الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
बुलूग़ अल-मराम
كتاب الجهاد
مسائل جہاد
1. (أحاديث في الجهاد)
1. (جہاد کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 1080
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏من مات ولم يغز ولم يحدث نفسه به مات على شعبة من نفاق» ‏‏‏‏ رواه مسلم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ایسی حالت میں مر گیا کہ اس نے نہ کبھی جہاد میں حصہ لیا اور نہ کبھی اس کے دل میں یہ خیال آیا اور نہ اس کی خواہش و تمنا پیدا ہوئی تو اس کی موت نفاق کے شعبہ پر ہوئی۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1080]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الإمارة، باب ذم من مات ولم يغز...، حديث:1910.»

حدیث نمبر: 1081
وعن أنس رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «جاهدوا المشركين بأموالكم وأنفسكم وألسنتكم» رواه أحمد والنسائي وصححه الحاكم.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشرکین سے اپنے مالوں، اپنی جانوں اور اپنی زبانوں سے جہاد کرو۔ اسے احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1081]
تخریج الحدیث: «أخرجه النسائي، الجهاد، باب وجوب الجهاد، حديث:3098، والحاكم:2 /81، وأحمد"3 /124، 153، 251، وأبوداود، الجهاد، حديث:2504، وأيضًا في المختارة: (5 /36 رقم:1642).»

حدیث نمبر: 1082
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قلت: يا رسول الله على النساء جهاد؟ قال: «‏‏‏‏نعم جهاد لا قتال فيه: الحج والعمرة» ‏‏‏‏ رواه ابن ماجه وأصله في البخاري.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا خواتین پر بھی جہاد ہے؟ فرمایا ہاں! جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں۔ اور وہ ہے حج اور عمرہ۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل بخاری میں ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1082]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن ماجه، المناسك، باب الحج جهاد النساء، حديث:2901، والبخاري، الجهاد، حديث:2875.»

حدیث نمبر: 1083
وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم يستأذنه في الجهاد فقال: «‏‏‏‏أحي والداك؟» ‏‏‏‏ قال: نعم قال: «ففيهما فجاهد» .‏‏‏‏متفق عليه. ولأحمد وأبي داود من حديث أبي سعيد نحوه وزاد:«‏‏‏‏ارجع فاستأذنهما فإن أذنا لك وإلا فبرهما» .
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کر رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تیرے والدین بقید حیات ہیں؟ وہ بولا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس ان دونوں (کی خدمت) میں جدوجہد کرو۔ (بخاری و مسلم) مسند احمد اور ابوداؤد میں ابوسعید کی روایت بھی اسی طرح منقول ہے۔ اس میں اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واپس چلے جاؤ ان سے اجازت طلب کرو۔ پھر اگر وہ دونوں تجھے اجازت دے دیں تو درست ورنہ ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرو۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1083]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجهاد، بإذن الأبوين، حديث:3004، ومسلم، البر والصلة، باب برالوالدين وأيهما أحق به، حديث:2549، وحديث أبي سعيد: أخرجه أبوداود، الجهاد، حديث:2530، وأحمد:3 /75.»

حدیث نمبر: 1084
وعن جرير البجلي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏أنا بريء من كل مسلم يقيم بين المشركين» ‏‏‏‏ رواه الثلاثة وإسناده صحيح ورجح البخاري إرساله.
سیدنا جریر بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین میں قیام پذیر ہو۔ اسے تینوں نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے مگر بخاری نے اس کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1084]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب النهي عن قتل من اعتصم بالسجود، حديث:2645، والترمذي، السير، حديث:1604، والنسائي، القسامة، حديث:4784 من حديث قيس بن أبي حازم مرسلًا.* أبو معاوية الضرير عنعن وله طرق ضعيفة كلها.»

حدیث نمبر: 1085
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏لا هجرة بعد الفتح ولكن جهاد ونية» ‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فتح (مکہ) کے بعد ہجرت نہیں لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1085]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجهاد، باب وجوب النفير...، حديث:2825، ومسلم، الإمارة، باب المبايعة بعد فتح مكة...، حديث:1353.»

حدیث نمبر: 1086
وعن أبي موسى الأشعري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله» ‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس نیت سے لڑا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو وہ اللہ کی راہ میں لڑنے والا ہے۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1086]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجهاد، باب من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا، حديث:2810، ومسلم، الإمارة، باب من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا...، حديث:1904.»

