عائشہ ؓ نے یکمشت سارا روپیہ ادا کرنے کی پیش کش کی۔
اس شرط پر کہ بریرہ ؓ کی ولاءحضرت عائشہ ؓ ہی سے قائم ہو اور مالکوں کو اس بارے میں کوئی مطالبہ نہ رہے۔
ولاءکے معنی یہ کہ غلام آزاد ہونے کے بعد بھائی چارہ کا رشتہ اپنے سابقہ مالک سے قائم رکھے۔
خاندانی طور پر اسی کی طرف منسوب رہے۔
حتی کہ اس کے مرنے پر اس کے ترکہ کا حقدار بھی اس کا مالک ہی ہو۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کی پیش کش کو انہوں نے سلسلہ ولاءکے ختم ہوجانے کے خطرہ سے منظور نہیں کیا۔
جس پر آنحضرت ﷺ نے یہ خطبہ ارشاد فرما کر اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی کہ یہ بھائی چارگی تو اس کے ساتھ قائم رہے گی۔
جو اسے خرید کر آزاد کرے نہ کہ سابق مالک کے ساتھ۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرہ ؓ کو خریدا اور آزاد کردیا، اور سلسلہ ولاءسابقہ مالک سے توڑ کر حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ قائم کر دیا گیا۔
اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں۔
جن کا استخراج امام الفقہاءو المحدثین حضرت امام بخاری ؒ نے اپنی جامع الصحیح میں جگہ جگہ کیا ہے۔
امام شوکانی اس سلسلہ میں مزید وضاحت یوں فرماتے ہیں:
أن النبي صلی اللہ علیه وسلم قد کان أعلم الناس أن اشتراط الولاءباطل و اشتهر ذلك بحیث لا یخفی علی أهل بریرة فلما أرادوا أن یشرطوا ما تقدم لهم العلم ببطلانه أطلق الأمر مریدا به التهدید کقوله تعالیٰ (اعملوا ماشتئم)
فکأنه قال اشترطي لهم الولاءفسیعلمون أن ذلك لا ینفعهم و یؤید هذا ما قاله صلی اللہ علیه وسلم ذلك ما بال رجال یشترطون شروطا الخ (نیل)
یعنی نبی کریم ﷺ خوب جانتے تھے کہ ولاء کی شرط باطل ہے اور یہ اصول اس قدر مشتہرہو چکا تھا کہ اہل بریرہ سے بھی یہ مخفی نہ تھا۔
پھر جب انہوں نے اس شرط کے بطلان کو جاننے کے باوجود اس کی اشتراط پر اصرار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تہدید کے طور پر مطلق امر فرما دیا کہ بریرہ کو خرید لیا جائے، جیسا کہ قرآن آیت اعملوا ما شئتم (فصلت: 40)
میں ہے کہ تم عمل کرو جو چاہو۔
یہ بطور تہدید فرمایا گیا ہے۔
گویا آپ نے فرمایا کہ ان کے ولاءکی شرط لگا لو وہ عنقریب جان لیں گے کہ اس شرط سے ان کو کچھ فائدہ حاصل نہ ہوگا اور اس مفہوم کی تائید آپ ﷺ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے جو آپ ﷺ نے فرمایا۔
کہ لوگوں کا کیا حال ہے وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ سے ثابت نہیں ہیں۔
پس ایسی جملہ شروط باطل ہیں، خواہ ان کو لگا بھی لیا جائے مگراسلامی قانون کی رو سے ان کا کوئی مقام نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2156
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2536
2536. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: میں نے حضرت بریرہ ؓ کوخریدا تو اس کے مالکوں نے ولا اپنے پاس رکھنے کی شرط لگا دی۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کاذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”تم اسے(خریدکر)آزاد کردو۔ ولاتو اسی کی ہے جو قیمت ادا کرے۔“ چنانچہ میں نے اسے (خریدکر) آزاد کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے بلا کر اس کے شوہر کے متعلق اسے اختیار دیا تو حضرت بریرہ ؓ نے کہا: اگر وہ مجھے اتنا اتنا مال بھی دے تو میں اس کے پاس نہیں رہوں گی۔ اس نے خود کواختیار کیا، یعنی وہ اپنے شوہر سے جدا ہوگئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2536]
حدیث حاشیہ:
اس کے خاوند کا نام مغیث تھا۔
وہ غلام تھا۔
لونڈی جب آزاد ہوجائے تو اس کو اپنے خاوند کی نسبت جو غلام ہو اختیار ہوتا ہے خواہ نکاح باقی رکھے یا فسخ کردے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ مغیث آزاد تھا مگر قسطلانی نے اس کے غلام ہونے کو صحیح کہا ہے۔
یہ مغیث بریرہ کی جدائی پر روتا پھرتا تھا۔
آنحضرت ﷺ نے بھی بریرہ ؓ سے سفارش فرمائی کہ مغیث کا نکاح باقی رکھے مگر بریرہ نے کسی طرح اس کے نکاح میں رہنا منظور نہیں کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2536
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2565
2565. حضرت ایمن حبشی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس گیا اور ان سے کہا: میں عتبہ بن ابو لہب کا غلام تھا، وہ مرگیاہے اور اس کے بیٹے میرے وارث بنے ہیں۔ انھوں نے مجھے ابو عمرو (مخذومی) کے بیٹے کے ہاتھ فروخت کردیاہے اور ابو عمرو کے بیٹے نے مجھے آزاد کردیا ہے۔ اب عتبہ کے بیٹے میری ولا کی شرط لگاتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے (یہ مقدمہ سن کر)فرمایا: حضرت بریرہ ؓ میرے پاس آئیں جبکہ وہ مکاتبہ تھیں اور مجھ سے کہنے لگیں: مجھے خرید کر آزاد کردیں۔ اس(عائشہ ؓ) نے کہا: ٹھیک ہے میں یہ کرتی ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ نے عرض کیا: وہ میری ولا کی شرط کے بغیر مجھے فروخت نہیں کریں گے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے یہ واقعہ از خود سنا، یا آپ کو خبر پہنچی تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے یہ واقعہ دریافت کیا۔ حضرت عائشہ ؓ سے جو کچھ حضرت بریرہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2565]
حدیث حاشیہ:
حضرت عتبہ ؓ ابولہب کے بیٹے تھے۔
رسول کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی۔
یہ فتح مکہ کے سال اسلام لائے۔
حضرت بریرہ ؓ نے خود حضرت عائشہ ؓ سے اپنے کو خریدنے اور آزاد کردینے کی درخواست کی تھی۔
اسی سے مضمون کا باب ثابت ہوا۔
الحمد للہ کہ کعبہ شریف میں 5 اپریل (1970ء)
کو یہاں تک متن بخاری شریف کے پڑھنے سے فارغ ہوا۔
ساتھ ہی دعاءکی کہ اللہ پاک خدمت بخاری شریف میں کامیابی بخشے اور ان سب دوستوں بزرگوں کے حق میں اسے بطور صدقہ جاریہ قبول کرے جو اس عظیم خدمت میں خادم کے ساتھ ہر ممکن تعاون فرمارہے ہیں۔
جزاهم اللہ أحسن الجزاء في الدنیا والآخرہ۔
آمین سند میں ایمن ؒ کا نام آیا ہے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں۔
