وعن أبي عبيدة بن الجراح رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «يجير على المسلمين بعضهم» أخرجه ابن أبي شيبة و أحمد وفي إسناده ضعف. وللطيالسي من حديث عمرو بن العاص قال: «يجير على المسلمين أدناهم» . وفي الصحيحين عن علي قال:«ذمة المسلمين واحدة يسعى بها أدناهم» زاد ابن ماجه من وجه آخر: «ويجير عليهم أقصاهم» . وفي الصحيحين من حديث أم هانىء: «قد أجرنا من أجرت» .
سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ ” مسلمانوں میں سے کوئی بھی پناہ دینے کا مجاز ہے۔“ اس روایت کو ابن شیبہ اور احمد نے نقل کیا ہے۔ اس کی سند ضعف ہے۔ اور طیالسی میں عمرو بن عاص سے مروی ہے ” مسلمانوں کا ادنی آدمی بھی پناہ و امان دے سکتا ہے۔“ اور طیالسی میں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” مسلمانوں کا ادنی آدمی بھی پناہ و امان دے سکتا ہے۔“ اور صحیحین کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت میں ہے کہ ” تمام مسلمانوں کی پناہ ایک ہی ہے جس کے لیے ان کا ادنی آدمی بھی سعی کر سکتا ہے۔“ ابن ماجہ نے ایک اور طریقے سے اتنا اضافہ نقل کیا ہے۔ ” ان کا بہت دور کا آدمی بھی پناہ دے سکتا ہے۔“ اور صحیحین میں ام ہانی رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہم نے بھی امان دی جسے تو نے امان دی۔“[بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1117]
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد:1 /195، وابن أبي شيبة:12 /451، 452.* حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس وعنعن، وللحديث شواهد، وحديث عمرو بن العاص: أخرجه الطيالسي: لم أجده، وهو في مسند الإمام احمد:4 /197 وغيره [أبوداود، الديات، حديث:4531، وابن ماجه، الديات، حديث:2685 من حديث عبدالله بن عمرو بن العاص] ، حديث علي: أخرجه البخاري، الاعتصام بالكتاب والسنة، حديث:7300، ومسلم، الحج، حديث:1370، وابن ماجه، الديات، حديث: 2683، وحديث أم هانيء: أخرجه البخاري، الجزية والموادعة، حديث:3171، ومسلم، صلاة المسافرين، حديث:719.»
المسلمون تتكافأ دماؤهم يسعى بذمتهم أدناهم يجير عليهم أقصاهم هم يد على من سواهم يرد مشدهم على مضعفهم ومتسرعهم على قاعدهم لا يقتل مؤمن بكافر لا ذو عهد في عهده
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1117
تخریج: «أخرجه أحمد:1 /195، وابن أبي شيبة:12 /451، 452.* حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس وعنعن، وللحديث شواهد، وحديث عمرو بن العاص: أخرجه الطيالسي: لم أجده، وهو في مسند الإمام احمد:4 /197 وغيره «أبوداود، الديات، حديث:4531، وابن ماجه، الديات، حديث:2685 من حديث عبدالله بن عمرو بن العاص»، حديث علي: أخرجه البخاري، الاعتصام بالكتاب والسنة، حديث:7300، ومسلم، الحج، حديث:1370، وابن ماجه، الديات، حديث: 2683، وحديث أم هانيء: أخرجه البخاري، الجزية والموادعة، حديث:3171، ومسلم، صلاة المسافرين، حديث:719.»
تشریح: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مرد کی طرح عورت کی امان بھی جائز ہے۔ اکثر فقہائے کرام کا یہی موقف ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا» یہ ابوطالب کی صاحبزادی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ تھیں۔ ان کا نام فاختہ تھا اور ”ہند“ بھی بتایا گیا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئی تھیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1117
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2751
´اس فوجی دستہ کا بیان جو واپس لوٹ کر لشکر میں مل جائے۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کے خون برابر ہیں ۱؎ ان میں سے ادنیٰ شخص بھی کسی کو امان دے سکتا ہے، اور سب کو اس کی امان قبول کرنی ہو گی، اسی طرح دور مقام کا مسلمان پناہ دے سکتا ہے (گرچہ اس سے نزدیک والا موجود ہو) اور وہ اپنے مخالفوں کے لیے ایک ہاتھ کی طرح ہیں ۲؎ جس کی سواریاں زور آور اور تیز رو ہوں وہ (غنیمت کے مال میں) اس کے برابر ہو گا جس کی سواریاں کمزور ہیں، اور لشکر میں سے کوئی سریہ نکل کر مال غنیمت حاصل کرے تو لشکر کے باقی لوگوں کو بھی اس میں شریک کرے، کسی مس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2751]
فوائد ومسائل: یہ اس صورت میں ہے۔ کہ جہاد میں نکلتے ہوئے بڑے لشکر میں سے کسی دستے کو علیحدہ کرکے کسی خاص مہم پر بھیجا جائے۔ لیکن اگر مرکز ہی سے کسی چھوٹے دستے کو روانہ کیا گیا ہو اور بڑے لشکر سے علیحدہ نہ کیا گیا ہو تو اس میں دوسروں کا حصہ نہ ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2751