حدیث نمبر: 1087
وعن عبد الله بن السعدي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏لا تنقطع الهجرة ما قوتل العدو» .‏‏‏‏ رواه النسائي وصححه ابن حبان.
سیدنا عبداللہ بن سعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک دشمنوں سے جنگ جاری رہے گی ہجرت بھی جاری رہے گی۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1087]
تخریج الحدیث: «أخرجه النسائي، البيعة، باب ذكر الاختلاف في انقطاع الهجرة، حديث:4177، وابن حبان (الإحسان):7 /179، حديث:4846.»

حدیث نمبر: 1088
وعن نافع رضي الله عنه قال: أغار رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم على بني المصطلق وهم غارون فقتل مقاتلتهم وسبى ذراريهم. حدثني بذلك عبد الله بن عمر. متفق عليه.
سیدنا نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مصطلق پر شب خون مارا تو اس وقت یہ لوگ بےخبر و غافل تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لڑائی کرنے والوں کو قتل کیا اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لیا۔ یہ مجھ سے عبداللہ بن عمر نے بیان کیا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1088]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، العتق، باب من ملك من العرب رقيقا فوهب وباع...، حديث:2541، ومسلم، الجهاد والسير، باب جواز الإغارة علي الكفار...، حديث:1730.»

حدیث نمبر: 1089
وعن سليمان بن بريدة عن أبيه رضي الله عنهما قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا أمر أميرا على جيش أو سرية أوصاه في خاصته بتقوى الله وبمن معه من المسلمين خيرا ثم قال: «‏‏‏‏اغزوا باسم الله في سبيل الله قاتلوا من كفر بالله اغزوا ولا تغلوا ولا تغدوا ولا تمثلوا ولا تقتلوا وليدا وإذا لقيت عدوك من المشركين فأدعهم إلى ثلاث خصال فأيتهن أجابوك إليها فاقبل منهم وكف عنهم: ادعهم إلى الإسلام فإن أجابوك فاقبل منهم ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين فإن أبوا فأخبرهم أنهم يكونون كأعراب المسلمين ولا يكون لهم في الغنيمة والفيء شيء إلا أن يجاهدوا مع المسلمين فإن هم أبوا فاسألهم الجزية فإن هم أجابوك فاقبل منهم فإن هم أبوا فاستعن بالله وقاتلهم وإذا حاصرت أهل حصن فأرادوك أن تجعل لهم ذمة الله وذمة نبيه فلا تفعل ولكن اجعل لهم ذمتك فإنكم إن تخفروا ذمتكم أهون من أن تخفروا ذمة الله وإن أرادوك أن تنزلهم على حكم الله فلاتفعل بل على حكمك فإنك لا تدري أتصيب فيهم حكم الله أم لا؟» ‏‏‏‏ أخرجه مسلم.
سیدنا سلیمان بن بریدہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا سریہ کا امیر مقرر فرماتے تو اسے بالخصوص خدا خوفی اور اپنے مسلمانوں ساتھیوں کے ساتھ بھلائی اور خیر کی نصیحت فرماتے۔ اس کے بعد فرماتے اللہ کے نام کے ساتھ اس کے راستہ میں جہاد کرو ان لوگوں سے جو خدا کے منکر و کافر ہیں۔ لڑائی کرو، خیانت نہ کرنا، دھوکہ نہ دینا اور مثلہ نہ کرنا، بچوں کو قتل نہ کرنا۔ مشرک دشمن سے جب ملاقات ہو تو ان کو لڑائی سے پہلے تین چیزوں کی دعوت پیش کرو۔ ان میں سے جسے وہ قبول کر لیں اسے قبول کر لو اور ان سے لڑائی نہ کرو۔ پہلے ان کو اسلام کی دعوت پیش کرو۔ پس اگر وہ اس کو تسلیم کر لیں تو اسے قبول کر لو۔ پھر ان کو دعوت دو کہ وہ اپنے گھربار چھوڑ کر (دارالسلام) مہاجرین کے ملک کی طرف ہجرت کر کے آ جائیں۔ اگر وہ انکار کریں تو ان کو خبردار کر دو کہ ان کے حقوق بدوی مسلمانوں کے برابر ہوں گے اور ان کے لیے مال غنیمت اور اموال فے میں سے کچھ بھی نہیں ہو گا۔ الایہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد میں شریک ہوں۔ اگر اس سے انکار کریں تو ان سے جزیہ لو۔ اگر وہ تسلیم کر لیں تو اسے بھی قبول کر لو اور اگر وہ انکار کریں تو اللہ سے مدد طلب کرو اور ان سے لڑائی شروع کر دو اور جب تم کسی قلعہ کا محاصرہ کر لو اور وہ تم سے اللہ اور اس کے نبی کا ذمہ و عہد لینا چاہیں تو انہیں یہ ذمہ نہ دو بلکہ تم اپنا عہد و ذمہ ان کو دے دو۔ (اس کے خلاف نہ کرنا) اس لئے کہ اگر تم اپنے عہد و ذمہ کو توڑتے ہو تو یہ اللہ کی پناہ کو توڑنے سے بہت خفیف و ہلکا ہے اور جب یہ چاہیں کہ تو ان کو اللہ کے حکم و فیصلہ پر اتارے تو ایسا نہ کرنا بلکہ اپنے حکم و فیصلہ پر اتارنا کیونکہ تجھے علم نہیں کہ تو اللہ کے فیصلہ پر پہنچ بھی سکے گا یا نہیں۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1089]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الجهاد والسير، باب تأمير الإمام الأمراء علي البعوث...، حديث:1731.»