هو أیمن الحبشي المکي نزیل المدینة والد عبدالواحد وهو غیر أیمن بن نایل الحبشي المکي نزیل عسقلان وکلاهما من التابعین ولیس لوالد عبدالواحد في البخاري سوی خمسة أحادیث هذا وآخران عن عائشة وحدیثان عن جابر وکلها متابعة ولم یروعنه غیرولدہ عبدالواحد (فتح الباري)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2565
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2717
2717. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ حضرت بریرہ ؓ ان کے پاس آئیں اور وہ ان سے اپنی کتابت کی رقم کے سلسلے میں مددلینا چاہتی تھیں، جبکہ انھوں نے کتابت کی رقم سے ابھی کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا: تم اپنے آقاؤں کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کریں تو میں تیری کتابت کی رقم یکمشت ادا کر دوں بشرطیکہ تیری ولا میرے لیےہو گی، میں ایسا کرنے کو تیار ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ نے اپنے مالکان سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے اس سے انکار کر دیا اور کہا: اگرحضرت عائشہ ؓ ثواب لینے کے لیے ایسا کرنا چاہیں تو کر لیں لیکن ولا ہمارے لیے رہے گی۔ حضرت عائشہ ؓ نے جب اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے ان سے فرمایا: ”تم بریرہ ؓ کو خرید کر آزاد کرو۔ ولا تو اسی کا حق ہے جس نے آزاد کیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2717]
حدیث حاشیہ:
بیع میں خلاف شرع شرطیں لگانا جائز نہیں، اگر کوئی ایسی شرطیں لگائے بھی تو وہ شرطیں باطل ہوں گی، باب اور حدیث کا یہاں یہی مقصد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2717
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2726
2726. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت بریرہ ؓ میرے پاس آئیں جبکہ وہ مکاتبہ تھیں، عرض کیا: اُم المومنین!آپ مجھے خرید لیں کیونکہ میرے مالک مجھے فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ پھر آپ مجھے آزاد کر دیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ حضرت بریرہ ؓ نے کہا: میرے مالکان مجھے فروخت کرنے پر راضی تو ہیں لیکن وہ اپنے لیے ولا کی شرط لگاتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: پھر مجھے تیرے متعلق کوئی دلچسپی نہیں۔ چنانچہ نبی ﷺ نے یہ واقعہ خود سنایا کسی نے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”بریرہ ؓ کا کیا ماجرا ہے؟ (حضرت عائشہ ؓ نے بتایا تو) آپ نے فرمایا: ”اسے خرید لو اور آزاد کرو، وہ لوگ جو چاہیں شرطیں لگاتے پھریں۔“ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے اسے خرید کر آزاد کر دیا لیکن اس کے مالکان نے ولا کی شرط کا ذکر کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”ولاتو اس کا حق ہے جو اس کو آزاد کرے اگرچہ مالکان سو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2726]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ غلط شرطوں کے ساتھ جو معاملہ ہو وہ شرطیں ہرگز قابل تسلیم نہ ہوں گی اور معاملہ منعقد ہوجائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2726
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5279
5279. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ بریرہ ؓ کے معاملے میں تین مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ انہیں آزاد کیا گیا تو انہیں اپنے شوہر کے بارے میں اختیار دیا گیا۔ دوسرا یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ولاء کا حق دار وہی ہے جو اسے آزاد کرے۔“ تیسرا یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر تشریف لائے تو ایک ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا لیکن جب کھانا پیش کیا گیا تو روٹی اور گھر کا سالن ہی تھا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا میں ہنڈیا نہیں دیکھ رہا جس میں گوشت تھا؟“ اہل خانہ نے عرض کی: جی ہاں، لیکن وہ گوشت سیدہ بریرہ ؓ کو صدقے میں ملا تھا اور آپ صدقہ نہیں کھاتے۔ آپ نے فرمایا: ”اس (بریرہ ؓ) کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5279]
حدیث حاشیہ:
جب تک خاوند طلاق نہ دے جمہورکا یہی مذہب ہے لیکن ابن مسعود اور ابن عباس اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ لونڈی کی بیع طلاق ہے۔
تابعین میں سے سعید بن مسیب اور حسن اور مجاہد بھی اسی کے قائل ہیں۔
عروہ نے کہا طلاق خریدارکے اختیار میں رہے گی۔
حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ جب آپ نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزاد ہونے کے بعد اختیار دیا کہ اپنے خاوند کو رکھ یا جدا ہو جا۔
تو معلوم ہوا کہ کہ لونڈی کا آزاد ہونا طلاق نہیں ہے ورنہ اختیار کے کیا معنی ہوتے اور جب آزادی طلاق نہیں ہوتی تو بیع بھی طلاق نہ ہوگی۔
حضرت ا مام بخاری رحمہ اللہ کی باریکی استنباط اور تفقہ کی دلیل ہے۔
بے وقوف ہیں وہ جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی فقاہت کے قائل نہیں ہیں۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ مجتہد مطلق اور فقہ الحدیث میں امام الفقہاء ہیں۔
گر نہ بیند بر وز شپرئہ چشم چشمہ آفتاب راجہ گناہ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5279
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2561
2561. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت بریرہ ؓ ان کے پاس اپنے معاملہ مکاتبت میں تعاون لینے کے لیے حاضر ہوئیں۔ ابھی تک انھوں نے اپنے بدل ِکتابت سے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا: تم اپنے مالکان کے پاس جاؤ، اگر وہ پسند کریں کہ بدل کتابت کی تمام (باقی ماندہ) رقم میں یکمشت ادا کردوں اور تمہاری ولا میرے ساتھ قائم ہوتو میں ایسا کرسکتی ہوں حضرت بریرۃ ؓ نے جب یہ صورت اپنے مالکان کے سامنے رکھی توانھوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا اورکہا: اگروہ تمہارے ساتھ ثواب کی نیت سے ایسا کرنا چاہتی ہیں تو بلاشبہ کریں لیکن تیری ولا ہمارے لیے ہوگی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آ پ نے ان سے فرمایا: ”توخرید کراسے آزادکردے، ولاتو اسی کا حق ہے جو آزاد کرتاہے۔“ راوی کا بیان ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اورفرمایا: ”لوگوں کاعجیب حال ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2561]