حدیث نمبر: 1090
وعن كعب بن مالك رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان إذا أراد غزوة ورى بغيرها. متفق عليه.
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوہ پر جانا چاہتے تو توریہ (غیر سے چھپانے) سے کام لیتے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1090]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجهاد، باب من أراد غزوة فوري بغيرها، حديث:2948، ومسلم، التوبة، باب حديث توبة كعب ابن مالك وصاحبيه، حديث:2769 /54.»

حدیث نمبر: 1091
وعن معقل أن النعمان بن مقرن رضي الله عنه قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا لم يقاتل أول النهار أخر القتال حتى تزول الشمس وتهب الرياح وينزل النصر. رواه أحمد والثلاثة وصححه الحاكم وأصله في البخاري.
سیدنا معقل سے روایت ہے کہ سیدنا نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑائیوں میں شریک ہوتا رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب دن کے آغاز میں لڑائی شروع نہ کرتے تو پھر زوال آفتاب کے بعد لڑائی شروع کرتے۔ موافق ہوائیں چلتی تھیں اور مدد کرتی تھیں۔ اسے احمد اور تینوں نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور اس کی اصل بخاری میں ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1091]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في أي وقت يستحب اللقاء، حديث:2655، والترمذي، السير، حديث:1612، 1613، والحاكم:2 /116، وأحمد:5 /444، 445، والنسائي في الكبرٰي:5 /191، حديث:8637، والبخاري، الجزية والموادعة، حديث:3160.»

حدیث نمبر: 1092
وعن الصعب بن جثامة رضي الله عنه قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عن اهل الدار من المشركين يبيتون،‏‏‏‏ فيصيبون من نسائهم وذراريهم؟ فقال:«‏‏‏‏هم منهم» .‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا صعب بن جشامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کے بچوں کے متعلق پوچھا گیا کہ ان کے گھر والوں پر شب خون مارا جاتا ہے تو ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی مار دیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بھی ان میں سے ہیں۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1092]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجهاد، باب أهل الدار يبتون فيصاب الولدان والذراري، حديث:3012، ومسلم، الجهاد والسير، باب جواز قتل النساء والصبيان في البيات من غير تعمد، حديث:1745.»

حدیث نمبر: 1093
وعن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال لرجل تبعه يوم بدر: «ارجع فلن أستعين بمشرك» ‏‏‏‏ رواه مسلم.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جو بدر کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہو گیا تھا واپس چلا جا میں مشرک سے مدد کا طالب نہیں ہوں۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1093]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الجهاد والسير، باب كراهة الاستعانة في الغزو بكافر...، حديث:1817.»