حدیث حاشیہ:
ابن خزیمہ نے کہا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی کتاب سے ان کا عدم جواز یا عدم وجوب ثابت ہو اور یہ مطلب نہیں ہے کہ جو شرط اللہ کی کتاب میں مذکور نہ ہو اس کا لگانا باطل ہے۔
کیوں کہ کبھی بیع میں کفالت کی شرط ہوتی ہے۔
کبھی ثمن میں یہ شرط ہوتی ہے کہ اس قسم کے روپے ہوں یا اتنی مدت میں دئیے جائیں یہ شرطیں صحیح ہیں۔
گو اللہ کی کتاب میں ان کا ذکر نہ ہو کیوں کہ یہ شرطیں مشروع ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2561
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5284
5284. سیدنا اسود سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ نے جب سیدہ بریرہ ؓ کو خریدنے کا ارادہ کیا تو بریرہ ؓ کے آقاؤں نے انکار کر دیا۔ وہ ولاء اپنے لیے ہونے کی شرط لگاتے تھے، سیدہ عائشہ ؓ نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”تم بریرہ کو خرید کر آزاد کر دو۔ ولاء تواس کے لیے ہے جو اسے آزاد کرے۔“ نبی ﷺ کے پاس گوشت لایا گیا اور کہا گیا: یہ وہ گوشت ہے جو بریرہ ؓ پر صدقہ کیا گیا ہے نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ بریرہ کے لیے صدقہ تھا ہمارے لیے ہدیہ ہے۔“ شعبہ کی ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ بریرہ ؓ کو اس کے شوہر کے متعلق اختیار دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5284]
حدیث حاشیہ:
حدثنا آدم حدثنا شعبة وزاد فخيرت من زوجها. ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا اور اس روایت میں یہ اضافہ کیا کہ پھر (آزادی کے بعد)
انہیں ان کے شوہر کے متعلق اختیار دیا گیا (کہ چاہیں ان کے پاس رہیں اور اگر چاہیں ان سے اپنا نکاح توڑ لیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5284
حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کو ظہر ٹھنڈے وقت پڑھتے دیکھا۔ [موطا امام مالك: 11]
11.
فائدہ:
«عَشِي» کا وقت زوال کے فوراََ بعد سے لے کر مغرب تک رہتا ہے، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پوتے، فقیہ مدینہ قاسم بن محمد رحمہ اللہ اپنے اس فرمان سے ان لوگوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو زوال کے فوراً بعد نمازِ ظہر ادا کرنے کو معمول بناتے ہیں، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی زوال آفتاب کے بعد کچھ وقت گزار کر ہی ظہر پڑھا کرتے تھے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«كَانَتْ قَدْرُ صَلَاةِ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِي الصَّيْفِ ثَلاثَةَ أَقْدَامِ إِلى خَمْسَةِ أَقْدَامٍ وَفِي الشَّتَاءِ خَمْسَةَ أَقْدَامٍ إِلى سَبْعَةِ أَقْدَامٍ»
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ظہر کا گرمیوں میں اندازہ یہ تھا کہ (آپ اُس وقت اسے پڑھتے جب سورج ڈھلنے کے بعد سایہ) تین سے پانچ قدم تک ہو جاتا اور سردیوں میں پانچ سے سات قدم تک ہو جاتا۔“
[ابوداود: 400، نسائي: 504، اس كي سند صحيح هے]
------------------
جمعہ کے وقت کا بیان
فائدہ:
جمعہ چونکہ نمازِ ظہر کا بدل ہے اس لیے اس کا وقت بھی ہو بہو ظہر والا ہی ہے، یعنی زوالِ آفتاب سے لے کر سایہ ایک مثل ہونے تک رہتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اول وقت ہی میں جمعہ ادا کیا کرتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جمعہ کی تیاری اور اس میں جلدی حاضر ہونے کا اس قدر شوق رکھتے اور اہتمام کرتے تھے کہ دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کے بعد تک مؤخر کر دیتے۔
[صحيح بخاري: 939، صحيح مسلم: 859]
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت جمعہ پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔ [صحيح بخاري: 904] حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جمعہ اس وقت ادا کرتے جب زوالِ آفتاب ہو جاتا۔ [صحيح مسلم: 860]
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 11
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1493
1493. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت بریرہ ؓ کو آزاد کرنے کے لیے انھیں خریدنے کاارادہ کیا لیکن حضرت بریرہ ؓ کے مالکان نے اپنے لیے ان کی ولا کی شرط عائد کردی۔ حضرت عائشہ نے نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر یا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اسے خرید لو، ولا تو اس کےلیے ہے جو اسے آزاد کرے۔“ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ پھر ایک بار نبی کریم ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ وہ گوشت ہے جو حضرت بریرہ ؓ صدقے میں ملا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:”یہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1493]
حدیث حاشیہ:
(1)
غلام کو آزاد کر دینے کے بعد جو تعلق آزاد کنندہ اور آزاد کردہ کے درمیان قائم ہوتا ہے اسے ولاء کہتے ہیں۔
یہ تعلق اصل مالک کے بجائے آزاد کرنے والے سے قائم ہوتا ہے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ آزاد شدہ غلام کے مرنے کے بعد اگر اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو اس کا ترکہ آزاد کنندہ کو ملتا ہے۔
(2)
حضرت بریرہ ؓ چونکہ حضرت عائشہ ؓ کی آزاد کردہ لونڈی تھیں، اس لیے ان کے لیے صدقہ جائز تھا اور جب صدقہ اپنے محل پر پہنچ جائے تو اس کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔
اب دوسروں کے لیے استعمال کرنا جائز ہوتا ہے جو پہلے اسے استعمال کرنے کے مجاز نہیں ہوتے کیونکہ جو چیز کسی علت کے باعث حرام ہوئی ہو اس علت کے زائل ہونے سے حلال ہو جاتی ہے، اس لیے صدقہ کردہ گوشت رسول اللہ ﷺ استعمال کر لیتے تھے۔
(3)
صدقے میں ثواب کے ساتھ عبادت کا پہلو غالب ہوتا ہے جبکہ ہدیہ میں ثواب کے ساتھ باہمی محبت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1493
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2156
2156. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرۃ ؓ کاسودا کیا۔ آپ ﷺ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ جب واپس آئے تو ام المومنین ؓ نے کہا کہ وہ لوگ حضرت بریرہ ؓ کو فروخت کرنے سے انکاری ہیں مگر اس شرط پر کہ ولاء ان کی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”ولاء تو اس کا حق ہے جس نے اسے آزاد کیا ہو۔“ (راوی حدیث ہمام کہتے ہیں کہ) میں نے (اپنے شیخ) حضرت نافع سے پوچھا: بریرہ ؓ کا شوہر آزاد تھا یا غلام؟انھوں نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2156]
حدیث حاشیہ:
(1)
ولاء اس تعلق کو کہتے ہیں جو کسی آزاد کردہ غلام اور اس کے آزا دکرنے والے کے درمیان قائم ہوتا ہے۔
اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غلام مرتے دم تک خاندانی طور پر اپنی نسبت اپنے محسن آزاد کرنے والے کی طرف کرتا ہے اور مرنے کے بعد اس کے ترکے کا حق دار بھی وہی محسن ہوتا۔
دور جاہلیت میں اس نسبت کا حق دار سابقہ مالک ہوتا تھا،خواہ آزاد کرنے والا کوئی دوسرا ہی کیوں نہ ہو۔
حضرت بریرہ ؓ کے مالکان اسی شرط جاہلیت پر اصرار کرتے تھے جس کی رسول اللہ ﷺ نے برسرما تردیدد فرمائی۔
(2)
اس حدیث سے حضرت عائشہ ؓ کا حضرت بریرہ ؓ کو خریدنے کا ثبوت ملتا ہے اور عنوان کے ساتھ مطابقت بھی یہی ہے کہ عورتیں خریدوفروخت کرسکتی ہیں۔
اس میں شرعاً کو ئی قباحت نہیں ہے۔
(3)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں جن کی موقع ومحل کے اعتبار سے وضاحت ہوتی رہے گی۔
(4)
اس روایت کے آخر میں حضرت بریرہ ؓ کے خاوند حضرت مغیث ؓ کے متعلق حضرت نافع نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ہے کہ حضرت بریرہ ؓ کی آزادی کے وقت وہ غلام تھا یا آزاد،اسی طرح ایک روایت میں شعبہ نے اپنے شیخ عبدالرحمٰن بن قاسم سے اس کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے بھی فرمایا کہ مجھے علم نہیں۔
(صحیح البخاري، الھبة، حدیث: 2578)
البتہ حضرت ابن عباس ؓ نے صراحت بیان کی ہے کہ حضرت بریرہ ؓ کی آزادی کے وقت اس کا خاوند غلام تھا اور وہ اپنی شریکہ حیات کے فراق پر مدینے کے گلی کوچوں میں روتا اور آنسو بہاتا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کی اس کیفیت پر بڑے تعجب کا اظہار کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت بریرہ ؓ کو اسے بطور خاوند قبول کرنے کے متعلق مشورہ بھی دیا لیکن انھوں نے علیحدگی کو اختیار کیا۔
(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5283،5282)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2156
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2536
2536. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: میں نے حضرت بریرہ ؓ کوخریدا تو اس کے مالکوں نے ولا اپنے پاس رکھنے کی شرط لگا دی۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کاذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”تم اسے(خریدکر)آزاد کردو۔ ولاتو اسی کی ہے جو قیمت ادا کرے۔“ چنانچہ میں نے اسے (خریدکر) آزاد کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے بلا کر اس کے شوہر کے متعلق اسے اختیار دیا تو حضرت بریرہ ؓ نے کہا: اگر وہ مجھے اتنا اتنا مال بھی دے تو میں اس کے پاس نہیں رہوں گی۔ اس نے خود کواختیار کیا، یعنی وہ اپنے شوہر سے جدا ہوگئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2536]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ولاء اس شخص کے لیے ہے جو قیمت ادا کر کے اسے آزاد کرتا ہے۔
“ اس کا مطلب یہ ہے کہ ولاء قابل انتقال حق نہیں ہے، یعنی فروخت اور ہبہ کرنے سے دوسرے کو منتقل نہیں ہو سکتا، عنوان کا یہی مقصد ہے۔
(2)
علامہ خطابی فرماتے ہیں:
ولاء نسب کی طرح ہے، جس نے آزاد کیا ولاء اسی کا حق ہے، جیسے کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو نسب بھی اسی کا ثابت ہو گا۔
اگر وہ غیر کی طرف منسوب ہو تو اس کے والد سے یہ نسب منتقل نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح ولاء بھی اپنے محل سے منتقل نہیں ہو گی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
”ولاء بھی نسب کی طرح ایسا رشتہ ہے جسے فروخت نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے بطور ہبہ ہی دیا جا سکتا ہے۔
“ (صحیح ابن حبان، البیوع، حدیث: 4929)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2536
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2561
2561. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت بریرہ ؓ ان کے پاس اپنے معاملہ مکاتبت میں تعاون لینے کے لیے حاضر ہوئیں۔ ابھی تک انھوں نے اپنے بدل ِکتابت سے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا: تم اپنے مالکان کے پاس جاؤ، اگر وہ پسند کریں کہ بدل کتابت کی تمام (باقی ماندہ) رقم میں یکمشت ادا کردوں اور تمہاری ولا میرے ساتھ قائم ہوتو میں ایسا کرسکتی ہوں حضرت بریرۃ ؓ نے جب یہ صورت اپنے مالکان کے سامنے رکھی توانھوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا اورکہا: اگروہ تمہارے ساتھ ثواب کی نیت سے ایسا کرنا چاہتی ہیں تو بلاشبہ کریں لیکن تیری ولا ہمارے لیے ہوگی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آ پ نے ان سے فرمایا: ”توخرید کراسے آزادکردے، ولاتو اسی کا حق ہے جو آزاد کرتاہے۔“ راوی کا بیان ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اورفرمایا: ”لوگوں کاعجیب حال ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2561]
حدیث حاشیہ:
(1)
مکاتب کی شرائط یہ ہیں کہ وہ عاقل بالغ ہو اور عقد کتابت کو قبول کرے۔