حدیث نمبر: 1094
وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم رأى امرأة مقتولة في بعض مغازيه فأنكر قتل النساء والصبيان. متفق عليه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غزوہ میں ایک عورت کو دیکھا کہ اسے قتل کیا گیا ہے تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1094]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجهاد، باب قتل النساء في الحرب، حديث:3015، ومسلم، الجهاد والسير، باب تحريم قتل النساء والصبيان في الحرب، حديث:1744.»

حدیث نمبر: 1095
وعن سمرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏اقتلوا شيوخ المشركين واستبقوا شرخهم» ‏‏‏‏ رواه أبو داود وصححه الترمذي.
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرکین کے تجربہ کار و ماہر عمر رسیدہ لوگوں کو قتل کر دو اور بلوغت کی عمر کو نہ پہنچنے والوں کو باقی رہنے دو۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1095]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في قتل النساء، حديث:2670، والترمذي، السير، حديث:1583.* قتادة مدلس وعنعن.»

حدیث نمبر: 1096
وعن علي رضي الله عنه:أنهم تبارزوا يوم بدر. رواه البخاري وأخرجه أبو داود مطولا.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بدر کے روز ان (کافروں) کو دعوت مبارزت دی۔ (بخاری) اور ابوداؤد میں یہ حدیث طویل ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1096]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، التفسير، باب ﴿هذان خصمان اختصموا في ربهم﴾، حديث:4744، وأبوداود، الجهاد، حديث:2665.»

حدیث نمبر: 1097
وعن أبي أيوب رضي الله عنه قال: إنما نزلت هذه الآية فينا معشر الأنصار يعني قوله تعالى: «ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة» قاله ردا على من أنكر على من حمل على صف الروم حتى دخل فيهم. رواه الثلاثة وصححه الترمذي وابن حبان والحاكم.
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت «ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة» اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ ہمارے حق میں نازل ہوئی۔ یہ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے بطور تردید فرمایا تھا جنہوں نے رومیوں کی صفوں پر حملہ کیا تھا اور ان کی صفوں میں جا گھسے تھے۔ اسے تینوں نے روایت کیا ہے۔ ترمذی، ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1097]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في قوله تعالي: ﴿ولا تلقوا بأ يديكم إلي التهلكة﴾، حديث:2512، والترمذي، تفسير القرآن، حديث:2972، والحاكم:2 /275، وابن حبان (ابن بلبان):11 /4711.»

حدیث نمبر: 1098
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: حرق رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم نخل بني النضير وقطع. متفق عليه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نصیر کے کھجوروں کے درخت نذر آتش کروا دیئے اور کٹوا دیئے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1098]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، المغازي، باب حديث بني النضير...، حديث:4031، مسلم، الجهاد والسير، باب جواز قطع اشجار الكفار و تحريقها، حديث:1746.»

حدیث نمبر: 1099
وعن عبادة بن الصامت رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏لا تغلوا فإن الغلول نار وعار على أصحابه في الدنيا والآخرة» .‏‏‏‏ رواه أحمد والنسائي وصححه ابن حبان.
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیانت (غنیمت کے مال میں) نہ کرو کیونکہ یہ (خیانت) دنیا میں بھی عار ہے اور آخرت میں بھی عار۔ اسے احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1099]
تخریج الحدیث: «أخرجه النسائي: لم أجده، وانظر حديث:4143، وأحمد:4 /128، 5 /317، 318، 326، وابن ماجه، الجهاد، حديث:2850، وابن حبان (ابن بلبان):11 /4855.»

حدیث نمبر: 1100
وعن عوف بن مالك رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قضى بالسلب للقاتل. رواه أبو داود وأصله عند مسلم.
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ ساز و سامان (غازی) قاتل کیلئے ہے۔ اس کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1100]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في الإمام يمنع القاتل السلب إن رأي....، حديث:2719، ومسلم، الجهاد، حديث:1753.»

حدیث نمبر: 1101
وعن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه في قصة قتل أبي جهل قال: فابتدراه بسيفيهما حتى قتلاه ثم انصرفا إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فأخبراه فقال: «‏‏‏‏أيكما قتله؟ هل مسحتما سيفيكما؟» ‏‏‏‏ قالا: لا قال: فنظر فيهما فقال: «كلاكما قتله» ‏‏‏‏ فقضى صلى الله عليه وآله وسلم بسلبه لمعاذ بن عمرو بن الجموح. متفق عليه.
سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے ابوجہل کے قتل کے قصہ میں مروی ہے کہ دونوں اپنی اپنی تلوار لے کر ابوجہل کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھے اور انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوجہل کے قتل کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم دونوں میں سے کس نے اسے قتل کیا؟ نیز دریافت فرمایا کہ کیا تم نے تلواریں صاف کر لی ہیں؟ دونوں بولے نہیں۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی تلواروں کو ملاحظہ کیا اور فرمایا تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کا ساز و سامان معاذ بن عمرو بن جموح کو دینے کا فیصلہ فرمایا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1101]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب من لم يخمس الأسلاب، حديث:3141، ومسلم، الجهاد والسير، باب استحقاق القاتل سلب القتيل، حديث:1752.»

حدیث نمبر: 1102
وعن مكحول رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم نصب المنجنيق على أهل الطائف. أخرجه أبو داود في المراسيل ورجاله ثقات ووصله العقيلي بإسناد ضعيف عن علي رضي الله عنه.
سیدنا مکحول رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف پر منجنیق نصب کی۔ اسے ابوداؤد نے اپنی مراسیل میں تخریج کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں مگر عقیل نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ضعیف سند کے ساتھ موصول قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1102]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود في المراسيل، حديث:335، بإسناد صحيح عنه، وحديث علي: أخرجه العقيلي في الضعفاء:2 /244، وسنده ضعيف جدًا. فيه عبدالله بن خراش منكر الحديث، وللحديث شواهد مرسلة عند البيهقي:9 /84، والترمذي، الأدب، حديث:2762 ب وغيرهما.»

حدیث نمبر: 1103
وعن أنس رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم دخل مكة وعلى رأسه المغفر فلما نزعه جاءه رجل فقال: ابن خطل متعلق بأستار الكعبة فقال: «اقتلوه» ‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سر سے اتارا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے کہا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے قتل کر دو۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1103]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجهاد، باب قتل الأسير وقتل الصبر، حديث:3044، ومسلم، الحج، باب جواز دخول مكة بغير إحرام، حديث:1357.»

حدیث نمبر: 1104
وعن سعيد بن جبير رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قتل يوم بدر ثلاثة صبرا. أخرجه أبو داود في المراسيل ورجاله ثقات.
سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے روز تین آدمیوں کو باندھ کر قتل کیا۔ اسے ابوداؤد نے اپنی مراسیل میں نقل کیا ہے۔ اس کے راوی ثقہ ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1104]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود في المراسيل، حديث:337، بسند صحيح عند به مطولاً، وعلته الإرسال.»

حدیث نمبر: 1105
وعن عمران بن حصين رضي الله عنهما: أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فدى رجلين من المسلمين برجل من المشركين. أخرجه الترمذي وصححه وأصله عند مسلم.
سیدنا عمران حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے ایک قیدی مرد کے بدلہ میں دو مسلمان مردوں کو چھڑوایا۔ اس کی تخریج ترمذی نے کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1105]
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، السير، باب ما جاء في قتل الأساري والفداء، حديث:1568، ومسلم، النذر، حديث:1641.»

حدیث نمبر: 1106
وعن صخر بن العيلة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال:«إن القوم إذا أسلموا أحرزوا دماءهم وأموالهم» ‏‏‏‏أخرجه أبو داود ورجاله موثقون.
سیدنا صخر بن عیلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب لوگ اسلام قبول کر لیتے ہیں تو اپنے خون اور اپنے مال محفوظ کر لیتے ہیں۔ اس کو روایت ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1106]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الخراج والفيء والإمارة، باب في إقطاع الأرضين، حديث:3067.* عثمان لم يوثقه غير ابن حبان، وأبوحازم بن صحز بن العيلة مستور.»

حدیث نمبر: 1107
وعن جبير بن مطعم رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال في أسارى بدر: «‏‏‏‏لو كان المطعم بن عدي حيا ثم كلمني في هؤلاء النتنى لتركتهم له» ‏‏‏‏ رواه البخاري.
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسیران بدر کے متعلق فرمایا اگر مطعم بن عدی بقید حیات ہوتا پھر وہ میرے پاس آ کر ان مرداروں کے متعلق بات چیت کرتا تو میں ان کو اس کی خاطر چھوڑ دیتا۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1107]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب ما منّ النبي صلي الله عليه وسلم علي الأساري من غير أن يخمس، حديث:3139.»