اس میں کتابت کی رقم ذکر کی جائے کہ وہ یکمشت ادا ہو گی یا قسطوں میں ادا کی جائے گی۔
اس میں کوئی ایسی شرط نہ رکھی جائے جو کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور اجماع امت کے خلاف ہو۔
ایسی تمام شرائط ناقابل قبول ہوں گی۔
(2)
”جو شرائط اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں“ حافظ ابن حجر ؒ نے امام ابن خزیمہ ؒ کے حوالے سے اس کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کا جواز یا وجوب ثابت نہ ہو۔
یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو شرط اللہ کی کتاب میں مذکور نہ ہو اس کا لگانا باطل ہے کیونکہ کبھی بیع میں کفالت کی شرط ہوتی ہے۔
کبھی قیمت میں یہ شرط ہوتی ہے، یعنی اس قسم کے روپے ہوں گے یا اتنی مدت میں ادا کیے جائیں گے، یہ شرطیں صحیح ہیں اگرچہ اللہ کی کتاب میں ان کا ذکر نہیں ہے۔
(فتح الباري: 232/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2561
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2565
2565. حضرت ایمن حبشی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس گیا اور ان سے کہا: میں عتبہ بن ابو لہب کا غلام تھا، وہ مرگیاہے اور اس کے بیٹے میرے وارث بنے ہیں۔ انھوں نے مجھے ابو عمرو (مخذومی) کے بیٹے کے ہاتھ فروخت کردیاہے اور ابو عمرو کے بیٹے نے مجھے آزاد کردیا ہے۔ اب عتبہ کے بیٹے میری ولا کی شرط لگاتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے (یہ مقدمہ سن کر)فرمایا: حضرت بریرہ ؓ میرے پاس آئیں جبکہ وہ مکاتبہ تھیں اور مجھ سے کہنے لگیں: مجھے خرید کر آزاد کردیں۔ اس(عائشہ ؓ) نے کہا: ٹھیک ہے میں یہ کرتی ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ نے عرض کیا: وہ میری ولا کی شرط کے بغیر مجھے فروخت نہیں کریں گے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے یہ واقعہ از خود سنا، یا آپ کو خبر پہنچی تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے یہ واقعہ دریافت کیا۔ حضرت عائشہ ؓ سے جو کچھ حضرت بریرہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2565]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق حضرت بریرہ ؓ نے خود حضرت عائشہ ؓ سے درخواست کی کہ اسے خرید کر آزاد کر دیں۔
اس سے امام بخاری ؒ کا عنوان ثابت ہوتا ہے، نیز اس سے معلوم ہوا کہ خریدوفروخت کے وقت اس طرح شرط لگانا جائز ہے اور عقد معاملہ کے منافی نہیں۔
یہ واقعہ اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے خریدنے سے مکاتبت کا معاہدہ خودبخود فسخ ہو گیا۔
(فتح الباري: 242/5) (2)
شادی شدہ لونڈی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر عقد کتابت کر سکتی ہے اگرچہ اس کا نتیجہ ان میں جدائی اور فراق ہو، نیز وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر آزادی حاصل کر سکتی ہے۔
واضح رہے کہ شارح بخاری ابن بطال کے قول کے مطابق بعض متاخرین نے حدیث بریرہ سے سو سے زائد مسائل کا استنباط کیا ہے۔
امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ امام ابن خزیمہ اور امام ابن جریر نے اس حدیث کے متعلق مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں۔
بعض حضرات نے حدیث بریرہ کے فوائد چار سو تک پہنچا دیے ہیں لیکن تکلف سے کام لیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے "کتاب المکاتب" کے جملہ مسائل اسی ایک حدیث سے اخذ کیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمات جلیلہ کو شرف قبولیت سے نوازا ہے۔
امید ہے کہ قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ انہیں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت و معیت نصیب فرمائے گا۔
بندۂ عاجز بھی اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت کا طلبگار اور اس کی مغفرت کا امیدوار ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2565
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2578
2578. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت بریرہ ؓ کو خریدنے کا ارادہ کیا تو اس کے آقاؤں نے یہ شرط لگائی کہ اس کی ولا ان کو حاصل ہوگی۔ نبی کریم ﷺ سے اس کاذکر کیا گیاتو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”تم خرید کر اسے آزاد کردو، ولا تو اسی کے لیے ہوتی ہے جو آزاد کرے۔“ ایک دفعہ یوں ہوا کہ حضرت بریرہ ؓ کو صدقے کاگوشت ملا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”یہ کیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: یہ بریرہ کو بطور صدقہ ملا ہے۔ تب آپ نے فرمایا: ”یہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔“ نیز جب وہ آزاد ہوئی تو خاوند کے معاملے میں اسے اختیار دیاگیا۔ (راوی حدیث) عبدالرحمان نے کہا: اس کا خاوند آزاد تھا یا غلام۔ شعبہ کہتے ہیں: میں نے عبدالرحمان سے اس کے خاوند کے متعلق دریافت کیا توانھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ وہ آزاد تھا یا غلام۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2578]
حدیث حاشیہ:
حضرت بریرہ ؓ تین شرعی احکام کا ذریعہ بنیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ غلام لونڈی کی ولاء کا حقدار وہی ہے جو اسے آزاد کرے۔
٭ صدقے کی چیز جب کوئی غریب کسی کو ہدیہ دے تو وہ صدقہ نہیں رہتا بلکہ اس کا حکم بدل جاتا ہے۔
٭ غلامی سے نجات پا کر شادی شدہ لونڈی کو اختیار ہے کہ وہ خاوند سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے بشرطیکہ اس کا خاوند غلام ہو۔
بہرحال اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے اور اسے اپنے استعمال میں لاتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2578
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2717