حدیث نمبر: 1108
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: أصبنا سبايا يوم أوطاس لهن أزواج؛ فتحرجوا فأنزل الله تعالى: «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم» أخرجه مسلم.
سیدنا ابو سعيد خدرى رضی اللہ عنہ سے روايت ہے كہ اوطاس کے دن کچھ لونڈیاں ہمارے ہاتھ لگیں جن کے شوہر زندہ تھے۔ مسلمانوں نے ان کے خاوندوں کی موجودگی کو باعث حرج سمجھا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم» تم پر خاوند والی عورتیں حرام ہیں، مگر وہ جن کے تم مالک ہوئے ہو۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1108]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الرضاع، باب جواز وطيء المسبية بعد الاِ ستبراء...، حديث:1456.»

حدیث نمبر: 1109
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم سرية وأنا فيهم قبل نجد فغنموا إبلا كثيرة فكانت سهمانهم اثني عشر بعيرا ونفلوا بعيرا بعيرا. متفق عليه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک سریہ روانہ فرمایا، میں بھی اس میں موجود تھا بہت سے اونٹ مال غنیمت میں حاصل ہوئے، ان میں سے ہر ایک کے حصے میں سے بارہ بارہ اونٹ مال غنیمت کے طور پر آئے اور پھر انہیں ایک ایک اونٹ زائد دیا گیا (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1109]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب ومن الدليل علي أن الخمس لنوائب المسلمين...، حديث:3134، ومسلم، الجهاد والسير، باب الأنفال، حديث:1749.»

حدیث نمبر: 1110
وعنه رضي الله عنه قال: قسم رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم خيبر للفرس سهمين وللراجل سهما. متفق عليه واللفظ للبخاري ولأبي داود: أسهم لرجل ولفرسه ثلاثة أسهم: سهمين لفرسه وسهما له.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے روز گھڑ سوار کو دو حصے اور پیدل کو ایک حصہ دیا (بخاری ومسلم) یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدل مرد مجاہد کے لئے ایک حصہ اور گھڑ سوار کے لئے تین حصے، دو حصے اس کے گھوڑے کے اور ایک حصہ اس کا اپنا۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1110]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، المغازي، باب غزوة خبير، حديث:4228، ومسلم، الجهاد والسير، باب كيفية قسمة الغنيمة بين الحاضرين، حديث:1762، وحديث: "أسهم لرجل..." أخرجه أبوداود، الجهاد، حديث:2733 وسنده صحيح.»

حدیث نمبر: 1111
وعن معن بن يزيد رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «‏‏‏‏لا نفل إلا بعد الخمس» ‏‏‏‏ رواه أحمد وأبو داود وصححه الطحاوي.
سیدنا معن بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے حصہ سے اضافی طور پر جو کچھ دیا جائے گا وہ پانچواں حصہ نکال کر دیا جائے۔ اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور طحاوی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1111]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في النفل من الذهب والفضة ومن أول مغنم، حديث:2753، وأحمد:3 /470.»

حدیث نمبر: 1112
وعن حبيب بن مسلمة رضي الله عنه قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم نفل الربع في البدأة والثلث في الرجعة. رواه أبو داود وصححه ابن الجارود وابن حبان والحاكم.
سیدنا حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سریہ میں پہلی مرتبہ جانے پر چوتھا حصہ زائد عطا فرمایا اور دوبارہ جانے پر تیسرا حصہ۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ابن جارود، ابن حبان اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1112]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب فيمن قال: الخمس قبل النفل، حديث:2750، وابن حبان (الموارد)، حديث:1672، والحاكم:2 /133، 3 /432 وصححه، ووافقه الذهبي.»

حدیث نمبر: 1113
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال:كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ينفل بعض من يبعث من سرايا لأنفسهم خاصة سوى قسمة عامة الجيش.متفق عليه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض فوجی دستوں کو بالخصوص غنیمت کے حصہ کے علاوہ کچھ مزید دیا کرتے تھے۔ یہ عام فوجی کی تقسیم میں شامل نہیں ہوتا تھا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1113]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب ومن الدليل علي أن الخمس لنوائب المسلمين، حديث:3135، ومسلم، الجهاد والسير، باب الأنفال، حديث:1750 /40.»

حدیث نمبر: 1114
وعنه رضي الله عنه قال: كنا نصيب في مغازينا العسل والعنب فنأكله ولا نرفعه. رواه البخاري ولأبي داود:" فلم يؤخذ منهم الخمس". وصححه ابن حبان.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے کہ ہمیں غزوات میں شہد، انگور ہاتھ آتے تو ان کو کھا پی لیتے اٹھا کر نہیں لے جاتے تھے۔ (بخاری) اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ ان کھانے والے حضرات سے خمس وصول نہیں کیا جاتا تھا اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1114]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب ما يصيب من الطعام في أرض الحرب، 3154، وأبوداود، الجهاد، حديث:2701، وابن حبان (الموارد)، حديث:1670، وهو حديث صحيح.»

حدیث نمبر: 1115
وعن عبد الله بن أبي أوفى رضي الله عنهما قال: أصبنا طعاما يوم خيبر فكان الرجل يجيء فيأخذ منه مقدار ما يكفيه ثم ينصرف. أخرجه أبو داود وصححه ابن الجارود والحاكم.
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر کے روز ہمیں کھانے کی اشیاء ہاتھ آئیں تو ہر آدمی آتا اور اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق کھانے کے لیے حاصل کر لیتا تھا پھر واپس چلا جاتا۔ اسے ابوداؤد نے نقل کیا ہے ابن جارود اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1115]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في النهي عن النهبي إذا كان في الطعام قلة...، حديث:2704، وابن الجارود، حديث:1072، والحاكم:2 /126 صححه علي شرط البخاري، ووافقه الذهبي.»

حدیث نمبر: 1116
وعن رويفع بن ثابت رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يركب دابة من فيء المسلمين حتى إذا أعجفها ردها فيه ولا يلبس ثوبا من فيء المسلمين حتى إذا أخلقه رده فيه» ‏‏‏‏ أخرجه أبو داود والدارمي ورجاله لا بأس بهم.
سیدنا رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی اللہ پر ایمان اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے تو وہ مسلمانوں کے مال غنیمت کے گھوڑے پر سوار نہ ہو حتیٰ کہ جب وہ کمزور ہو جائے تو اسے واپس کر دے اور مسلمانوں کے مال غنیمت سے کوئی کپڑا نہ پہنے حتیٰ کہ جب وہ بوسیدہ و پرانا ہو جائے تو اسے واپس بیت المال میں جمع کرا دے۔ اسے ابوداؤد اور دارمی نے روایت کیا ہے اور اس کے سب راوی ایسے ہیں جن میں کوئی حرج نہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1116]
تخریج الحدیث: « [إسناد حسن] أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في الرجل ينتفع من الغنيمة بشيء، حديث:2708، والدارمي:2 /230.»

حدیث نمبر: 1117
وعن أبي عبيدة بن الجراح رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «‏‏‏‏يجير على المسلمين بعضهم» ‏‏‏‏ أخرجه ابن أبي شيبة و أحمد وفي إسناده ضعف. وللطيالسي من حديث عمرو بن العاص قال: «‏‏‏‏يجير على المسلمين أدناهم» . وفي الصحيحين عن علي قال:«‏‏‏‏ذمة المسلمين واحدة يسعى بها أدناهم» ‏‏‏‏ زاد ابن ماجه من وجه آخر: «‏‏‏‏ويجير عليهم أقصاهم» . وفي الصحيحين من حديث أم هانىء: «‏‏‏‏قد أجرنا من أجرت» .
سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی پناہ دینے کا مجاز ہے۔ اس روایت کو ابن شیبہ اور احمد نے نقل کیا ہے۔ اس کی سند ضعف ہے۔ اور طیالسی میں عمرو بن عاص سے مروی ہے مسلمانوں کا ادنی آدمی بھی پناہ و امان دے سکتا ہے۔ اور طیالسی میں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسلمانوں کا ادنی آدمی بھی پناہ و امان دے سکتا ہے۔ اور صحیحین کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت میں ہے کہ تمام مسلمانوں کی پناہ ایک ہی ہے جس کے لیے ان کا ادنی آدمی بھی سعی کر سکتا ہے۔ ابن ماجہ نے ایک اور طریقے سے اتنا اضافہ نقل کیا ہے۔ ان کا بہت دور کا آدمی بھی پناہ دے سکتا ہے۔ اور صحیحین میں ام ہانی رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم نے بھی امان دی جسے تو نے امان دی۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1117]
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد:1 /195، وابن أبي شيبة:12 /451، 452.* حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس وعنعن، وللحديث شواهد، وحديث عمرو بن العاص: أخرجه الطيالسي: لم أجده، وهو في مسند الإمام احمد:4 /197 وغيره [أبوداود، الديات، حديث:4531، وابن ماجه، الديات، حديث:2685 من حديث عبدالله بن عمرو بن العاص] ، حديث علي: أخرجه البخاري، الاعتصام بالكتاب والسنة، حديث:7300، ومسلم، الحج، حديث:1370، وابن ماجه، الديات، حديث: 2683، وحديث أم هانيء: أخرجه البخاري، الجزية والموادعة، حديث:3171، ومسلم، صلاة المسافرين، حديث:719.»