2717. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ حضرت بریرہ ؓ ان کے پاس آئیں اور وہ ان سے اپنی کتابت کی رقم کے سلسلے میں مددلینا چاہتی تھیں، جبکہ انھوں نے کتابت کی رقم سے ابھی کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا: تم اپنے آقاؤں کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کریں تو میں تیری کتابت کی رقم یکمشت ادا کر دوں بشرطیکہ تیری ولا میرے لیےہو گی، میں ایسا کرنے کو تیار ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ نے اپنے مالکان سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے اس سے انکار کر دیا اور کہا: اگرحضرت عائشہ ؓ ثواب لینے کے لیے ایسا کرنا چاہیں تو کر لیں لیکن ولا ہمارے لیے رہے گی۔ حضرت عائشہ ؓ نے جب اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے ان سے فرمایا: ”تم بریرہ ؓ کو خرید کر آزاد کرو۔ ولا تو اسی کا حق ہے جس نے آزاد کیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2717]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے خریدوفروخت میں شرط کے جائز یا ناجائز ہونے کی وضاحت نہیں کی بلکہ اسے مطلق رکھا ہے کیونکہ اس میں اختلاف ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”تم اسے خرید لو اور ان کے لیے ولا کی شرط بھی کر لو۔
بلاشبہ ولا تو اسی کی ہے جس نے آزاد کیا ہے۔
“ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2168)
اس روایت کے مطابق اگر خریدوفروخت کرتے وقت کوئی ناجائز شرط رکھی گئی تو بیع صحیح اور شرط باطل ہو گی جبکہ بعض فقہاء کے ہاں بیع اور شرط دونوں باطل ہوں گی۔
اس طرح یہ حدیث عنوان کے مطابق ہو گی۔
(عمدة القاري: 611/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2717
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2726
2726. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت بریرہ ؓ میرے پاس آئیں جبکہ وہ مکاتبہ تھیں، عرض کیا: اُم المومنین!آپ مجھے خرید لیں کیونکہ میرے مالک مجھے فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ پھر آپ مجھے آزاد کر دیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ حضرت بریرہ ؓ نے کہا: میرے مالکان مجھے فروخت کرنے پر راضی تو ہیں لیکن وہ اپنے لیے ولا کی شرط لگاتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: پھر مجھے تیرے متعلق کوئی دلچسپی نہیں۔ چنانچہ نبی ﷺ نے یہ واقعہ خود سنایا کسی نے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”بریرہ ؓ کا کیا ماجرا ہے؟ (حضرت عائشہ ؓ نے بتایا تو) آپ نے فرمایا: ”اسے خرید لو اور آزاد کرو، وہ لوگ جو چاہیں شرطیں لگاتے پھریں۔“ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے اسے خرید کر آزاد کر دیا لیکن اس کے مالکان نے ولا کی شرط کا ذکر کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”ولاتو اس کا حق ہے جو اس کو آزاد کرے اگرچہ مالکان سو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2726]
حدیث حاشیہ:
حضرت بریرہ ؓ نے اپنے مالکان سے مکاتبت کا معاہدہ کر رکھا تھا۔
اس نے ام المومنین عائشہ ؓ سے عرض کی کہ وہ اسے خرید لیں لیکن یہ شرط رکھی کہ خریدنے کے بعد اسے آزاد کرنا ہو گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ مکاتب اس شرط پر فروخت ہونے کے لیے راضی ہو جائے کہ اسے خرید کر آزاد کر دیا جائے گا تو ایسا کرنا جائز ہے۔
شرعاً اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، البتہ غلط شرائط کے ساتھ جو معاملہ کیا جائے وہ ہرگز قابل تسلیم نہ ہوں گی جیسا کہ حضرت بریرہ ؓ کے مالکان نے ایک غلط شرط لگائی تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے اس شرط کو کالعدم قرار دیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2726
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5097
5097. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: کہ سیدہ بریرہ ؓ کے ساتھ تین سنتیں قائم ہوئی ہیں: انہیں آزاد کیا یا اور اختیار دیا گیا، نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ولاء کا تعلق آزاد کرنے والے کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔“ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ گھر میں تشریف لائے تو ایک ہانڈی چولہے پر تھی۔ آپ کے لیے روٹی اور گھر کا سالن پیش کیا گیا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا میں ہنڈیا نہیں دیکھی۔“؟عرض کی گئی۔ وہ تو اس گوشت کی تھی جو سیدہ بریرۃ ؓ کو صدقے میں ملا تھا اور آپ صدقہ نہیں کھاتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ اس کے لیے صدقہ تھا اور (اب) ہمارے لیے (اس کی طرف سے) تحفہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5097]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہما کو جب آزادی ملی تو انھیں اختیار دیا گیا کہ اگر چاہیں تو اپنے شوہر سے اپنا نکاح فسخ کرسکتی ہیں اور اگر چاہیں تو اس کے ہاں رہ سکتی ہیں۔
یہ اختیار اس بنا پر دیا گیا کہ آزادی کے وقت ان کا شوہر غلام تھا جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔
(صحيح البخاري، الطلاق، حديث: 5282)
جب حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا گیا تو انھوں نے اپنے خاوند مغیث سے علیحدگی کو اختیار کیا، وہ گلی کوچوں میں ان کے پیچھے روتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارش فرمائی:
”تم اسے خاوند کی حیثیت سے قبول کرلو۔
“ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
اگر آپ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر، اگر سفارش ہے تو میں معذرت کرتی ہوں۔
آپ نے اس کا برا نہ منایا۔
(صحيح البخاري، الطلاق، حديث: 5283)
اگر آزاد عورت کا غلام کے نکاح میں رہنا ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی سفارش کیوں فرماتے؟ (2)
اس سفارش سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ آزاد عورت کا غلام کے نکاح میں رہنا جائز ہے۔
اس کی تفصیل ہم کتاب الطلاق میں بیان کریں گے۔
بإذن الله تعاليٰ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5097
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5279