حدیث نمبر: 1118
وعن عمر رضي الله عنه أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «‏‏‏‏لأخرجن اليهود والنصارى من جزيرة العرب حتى لا أدع إلا مسلما» .‏‏‏‏ رواه مسلم.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میں یہود و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے باہر نکال کر دم لوں گا۔ یہاں تک کہ عرب میں مسلمانوں کے علاوہ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1118]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الجهاد، باب إخراج اليهود والنصارٰي من جزيرة العرب، حديث:1767.»

حدیث نمبر: 1119
وعنه رضي الله عنه قال: كانت أموال بني النضير مما أفاء الله على رسوله مما لم يوجف عليه المسلمون بخيل ولا ركاب فكانت للنبي صلى الله عليه وآله وسلم خاصة فكان ينفق على أهله نفقة سنة وما بقي يجعله في الكراع والسلاح عدة في سبيل الله عز وجل. متفق عليه.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ بنو نضیر کے اموال، ان اموال میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی طرف پلٹا دئیے ہیں۔ جن پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ۔ یہ اموال خالص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال میں سے اپنی بیویوں پر سال بھر خرچ کرتے تھے اور جو باقی بچ رہتا اس سے گھوڑے اور اسلحہ جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے خرید فرماتے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1119]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجهاد، باب المجن ومن يترس بترس صاحبه، حديث:2904، ومسلم، الجهاد والسير، باب حكم الفيء، حديث:1757.»

حدیث نمبر: 1120
وعن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال: غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم خيبر فأصبنا فيها غنما فقسم فينا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم طائفة وجعل بقيتها في المغنم. رواه أبو داود ورجاله لا بأس بهم.
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ خیبر لڑا۔ اس میں ہمارے ہاتھ کچھ بکریاں غنیمت میں آئیں۔ ان میں سے کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں تقسیم کر دیں اور باقی کو غنیمت کے اموال میں شامل فرما دیا۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ایسے ہیں جن میں کوئی حرج نہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1120]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في بيع الطعام إذا فضل عن الناس في أرض العدو، حديث:2707.»

حدیث نمبر: 1121
وعن أبي رافع رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إني لا أخيس بالعهد ولا أحبس الرسل» ‏‏‏‏ رواه أبو داود والنسائي وصححه ابن حبان.
سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک میں نہ تو عہد شکنی کرتا اور نہ قاصدوں و سفیروں کو قید کرتا ہوں۔ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1121]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في الإمام يستجن به في العهود، حديث:2758، وابن حبان (الإحسان):7 /191، حديث:4857.»

حدیث نمبر: 1122
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏أيما قرية أتيتموها فأقمتم فيها فسهمكم فيها وأيما قرية عصت الله ورسوله فإن خمسها لله ورسوله ثم هي لكم» ‏‏‏‏ رواه مسلم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جس بستی میں بھی آؤ اور اس میں قیام رکھو تو اس میں تمہارا حصہ ہے اور جو بستی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمان ہو تو اس کا خمس اللہ اور اس کے رسول کا ہے پھر وہ بھی تمہیں میں تقسیم ہو گا۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1122]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الجهاد والسير، باب حكم الفيء، حديث:1756.»