5279. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ بریرہ ؓ کے معاملے میں تین مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ انہیں آزاد کیا گیا تو انہیں اپنے شوہر کے بارے میں اختیار دیا گیا۔ دوسرا یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ولاء کا حق دار وہی ہے جو اسے آزاد کرے۔“ تیسرا یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر تشریف لائے تو ایک ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا لیکن جب کھانا پیش کیا گیا تو روٹی اور گھر کا سالن ہی تھا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا میں ہنڈیا نہیں دیکھ رہا جس میں گوشت تھا؟“ اہل خانہ نے عرض کی: جی ہاں، لیکن وہ گوشت سیدہ بریرہ ؓ کو صدقے میں ملا تھا اور آپ صدقہ نہیں کھاتے۔ آپ نے فرمایا: ”اس (بریرہ ؓ) کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5279]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں چار مسئلے معلوم ہوئے:
ان میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد عورت کی طرح عدت گزارنے کا حکم دیا۔
(مسند Eحمد: 361/1)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو تین حیض بطور عدت گزارنے کا حکم دیا گیا۔
(سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث: 2077)
جب حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا آزاد ہوئیں تو انھیں اپنے خاوند کے متعلق اختیار دیا گیا، اگر محض بیع سے طلاق واقع ہو جاتی تو اختیار دینے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔
اختیار دینے کا مطلب ہے کہ وہ ابھی اپنے خاوند کے نکاح میں ہے، جب آزاد ہونے سے طلاق واقع نہیں ہوتی تو بیچنے سے بطریق اولی طلاق نہیں ہوگی۔
(2)
بہرحال منکوحہ لونڈی کا مالک حق طلاق سے محروم ہے۔
اسے طلاق دینے کا اختیار اس کے خاوند کو ہے جو فروخت کرنے سے ختم نہیں ہوگا۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5279
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5284
5284. سیدنا اسود سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ نے جب سیدہ بریرہ ؓ کو خریدنے کا ارادہ کیا تو بریرہ ؓ کے آقاؤں نے انکار کر دیا۔ وہ ولاء اپنے لیے ہونے کی شرط لگاتے تھے، سیدہ عائشہ ؓ نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”تم بریرہ کو خرید کر آزاد کر دو۔ ولاء تواس کے لیے ہے جو اسے آزاد کرے۔“ نبی ﷺ کے پاس گوشت لایا گیا اور کہا گیا: یہ وہ گوشت ہے جو بریرہ ؓ پر صدقہ کیا گیا ہے نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ بریرہ کے لیے صدقہ تھا ہمارے لیے ہدیہ ہے۔“ شعبہ کی ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ بریرہ ؓ کو اس کے شوہر کے متعلق اختیار دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5284]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کو بلا عنوان رکھا ہے کیونکہ یہ پہلے باب سے متعلق ہے۔
یہ حدیث کئی مرتبہ پہلے گزر چکی ہے اور اس سے بے شمار فقہی احکام ثابت ہوتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بہت سے احکام کی نشاندہی کی ہے جو آٹھ صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔
اہل علم حضرات کو ان کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے اسلاف کس قدر وسعت علم رکھتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے ساتھ جنت الفردوس میں جمع کرے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5284
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5430
5430. سیدنا قاسم بن محمد سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدنا بریرہ ؓ سے تین شرعی حکم وابستہ ہیں: پہلا یہ کہ سیدہ عائشہ ؓ نے اسے خریدنے کا ارادہ کیا تاکہ اسے آزاد کر دیں لیکن اس کے آقاؤں نے کہا کہ ولاء ہمارے لیے ہوگی۔ سیدہ عائشہ ؓ نے یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم چاہتی ہو تو ان سے یہ شرط کر لو لیکن ولاء اس کے لیے ہوگی جو اس کو آزاد کرے۔“ دوسرا یہ کہ سیدہ بریرہ ؓ کو آزاد کر دیا گیا تو اسے اختیار دیا گیا کہ اپنے شوہر کے نکاح میں رہے یا اس سے علیحدہ ہو جائے۔ تیسرا یہ کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن سیدہ عائشہ ؓ کے گھر تشریف لے گئے، جبکہ (وہاں) آگ پر ہانڈی ابل رہی تھی۔ آپ نے دوپہر کا کھانا طلب فرمایا تو روٹی اور گھر میں موجود سالن پیش کر دیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں گوشت دیکھ رہا ہوں؟“ اہل خانہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ گوشت ہے جو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5430]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سالن کے بجائے گوشت کو پسند فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ آپ کو گوشت پسند تھا۔
دنیا اور آخرت میں گوشت تمام سالنوں کا سردار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے آپ کی دعوت کی تو انہوں نے ایک بکری ذبح کی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”گویا تجھے معلوم ہے کہ ہمیں گوشت محبوب ہے۔
“ (مسند أحمد: 303/3)
اور جن اسلاف سے گوشت پر دوسری اشیاء کی ترجیح منقول ہے، اس سے مراد ان کی قناعت پسندی ہے تاکہ انسان عمدہ چیزوں کا عادی نہ بن جائے۔
بہرحال گوشت ایک بہترین سالن ہے اگر کوئی اسراف و تبذیر سے بالاتر ہو کر اس کا اہتمام کرتا ہے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(فتح الباري: 688/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5430
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6717
6717. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے سیدہ بریرہ ؓ کو خریدنے کا ارادہ کیا تو اس کے آقاؤں نے شرط عائد کی کہ ولا ان کی ہوگی۔ سیدہ عائشہ نے جب نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے خرید کر آزاد کر دو، ولا تو اسی کے لیے ہوتی ہے جو آزاد کرتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6717]
حدیث حاشیہ:
ولاء اس تعلق کو کہتے ہیں جو مالک اور غلام کے درمیان قائم ہوتا ہے۔
جب غلام مر جاتا ہے تو اس کا ترکہ ولاء کی وجہ سے مالک کو ملتا ہے۔
اگر کوئی کسی مالک سے خرید کر اسے آزاد کرتا ہے تو ولاء آزاد کرنے والے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔
اگر کفارۂ قسم میں کوئی غلام کسی سے خرید کر آزاد کرتا ہے تو اس صورت میں بھی ولاء اس کی ہو گی جو اسے آزاد کرتا ہے۔
اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6717
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6754
6754. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بریرہ کو آزاد کرنے کے لیے خریدا تو اس کے آقاؤں نے شرط عائد کر دی کہ اس کی ولا ان کے لیے ہوگی۔ سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے بریرہ کو آزاد کرنے کے لیے خریدنا چاہا لیکن اس کے آقاؤں نے اپنے لیے اس کی ولا کو مشروط کر دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو اس کو آزاد کر دے۔ ولا تو آزاد کرنے والے کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ یا فرمایا: قیمت ادا کرنے والے کے لیے ولا ہوتی ہے۔“ راوی کہتے ہیں۔ سیدہ عائشہ ؓ نے اسے خرید کر آزاد کر دیا۔ پھر اسے اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہیں اور اس سے علیحدہ بھی ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے شوہر سے علیحدگی کو پسند کیا اور کہا: اگر مجھے اتنا مال دیا جائے تو بھی اس کے ساتھ رہنا پسند نہیں کروں گی۔ اسود نے کہا: اس کا شوہر آزاد تھا۔ ان کا قول منقطع ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6754]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق ولا کا حق آزاد کرنے والے کو دیا گیا ہے۔
یہ ایک ایسا تعلق ہے جسے اپنی مرضی سے ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ نسب کی طرح ہے جسے ہبہ یا فروخت بھی نہیں کیا جا سکتا، اس لیے اگر کوئی اپنے غلام سے کہتا ہے کہ تو سائبہ کے طور پر آزاد ہے، تو اپنا مال جہاں چاہے رکھ لے، تیری ولا کا تعلق کسی سے نہیں ہوگا تو یہ فضول حرکات ہیں، اصل ضابطے پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہی ثابت کیا ہے کہ سائبہ کی رسم دور جاہلیت کی یاد گار ہے، اصل ضابطے کے مطابق ولا کا تعلق اسی شخص سے قائم ہوگا جس نے اسے آزاد کیا ہے، اس کے ختم کرنے سے یہ تعلق ختم نہیں ہوگا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6754
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6758
6758. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا۔ میں نے بریرہ ؓ کو خریدنے کا ارادہ کیا تو اس کے آقاؤں نے ولا اپنے لیے رکھنے کی شرط عائد کی۔ میں نے اس امر کا تذکرہ نبی ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا: تم اسے خرید کر آزاد کر دو۔ ولا تو اس کے لیے ہوتی ہے جو روپے خرچ کرے، چنانچہ میں نے اسے خرید کر آزاد کر دیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور اپنے خاوند کی زوجیت میں رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیا حضرت بریرہ ؓ نے کہا: اگر وہ مجھے اتنا مال بھی دے تو میں پھر بھی اس کے پاس نہ رہوں گی، چنانچہ انہوں نے شوہر سے آزادی کو پسند کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6758]
حدیث حاشیہ:
(1)
اہل کوفہ کا موقف ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے ہاتھوں مسلمان ہوتا ہے، پھر مر جاتا ہے اور اس کا کوئی دوسرا وارث نہیں ہے تو اس کی جائیداد کا وہی حق دار ہے جس کے ہاتھوں اس نے اسلام قبول کیا۔
اس سلسلےمیں حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی جاتی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
اللہ کے رسول! اگر کوئی آدمی دوسرے کے ہاتھوں اسلام قبول کر کے مرجائے تو اسلام میں اس کی جائیداد کا وارث کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا:
”وہی اس کی زندگی اور موت کا زیادہ حق رکھتا ہے۔
“ لیکن اس روایت کو کئی محدثین نے ضعیف کہا ہے، چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث ثابت نہیں ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور اہل علم کی تائید میں دور روایات پیش کی ہیں جن میں ہے کہ ولا کا حق دار وہی ہے جو کسی کو آزاد کرتا ہے۔
اس حدیث میں "لام" اختصاص کے لیے ہے، یعنی ولا اس شخص کے ساتھ خاص ہے جو آزاد کرے اور اس کے متعلق مال خرچ کرے۔
(3)
حاصل کلم یہ ہے کہ جو کوئی دوسرے کے ہاتھوں اسلام قبول کر کے فوت ہو جائے، اس کی ولا اس شخص کے لیے نہیں ہے جس کے ہاتھوں اس نے اسلام قبول کیا ہے کیونکہ ولا تو آزاد کرنے والے کے ساتھ خاص ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6758
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6760
6760. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ولا تو اس کا حق ہے جو قیمت دے اور(اسے آزاد کرکے) احسان کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6760]
حدیث حاشیہ:
(1)
''ولي النعمة'' کا مطلب یہ ہے کہ قیمت ادا کرنے کے بعد اس غلام یا لونڈی کو آزاد کر دیا جائے۔
ولا کا استحقاق آزادی سے پیدا ہوتا ہے۔
یہ استحقاق جہاں آزاد کرنے والے مرد کے لیے ہے وہاں آزاد کرنے والی عورت کے لیے بھی ہے، لہٰذا اگر مرد اور عورت دونوں مل کر غلام آزاد کریں تو دونوں کے لیے ولا ثابت ہوگی۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن بطال کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ حدیث اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ولا کا حق دار غلام کو آزاد کرنے والا ہے، خواہ وہ مرد ہویا عورت، اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔
(فتح الباري: 58/12)
چونکہ ان مسائل کا عملی طور پر کوئی وجود نہیں ہے صرف نظری طور پر پڑھے پڑھائے جاتے ہیں، اس لیے ہم ان کی تفصیل ذکر نہیں کرتے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6760